وبا کے ڈپریشن بھرے دنوں میں لکھا گیا ایک پرانا خط


جان سے پیاری حفصہ عامر!
السلام علیکم۔

سب سے پہلے تو یہ دعا کرو یہ خط جان محمد نہ پڑھے، کہیں برا ہی نہ منا جائے نا، سمجھا کرو۔ ہاں! سچل اب بہتر ہے، انگلی کی اسکن گرافٹنگ ہو چکی ہے، دعا جاری رکھنا اس کے لئے۔

اچھا تو پیاری راج دلاری!
آپ کیوں پریشان ہوتی ہو؟

کیوں دنیا غم کا گھر لگ رہی ہے؟ آپ جو پہلے ہی ذہن میں بلاوجہ امڈتے چکراتے سوالوں سے بے حال تھیں، اب ہنستے کھیلتے نوجوان سشانت سنگھ کی اچانک خود کشی اور ہم سب کی پسندیدہ ہستی ”طارق ہردلعزیز“ کی ناگہانی رحلت نے آپ کے دل میں غم کے مزید جھکڑ چلا دیے ہیں۔

سنو گڑیا!
”پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے جنم لیتی ہے، حالات پر قابو پانا ہے تو حواس پر قابو پانا سیکھو!“

دیکھو! مجھے باقی لوگوں کا علم نہیں، لیکن ہماری خوش نصیبی 4200 مذاہب عالم میں سے مسلم اور امتی ہونا ہے۔ اس کامل ایمان کے ساتھ کہ ہمارا پیدا کرنے والا ہمیں ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، وہ ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ ماں تو یار ایک ہی نہیں مان! پھر ستر مائیں؟

ذرا سوچو تو! آپ کالج سے گھر جاؤ، تو ستر ڈشز بنی ہوں کھانے کے لئے، 140 ہاتھ بڑھیں سینے سے لگانے کے لئے، یہ تصور ہی کتنا جانفزا ہے، یقین مانو! اٹھائیس سال ہو گئے ہیں ماں کی نرم گرم آغوش سے بچھڑے ؛ لیکن یہ سطور لکھتے ہوئے ایک سرور سا رگ و پے میں دوڑ گیا ہے، ماں کے سینے کا سکون باقاعدہ محسوس ہوا ہے!

اچھا! کان ادھر لاؤ!
پتہ کیا؟

یہ جو تمھارے ساتھ ہو رہا ہے نا! کبھی کبھار میرے ساتھ بھی ہوتا ہے ؛ بیٹھے بیٹھے اچانک دل ڈوبنے لگتا ہے ؛ کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ؛ ہاتھ پاؤں کے تلوؤں میں ٹھنڈے پسینے ؛ بلاوجہ رونے کا دل کرتا ہے ؛ امید کی نیا مایوسی کے گرداب میں ایسے ہچکولے کھاتی ہے ؛ مانو ڈوب ہی تو جائے گی۔ لیکن شکر ہے۔ مجھے جلدی یاد ا جاتا ہے کہ یہ سب اس منحوس مارے، شیطان مردود کی چالیں ہیں۔

جان! اس کا تو کام ہی یہی ہے۔

وہ تو خود ابلیس یعنی ”مایوس ہوا ہوا“ ہے، یہ ٹینشن، ڈپریشن، اینگزائٹی اور نتیجتاً شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ۔ یہ سب اسی لعین نے پھیلائی ہوئی ہیں، انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے، مینج کرنا ہوتا ہے انھیں، بلکہ ہمارے ایک ڈاکٹر چچا کے بقول تو یہ مسلمانوں کی بیماریاں ہیں ہی نہیں!

میری جان! ہم کیوں اداس ہوں؟
ہمارے لئے تو یہی فرمان ہے نا:

لا تحزن ان الل۔ ٰہ معنا○
غم نہ کھاؤ بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
سورۃ التوبۃ ( 40 )
ایک بات بتاؤ!

آپ جب بھی کوئی فن پارہ تخلیق کرتی ہو، تو اس کی بہت حفاظت کرتی ہو نا؟ پھر ہمارا بنانے والا ہمیں تنہا کیوں چھوڑے گا؟ یہ تو ہم نے ہی اس کی بات پر کان دھرنا چھوڑ دیے ہیں۔

ہمیں وہ رب دوجہاں کہتا ہے :
وما کان ربک نسیاً‌
اور تیرا رب بھولنے والا نہیں۔
(سورۃ مریم، آیت نمبر: 64 )
پھر یوں تسلی دیتا ہے :
وھو معکم اینما کنتم (سورہ حدید؛ 4 )
تم جہاں کہیں ہو، وہ (اللہ ) تمہارے ساتھ ہے۔
تو پھر غم کاہے کا؟

دنیا میں جب کوئی کسی بڑے آدمی کا نوکر بھی ہوتا ہے نا تو اتراتا پھرتا ہے کہ جی ہمیں تو مسئلہ ہی کوئی نہیں، صاحب بہت بڑا آدمی ہے۔

چندا!
”ربنا صاحبنا و افضل علینا“

ہمارا صاحب تو کل کائنات کا خالق اور عرش عظیم کا مالک ہے۔ ہم کیوں غم کریں؟ بلکہ کیوں نا صرف اس کے احکام پہ سر خم کریں؟

اچھا دیکھو! جب بھی آپ کوغم کی گھٹائیں گھر گھر کے آتی دکھائی دیں، مایوسی کے بادل ذہن کے افق پر منڈلانے لگیں، تفکر کی پرچھائیاں دھند کی ایسی دبیز چادر تان لیں کہ صبح نو کا روشن سویرا بھی شام غریباں دکھائی دینے لگے تو فوراً چوکس ہو جاؤ۔ جیسے موسم کے بدلتے تیور دیکھ کر آنگن میں سے چیزیں سمیٹتی ہو، بالکل ایسے ”لا تقنطو من رحمۃ اللہ“ کی چھتری تان کر ”لاحول ولا قوۃ الا باللہ“ کا ورد کیا کرو،

ارے گڑیا! یہ صرف شیطان کو بھگانے کا نسخہ نہیں ہے، بلکہ اس امر کی یقین دہانی ہے کہ
” نہیں ہے کوئی طاقت اور قوت سوائے اللہ کے“
اور
”وہ ہمارا ہے، ہمارے ساتھ ہے۔“

ہمارے پیارے نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق یہ کلمہ 150 / 90 بیماریوں کا علاج ہے جس میں سے سب سے چھوٹی ”حزن“ یعنی ڈپریشن ہے۔ اس سب کے لئے بس آپ کو اپنی تھوڑی سی ذہنی تربیت کرنا پڑے گی کہ بیماری کے حملے کے آغاز میں اس سے نبٹنے کے لئے تیار ہو جاؤ، بلکہ سچ بتاؤں تو ہمیں بطور ویکسین پانچ وقت کی نماز کے ساتھ روزانہ درود ابراہیمی کے ہمراہ کم از کم ایک ایک تسبیح اس کلمے (لاحول۔ ) ، استغفار اور آیت کریمہ کی کرنا چاہیے۔ یار اتنی قیمتی زندگی کے لئے اتنا بھی نا کریں؟

اچھا بس! خبردار! اب نہ میں سنوں!

سیلف لاک ڈاؤن کے پہلے سے پژمردہ دنوں میں کبھی تمھیں سارہ شہروز کی طلاق ہفتوں تک آزردہ رکھے اور کبھی کسی راجپوت کا زندگی کی جنگ ہار جانے کا حادثہ غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈال کر بیمار کر ڈالے۔ بے شک یہ دنیا مومن کے لئے دارالمحن ہے۔ لیکن سوہنی شاہزادی! یہ امتحان گاہ بھی تو ہے؟ ہمیں اس میں سرخرو ہونا ہے، جیسے دیکھو ہم سب کے ایک معنوں میں استاد اور محسن طارق عزیز کیسے نفس مطمئنہ کی طرح اپنے خالق کے حضور حاضر ہو گئے۔

بالکل اس آیت ربانی کے مصداق :
یا ایتھا النفس المطمئنۃ O ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ O فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتی O

”اے اطمینان والی جان اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تم اس سے راضی ہو ’وہ تجھ سے راضی پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو اور میری جنت میں آ“

ان شاءاللہ تعالیٰ العزیز!

چلو اٹھو! آپ بھی روشنی بنو اور روشنی پھیلاؤ! اب نہ سنوں الٹی پلٹی باتیں۔ میری سب سے لائق فائق اور فیورٹ اسٹوڈنٹ کا یہ حال ہو تو باقی کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، اسے آخری خط نہ سمجھنا، پوچھتی رہوں گی میں کہ کیا کیا تبدیلی آئی تمھارے اندیشہ ہائے دور دراز میں اور درون دل بھی! 😊💕

خوش رہا کرو، مسکرایا کرو، مسکراہٹ کا صدقہ بہت زیادہ بانٹا کرو! ہاں لیکن اہل خانہ میں۔ ادھر ادھر نہیں! 🤭😉

جیتی رہو، امی کو سلام کہنا!
تمھاری۔ جو آپ مجھے کہتی ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments