میں ایک ریت کا زرہ



روح زمین پر جب پہلا انسان پیدا ہوا تو اسی دن سے انسان کی قدر و قیمت اس کا مقام، کردار، رتبہ، اور اس کی ذاتیات کو پرکھنے کے لے طرح طرح کے کلیات بتائے گے اور سوچا گیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کیسے یقین کی شمع کو جلا سکتا ہے۔ اس فانی دنیا میں ہزاروں چہرے آئے اور اپنی زندگی کے ایام پورے کرنے کے بعد اپنی حقیقی زندگی یعنی آخری منزل کی طرف روانہ ہوگے۔ جو اس عارضی زندگی سے ایک بار کوچ کر گیا پھر وہ واپسی نہ آیا نہ کسی کو بتا سکا کہ آخرت میں کیا حقیقت ہے کاش کہ ہمیں ہماری زندگی کی حقیقت کا پتا لگ جائے کہ ہماری یہ چند لمحات پر مشتمل حیات کا وجود کن بنیاد پر ہوا۔

اس دنیا میں آنے والا ہر آدمی اپنے آپ کو مکمل اور گناہ سے پاک سمجھتا ہے۔ اور باقی سب حقیر ہیں صرف میں ہی ایک واضح اور صاف گو شخصیت ہو۔ مگر میرے لحاظ سے ہماری سب سے بڑی بھول ہے۔ سب اپنے آپ کو اس عارضی زندگی کا ٹھیکیدار تصور کرتے ہیں۔ میرے لحاظ سے یہ ایک جہالت پر مبنی عمل ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں (میں ایک ریت کا زرہ ) ۔ جب ایک بچہ اپنی ماں کی کوک میں پلنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ تو بنیادی کام کیا ہوتا ہے جس کی بنیاد پر ایک بچے کا وجود تیار ہوتا ہے۔

میرے خیال سے ہر ایک آدمی اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا۔ وہ قطرہ جو بدبودار اور غلاظت سے بھرا ہوتا ہے۔ اسی لے اس دنیا میں جس بندے میں عاجزی ہوگی وہ بندہ اپنے تخلیقی عمل کو کبھی بھول نہیں سکتا ہے۔ انسان ہر طرح سے بے آسرا ہے۔ اگر اللہ رب عزت کی مدد ساتھ نہ ہو تو ہمارے پاس کروڑں کیا بلکہ اربوں ڈالرز بھی ہو تو کسی کام نہ آئے گے۔ ہمیں ہماری جوانی کی زندگی اندھا کر دیتی ہے۔ اور معاشرے میں لوگوں کا عزت و وقار کی اہمیت سے غافل کر دیتی ہے۔

کیو کہ ہم اپنے نفس کی سنتے ہیں اور جس نے اپنے نفس کی سنی وہ ایک دن ضرور اپنی بربادی پائے گا۔ ہمیں ہماری زندگی کو اس نفس کے جال سے بچانا ہوگا۔ ہمیں ہمارے نفس کی چالاکی کو سمجھنا ہوگا۔ میرا ایک دوست ہے اس کی آب بیتی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اسے جوانی کی لت لگ چکی تھی ہر آنے والا دن والدین کے لے بڑا صدمہ لے کر آتا کبھی کسی سے لڑائی کر کے آتا تو کبھی کسی کی عزت پر بات کر دیتا۔ بس لگتا ہے کسی غریب کی بد دعا تھی جو میرے پھولوں جیسے دوست کواس کے کیے کی سزا ملی۔

ایک دن اچانک موٹر سائیکل سے گر گیا سر کے دو ٹکڑے ہو گے بازوں، ٹانگیں، سینے کی ہڈیاں سب ٹوٹ گی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ اس کا بچنہ نہ ممکن ہے۔ مگر مالک و کریم کی ذات سے بڑی ذات تو کسی کی نہیں ہے۔ یہ بندہ کومہ میں چلا گیا اب سب معجزے کا انتظار کر رہے تھے۔ 7 فروری 2018 کو یہ کومہ میں مبتلا ہو گیا اور مسلسل پانچ ماہ کومہ میں رہنے کے بعد تقریباً 11 جولائی 2018 کو عصر کے وقت اس کی آنکھ کھلی اور پہلی آواز اللہ و اکبر کے کلمات تھے جو کہ عصر کی اذان کے کلمات تھے۔

وہ دن اور آج کا دن اس بھائی کی زبان پر صرف ایک ہی ورد ہے اللہ و اکبر۔ اسی لیے میں کہتا ہوں ( میں ایک ریت کا زرہ ) ۔ اگر ہمارے مالک و دو جہاں ہمیں پیدا کر سکتے ہیں اور اتنی دولت و جاگیر سے نواز سکتے ہیں تو اس سے ہمیں معذور بھی کر سکتے ہیں۔ اسی لیے میری یہ عرض ہے۔ ہماری زندگی کی حقیقت ایک غلیظ اور بدبودار قطرہ ہی تو ہے پھر میں میں کس بات پر۔ ہم مکمل نہیں ہیں ہمارے اندر ہزاروں نقص ہیں۔ اگر ہم ہمارے نقائص کو دیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں تو ہمیں ہماری خوبیوں کی فکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں کرنی چاہیے۔ تھوڑا سا ڈر عمر کی دلیری ثابت کر تا ہے۔ خدارا ذرا سوچیں اور اشرفالمخلوقات ہونے کا ثبوت دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments