حفیظ شیخ کی رخصتی پر بلاول کیوں خوش ہیں؟


وزیر خزانہ کے طور پر عبد الحفیظ شیخ کو سبکدوش کرنا شاید بڑی خبر نہیں ہے لیکن پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اس پر اظہار مسرت ضرور حیرت کا سبب ہے۔ سیاسی مجبوریوں اور ضرورتوں کے تحت پی ڈی ایم کے خاتمہ کا اہتمام کرنے کے بعد اب بلاول بھٹو زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ حفیظ شیخ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ دراصل پی ڈی ایم کی کامیابی ہے۔ انہوں نے اصرارکیا کہ ’پارلیمانی ہتھکنڈوں سے موجودہ حکومت کا مقابلہ ہی درحقیقت مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے‘۔
گرمئی گفتار میں بلاول بھٹو زرداری یہ بتانا بھول گئے کہ وہ کس پی ڈی ایم کی بات کررہے ہیں، جو ان کے بقول فیصلے کرتے ہوئے انہیں اور آصف زرداری کو اعتماد میں نہیں لیتی اور جس کے فیصلوں کو سیاسی ضرورت کے مطابق مسترد کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو کوئی تردد بھی نہیں ہوتا۔ یوسف رضا گیلانی کو متفقہ فیصلہ کے برعکس سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوانا ایسا ہی فیصلہ تھا۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بخوبی علم تھا کہ یہ فیصلہ پہلے سے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی تھا اور اس سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ براہ راست تصادم کا راستہ ہموار ہوتا۔ اس کے باوجود بلاول بھٹو زرداری ، یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوانے کے لئے جماعت اسلامی کے مرکز تک پہنچ گئے اور سراج الحق کی حمایت حاصل کرنے میں ’کامیابی‘ حاصل کی۔ اس بات کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے خلاف جماعت اسلامی کی تائید سے پیپلزپارٹی نے جو کامیابی سمیٹی ہے، وہ مستقبل میں اس کے لئے کون سی آسانیاں پیدا کرے گی یا خفت کا باعث ہوگی۔
حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ سے علیحدہ کرنے کے معاملہ پر بلاول نے فوری بیان میں اسے پی ڈی ایم کی کامیابی قرار دیا ہے اور پھر بین السطور پارلیمنٹ میں حکومت کی مزاحمت کرنے کو درست حکمت عملی بتایا ہے۔ اسے بھی دراصل پیپلز پارٹی کا اظہار شرمندگی ہی سمجھنا چاہئے۔ یا اس خوشی کا سبب یہ نکتہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے پرجوش اتحاد کو غیر مؤثرکرنے کا جو ’مشن‘ آصف زرداری نے قبول کیا تھا، اب پارٹی چئیرمین اس کی کامیابی کا جشن منارہے ہیں۔ البتہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ پارلیمانی مزاحمت ہی حکومت کو راہ راست پر رکھنے کا سب سے بہتر راستہ ہے، بلاول بھٹو زرداری کو یہ بھی بتادینا چاہئے تھا کہ پھر وہ اس راستے سے بھٹک کر سیاسی طاقت کے زور پر حکومت گرانے اور سیاست گری کا نظام تبدیل کرنے کا اعلان کرنے والے اپوزیشن اتحاد میں کیوں شامل ہوئے تھے۔
جس آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان جمہوری تحریک قائم کرنے کا فیصلہ ہؤا تھا ، اس کی میزبانی پیپلز پارٹی نے ہی کی تھی ۔ پارلیمنٹ سے باہر سیاسی جماعتوں کا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ اسی وقت کیا جاتا ہے جب سیاسی گروہ پارلیمنٹ میں کسی قابل قبول تبدیلی میں ناکام ہورہے ہوں، حکومتی فیصلوں اور قانون سازی پر اپوزیشن کا اثر و رسوخ محدود کردیا جائے بلکہ وزیر اعظم کی سرکردگی میں حکمران جماعت مخالف سیاسی پارٹیوں کے نمائیندوں کو عزت و وقار دینے پر تیار نہ ہو۔ اگر پارلیمنٹ میں حالات کار پیپلز پارٹی کی ضرورت اور بلاول بھٹو کی خواہش کے مطابق تھےاور آصف زرداری کو پرامن انتقال اقتدار کا یہ راستہ سیاسی ہنر مندی میں سب سے بہتر اور مناسب لگتا تھا تو ’نامزد وزیر اعظم‘ کی تکرار کرتے ہوئے جلسوں میں گلے پھاڑنے اور عوام کو دھوکہ دینے کا کیا مقصد تھا۔ یا پھر مسلم لیگ (ن) کا یہ الزام درست مان لیا جائے کہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے مسلم لیگ (ن) کو استعمال کیا ہے اور جب اس کا مقصد پورا ہوگیا تو اس نے اپنا راستہ علیحدہ کرنے میں دیر نہیں کی۔
یہ سوال کسی بھوت کی طرح پیپلز پارٹی کا پیچھا کرتا رہے گا کہ پی ڈی ایم میں جو بھی ہؤا ہو لیکن یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنوانے کے لئے بلوچستان کے ایسے سینیٹرز کی ’تائید‘ حاصل کرنے کا کیا مقصد تھا جو حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور چئیرمین سینیٹ کے انتخاب میں انہوں نے صادق سنجرانی کوووٹ دیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی جب چئیرمین سینیٹ منتخب نہیں ہوسکے تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے عدالتی راستہ اختیار کرنے کے علاوہ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ عدالتوں سے ’انصاف‘ کا راستہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بتا کر مسدود کردیا ہے کہ آئین عدالتوں کو پارلیمنٹ کے معاملات پر فیصلے دینے کا اختیار نہیں دیتا۔ عدم اعتماد کا راستہ صادق سنجرانی کے توسط سے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنوا کر پیپلز پارٹی نے خود کھوٹا کرلیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے صادق سنجرانی کی حمایت حاصل کرتے ہوئے، جواب میں کوئی وعدہ تو کیا ہوگا؟
ابھی تو پیپلز پارٹی کو مریم نواز کے اس الزام کا جواب بھی دینا ہے کہ آصف زرداری نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں پنجاب حکومت تبدیل کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ نامزد کرنے والے بھی اس تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ آصف زرداری ضرور اپنے پرانے حلیف پرویز الہیٰ کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوا کر آئیندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے علاوہ پیپلز پارٹی کے لئے ’سازگار‘ ماحول پیدا کرنے کے خواہاں ہوں گے لیکن خود کو سب پر ’بھاری‘ قرار دلوانے والے زرداری یہ بھول گئے کہ جس طرح پیپلز پارٹی کے لئے سندھ حکومت چھوڑنا سیاسی خود کشی کےمترادف ہے، اسی طرح مسلم لیگ (ن) پرویز الہیٰ جیسے کائیاں سیاسی مخالف کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنوا کر اپنے ہاتھ پاؤں بندھوانے کا اہتمام نہیں کرسکتی تھی۔ نواز شریف مستقبل کے انتخاب میں پنجاب ’سویپ‘ کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ پرویز الہیٰ اس خواب کو پریشان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عثمان بزدار جیسے بے ضرر شخص کا وزیر اعلیٰ رہنا مسلم لیگ (ن) کے مفاد میں ہے تاآنکہ وہ خود صوبے میں حکومت قائم کرنے کے قابل نہ ہوجائے۔ یہ جانتے ہوئے بھی نواز شریف کو اپنے ہی ’سیاسی قتل ‘ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ گویا آصف زرداری سیاسی بساط کے کیسے ہی مشاق کھلاڑی ہوں، غلط موقع پر غلط بات کہنے کی غلطی تو ان سے بھی سرزد ہوسکتی ہے۔
پی ڈی ایم کو حفیظ شیخ کی رخصتی کا کریڈٹ دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے دراصل پیپلز پارٹی کی اس مجبوری کا اظہار کیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپوزیشن کے اس نام نہاد اتحاد کا حصہ رہنا چاہتی ہے۔ سیاسی مفاد کے لئے کرتب دکھانے کے بعد اپوزیشن کا حصہ بنے رہنا پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی مجبوری ہے۔ ورنہ پارٹی کی سیاسی شناخت مستقل طور سے دھندلا جائے گی اور اسے بھی اسٹبلشمنٹ نواز پارٹی سمجھا جائے گا۔ آصف زرداری اپنی تمام تر مصلحت پسندی کے باوجود خود کو ان عناصر کے ساتھ منسلک نہیں دیکھنا چاہتے جو ملک میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی حقیقی طاقت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی بنیاد اینٹی اسٹبلشمنٹ ہے۔ پارٹی کا مخلص کارکن اب بھی پارٹی کو جمہوری روایت اور عوام دوستی کے منشور کا نمائیندہ سمجھتا ہے۔ اور آصف زرداری کی سیاسی ہنر مندی کو ملکی سیاست کی ضرورت سمجھ کر نظر انداز کرنے پر آمادہ ہے۔ تاہم اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ پیپلز پارٹی کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کے باوجود، اس پر سو فیصد بھروسہ نہیں کرے گی۔ یا مستقبل میں سیاسی اقتدار کے لئے اس کا راستہ ہموار کرنے میں ویسے معاونت نہیں کی جائے گی جیسا کہ اس نے تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے کیا ہے۔ بلاول اور آصف زرداری کو سیاسی کامیابی کے لئے عوامی حمایت کا راستہ خود ہی کاشت کرنا ہوگا۔ اس مقصدکے لئے اینٹی اسٹبلشمنٹ کا نعرہ بے حد ضروری ہے۔ بلاول کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آصف زرداری کو اس حقیقت کا ادراک ہے۔
سینیٹ انتخاب میں شکست کے بعد کابینہ سے حفیظ شیخ کی علیحدگی نوشتہ دیوار تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان ایک پٹیشن پر سماعت کے دوران یہ نکتہ اٹھا چکے ہیں کہ منتخب ہونے میں ناکام ہوکر کوئی شخص کیسے وزارت سے چمٹا رہ سکتا ہے؟ حفیظ شیخ کو گزشتہ سال دسمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کے بعد وزیر کا درجہ دیا گیا تھا جس میں قرار دیا گیا تھا کہ کوئی مشیر یا معاون خصوصی کابینہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتا۔ آئین کے تحت کوئی غیر منتخب شخص 6 ماہ تک وزارت پر فائز رہ سکتا ہے۔ یہ مدت اگرچہ جون میں ختم ہونا تھی لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی پالیسیوں کی ناکامی کا ملبہ حفیظ شیخ پر ڈال کر خود سرخرو ہونے کی کوشش کی ہے۔ حفیظ شیخ کے بعد بھی حکومت ان تمام معاشی اقدامات پر مجبور ہوگی جو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت نافذ کرنا اس کی مجبوری ہے۔ ملک میں مہنگائی کی اصل وجہ عالمی اداروں کی شرائط پر پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ عمران خان ’ونڈر بوائے‘ حماد اظہر کو وزیر خزانہ بنا کر اس صورت حال کو تبدیل نہیں کرسکتے۔
ماضی کی سیاسی حکومتوں کی طرح یہ ممکن ہے کہ تحریک انصاف بھی انتخاب قریب آنے پر آئی ایم ایف کی پابندیوں سے درگزر کرے اور اس کے ساتھ مالی تعاون کا موجودہ پروگرام ترک کردیا جائے۔ اس طرح ایک خاص مدت میں بظاہر عوام کو سہولت دینے کا اہتمام ضرور ہوسکے گا لیکن بعد میں اس سیاسی فیصلہ کی قیمت عوام ہی سے وصول کی جائے گی۔ قومی معیشت کو خود مختاری کی طرف گامزن کئے بغیر کوئی حکومت پاکستان سے مہنگائی اور معاشی احتیاج کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس مقصد کے لئے قومی سیاسی قوتوں اور اداروں کے درمیان جس افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے ، وہ ہنوز مفقود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments