اردو کا نوحہ اور ”ہم سب“ کا سائبان


میری بنیادی تعلیم پر میری اماں، جو کہ ایک استانی بھی رہ چکی ہیں، نے انگریزی میڈیم اسکولوں میں میری داخلہ پر کیے گئے تجربات میں ناکامی کے بعد بالآخر مجھے شہر کے سب سے بڑے سندھی میڈیم سرکاری اسکول میں بھرتی کروا دیا اور وہیں سے میری باقاعدہ تعلیم کی شروعات ہوئی۔ انگریزی اورآسان (سلیس) اردو کے علاوہ میں نے تمام مضامین۔ میٹرک تک سندھی زبان میں پڑھے۔

جی ہاں جنرل سائنس سے لے کر معاشرتی علوم، اسلامیات حتاکہ بیالوجی، کیمسٹری، ریاضی اور فزکس تک سندھی میں پڑھائی اور سمجھائی گئی۔ انٹر میڈیٹ میں اماں کے شدید اصرار پر میں نے پہلی اور آخری بار پری میڈیکل (سائنس ) گروپ انگریزی میڈیم میں لیا اور ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد سیکنڈ کلاس میں پاس کر کے ہمیشہ کے لئے سائنس خاص طور پہ ریاضی سے توبہ کرلی۔

خوشا نصیب کہ اماں نے سائنس سے متعلق میری نا اہلی کو بھانپ لیا اور گریجویشن کے لئے مجھے انتخاب کا موقع دیا کہ جس میں دلچسپی ہو وہ مضمون لے لو۔ میں نے بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کو چنا جہاں مجھے تمام مضامین اردو اور انگریزی کے ساتھ سندھی زبان میں بھی پڑھنے کا اختیار حاصل تھا۔ یہاں آنے والے دنوں میں میں نے کتاب بینی سے لے کر پریزنٹیشن تک میں سندھی زبان کو ہی میڈیم کے طور پہ اپنایا۔

البتہ ایک سمیسٹر کے بعد یہ اندزہ بخوبی ہو گیا کہ اس ملک میں آگے بڑھنے کے لئے انگریزی آنا بہت ضروری ہے ورنہ آپ چاہے اپنے مضمون میں کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں آپ کو قابل نہیں مانا جائے گا جب تک کہ وہی بات آپ انگریزی میں بیان نہیں کر پاتے۔ اس لئے میں نے کتاب بینی کے دوران اب انگریزی کتب کا مطالعہ بھی شروع کر دیا اور جیسے ہی ماسٹرز کی ڈگری کے لئے قائد اعظم یونیورسٹی پہنچا تو کچھ ماحول اور کچھ قریبی دوستوں کی مدد اور توجہ کے بدولت ٹوٹی پھوٹی انگریزی لکھنا اور بولنا شروع کردی جو سلسلہ اب تک جاری ہے۔

یہ ساری تمہید جو میں نے یہاں تک باندھی ہے اس کا مقصد یہ باور کروانا تھا کہ شروع سے ہی میرا اردو سے واسطہ سوائے سننے اور بولنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اردو بولنے کے لئے میرے شہر میں اہل زبان لوگوں کی کوئی کمی نہیں اور سننے کے لئے انہی کے امام باڑوں میں سال بھر ہونے والی مجالس میں کبھی علامہ رشید ترابی تو کبھی علامہ نسیم عباس رضوی اور اب علامہ باقر زیدی صاحب، تو کبھی ہندوستان سے تشریف لائے علامہ سالم نقوی، کلب صادق اور ان کے علاوہ نجی محافل میں کئی دیگر ”اردو ربان“ کی عالم شخصیات سننے کو ملیں۔ البتہ پڑھنے اور لکھنے کی حد تک میرا واسطہ اسکول میں پڑھی ہوئی آسان (سلیس) اردو تک ہی رہا یہی وجہ ہے کہ ”ہم سب“ کے لئے لکھے گئے میرے چند شروعاتی مضامین انگریزی زبان میں تھے۔

مجھے اردو بولنے اور سننے سے محبت ہے اور اس سے زیادہ ان اردو بولنے والوں (اہل زبان) سے محبت ہے جنہوں نے ہجرت کے بعد نہ صرف اردو سے اپنا حسبی نسبی رشتہ جوڑے رکھا پر اس سے کہیں زیادہ محبت اس نئے وطن اور ان کے باسیوں سے کی جنہوں نے ان کو آنکھوں پہ بٹھایا اور رہنے کے لئے اپنا سائبان تک ان سے بانٹا۔ اردو سے اسی محبت کی وجہ سے میں نے پہلے محض املا کی غلطیوں کے ڈر سے کبھی اس زبان میں لکھنے کی سعی نہیں کی بجز ان چند اشعار کے جن کو شاید میں نے کبھی قابل اشاعت ہی نہیں سمجھا۔

اس لئے جب میں نے پہلی بار ہمت کر کے ”ہم سب“ کے لئے اپنا پہلا مضمون لکھا تو ہر لفظ اور ہر سطر پہ املا اور گرامر کی غلطیوں کا احتمال رہتا تھا، جس کے لئے میں نے اپنی آفس میں اردو میڈیم سے پڑھے ایک دوست سے املا کی تصحیح کرائی۔ جب میرے مضمون کی ”ہم سب“ پر اشاعت ہوئی تو اس میں کئی نئے الفاظ نے میرے لکھے ہوئے الفاظ کی جگہ لے لی جو کہ قدرے موزوں اور میرے احساسات کی بہتر ترجمانی کرنے والے تھے۔ اس لحاظ سے میں نے ”ہم سب“ کو نہ صرف اظہار کی آزادی منانے کے ایک پلیٹ فارم کے طور پہ بلکہ اردو کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اسے اردو سیکھنے اور اس کی ترویج کی ایک مکمل درسگاہ کے طور پہ پایا، جس نے مجھے اور میرے جیسے کئی اور لوگوں کو اردو سے اپنا پیار جتانے اور نبھانے کا موقع دیا۔

کچھ عرصہ پہلے مجھے محترمہ عارفہ سیدہ کا ایک وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ گویا اردو کا نوحہ پڑھ رہی تھیں۔ اور یہی وجہ بنی کہ آج میں اس موضوع پہ یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں۔ وڈیو پرانی تھی پر گفتگو سدا بہار اورسحر انگیز۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اردو بغاوتاً بولتی ہیں جس کی وجہ لوگوں کا اردو کی طرف رویہ ہے۔

ویسے تو میں دیگر کئی وجوہات کی بنا پر تہہ دل سے محترمہ عارفہ سیدہ کا نہ صرف احترام کرتا ہوں بلکہ ان کا معتقد اور محب ہوں، البتہ وڈیو میں کی گئی ان کی اس بات سے قدرے اختلاف رکھتا ہوں کہ ”اردو سے لوگوں کو اتنا مسئلہ اردو بولنے والوں (اہل زبان) کی وجہ سے ہے بلکہ شاید اصل غصہ ہی اردو بولنے والوں پہ ہے جو وہ اردو پہ نکالتے ہیں۔ اور یہ کہ ہم نے (علاقائی قومی زبانیں بولنے والوں نے) اپنی زبانوں (علاقائی قومی زبانوں) کواپنی علاقائی غرور کی کھونٹیوں پہ ٹانگ کے اردو کو اور نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے“ ۔

اس بات سے میں اس لئے بھی متفق نہیں کیونکہ میرا تعلق ارض وطن کے جس حصے سے ہے اس کو تقسیم کے بعد اردو بولنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنا نیا گھر بنایا۔ وقت کے نشیب و فرازاور نہ جانے کتنی غیرمرئی سیاسی طاقتوں کی طرف سے نفرت انگیز لسانی سیاست کا کھیل کھیلے جانے کے باوجود ہر دو جانب سے تعلقات استوار رکھنے کا ایسا چلن چلا کہ آج میرے شہر میں بولی جانے والی سندھی سے اردو اور اردو سے سندھی جھلکتی اور چھلکتی نظر آتی ہے۔

اس لئے میرا ماننا ہے کہ آج کی تاریخ میں بولی جانے والی اردو چاہے اردو معلیٰ یا ریختہ سے مشابہت نہ رکھتی ہو پر ان کا اپنے لہجوں میں اردو بولنا ان کی اس زبان سے محبت اور گہرے تعلق کی غماز ہے، جس نے نہ صرف اس وطن کے باسیوں کو آپس میں ایک دوسرے سے جوڑے رکھا پر بذات خود اس زبان سے بھی جوڑے رکھا ہے۔ اب اگر کوئی ”سخت“ کو ”سخت“ بولے یا پھر ”جی ہاں“ کو ”ہاں جی“ بولے یا پھر کرخت سندھی لہجے میں سندھی الفاظ کی ملاوٹ کے ساتھ اردو بولتا پایا جائے تو اس کو اردو سے نفرت یا بددلی کا سرٹیفیکیٹ دینا اس کے خلوص کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

بلکہ یہ تو زبان کی وسعت کہلائے گی اگر نئے الفاظ اور لہجے اس کا حصہ بنیں گے۔ اسی بات پہ اکثرمیرا مکالمہ سندھی زبان میں لکھنے والے سینئر سندھی لکھاریوں سے بھی ہوتا رہتا ہے جواکثر سندھی میں اردو یا انگریزی الفاظ کہ استعمال پہ نالاں نظر آتے ہیں اور ایسے رواج کو زبان (بولی) میں بگاڑ سے گردانتے ہیں۔ جبکہ دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کی تاریخ پہ نگاہ ڈالی جائے تو ان میں وہی زبانیں پھلی، پھولی اور پھیلی ہیں جنہوں نے گزرتے وقتوں کے ساتھ اپنے اندر نئے الفاظ اور لہجوں کو جگہ دی۔

جبکہ وہ زبانیں جن کے گرد لسانیات کے عالموں نے اس کی اصل ہیئت برقرار رکھنے کے لئے عصبیت کا گھیرا باندھا وہ یا تو اپنا وجود ہی کھو بیٹھیں یا پھر چند نفوس تک محدود رہ گئیں۔ جس کی مثال ہمارے خطے میں سنسکرت اور یورپ میں لاطینی سے دی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زبان چاہے کوئی بھی ہو اگر وہ اپنے رحم میں نئے لہجوں اور الفاظ کو پنپنے کے لئے جگہ نہیں دے گی تو ایک دن بانجھ ہو جائے گی۔

کسی بھی زبان سے محبت قابل تحسین عمل ہے کیونکہ یہی ذریعہ ہے انسانوں کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کا، ایک دوسرے کی بات سمجھنے کا اور سمجھانے کا، پسندیدگی اور نا پسندیدگی کے اظہار کا، ہاں پیار کے اظہار کا۔ اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ اپنی محبوب زبانوں کو اپنی خود ساختہ قدامت پسندی اور انا کی کھونٹی کے دار پہ چڑھا کے اس کا گلا نہ گھونٹیں اور اس کے وجود کے دشمن نہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments