بینک کا سود حرام نہیں ہے [حصہ سوم]۔


قرآن و سنت کا منع کردہ ربا (یوزری) ، جیسا کہ پچھلے کالم میں وضاحت کی گئی ہے، محتاج لوگوں کو قرض دے کر ان کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے استحصالی شرح اضافہ وصول کرنے کا نام ہے۔ یوزری، اسلام کی طرح، دنیا کی تمام تہذیبوں اور مذاہب میں بھی یکساں طور پر ایک نا پسندیدہ عمل رہا ہے کہ دنیا میں کسی معاشرے کا اجتماعی ضمیر غریب افراد کے مالی استحصال کو گوارا نہیں کر سکتا۔ لیکن جب ہم آج کے دور کے بینکنگ سسٹم میں لیے اور دیے جانے والے انٹرسٹ کے حوالے سے دنیا میں دیگر اقوام کے تصور اور طرزعمل کا تقابلی جائزہ مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کے رویے سے کرتے ہیں تو ایک مختلف صورتحال نظر آتی ہے۔ ہمارے بیشتر علما اس انٹرسٹ کو ربا کے مترادف اور حرام سمجھتے ہیں اور اس کے کسی متبادل کی تلاش میں ہیں، جبکہ باقی دنیا عمومی طور پر بینکنگ انٹرسٹ کے لینے اور دینے میں اخلاقی لحاظ سے کوئی قباحت نہیں سمجھتی۔

مسلمانوں میں اس مسئلے میں مخمصے کی ایک وجہ یہ ہے کہ تاریخ کے جس دور میں بینکنگ اور انٹرسٹ کا موجودہ نظام ارتقائی منازل طے کر رہا تھا اور یوزری اور انٹرسٹ کا فرق نمایاں ہو رہا تھا، اس وقت مسلمان سیاسی اور علمی زوال کی طرف جا رہے تھے۔ مغرب سے آنے والے ان نئے معاشی اداروں اور متعلقہ علمی استدلال کام ہم تنقیدی جائزہ تو نہ لے سکے البتہ اس حوالے سے ایک مخاصمانہ روش ضرور اختیار کر لی گئی۔ جب مسلمانوں میں بینکنگ، انشورنس اور دیگر معاشی اداروں نے رواج پانا شروع کیا تو علما نے ان میں انٹرسٹ کے عنصر کو ربا سمجھ کر عقیدے اور ایمان کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان ’کافرانہ‘ اداروں کا مسلمانوں میں فروغ روکنے کی کوشش کی۔ اس فتویٰ کو عملی طور پر ناکامی کا سامنا تو ضرور کرنا پڑا کہ یہ ادارے جدید دور کے انسان کی ایک بنیادی ضرورت تھے لیکن اس اجتہادی غلطی کے اثرات اب تک ہماری سوچ اور ہمارے رویوں میں اس حد تک ضرور موجود ہیں کہ ہم ان منفعت بخش مالی اداروں سے مطلوبہ حد تک استفادہ کرنے کے معاملے میں اب تک تذبذب کا شکار ہیں۔

انٹرسٹ کی بنیادی تفہیم کے لیے ہمیں جدید بینکنگ کی تاریخ پر بھی مختصر نظر ڈالنا ہو گی۔

پندرہویں اور سولہویں صدی میں جب بینکنگ نے اٹلی اور بعد ازاں دیگر یورپی ممالک اور انگلینڈ میں فروغ پانا شروع کیا تو اس کا بنیادی محرک تجارت کے لیے سرمائے کی فراہمی کے عمل کو آسان بنانا تھا۔ تجارت کا پھیلاو جس تیزی سے ہو رہا تھا سرمائے کی ضرورت میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا تھا۔ صنعتی ترقی کے آغاز سے نئے کارخانوں کے قیام کے لیے مالی سائل کی ضروریات نے بھی بینکنگ کے اداروں کے قیام اور ترویج کے لیے مہمیز کا کام دیا۔

مالی وسائل فراہم کرنے کے موجود ذرائع ناکافی ثابت ہو رہے تھے۔ چنانچہ سرمائے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سترہویں صدی سے بینکوں نے عام لوگوں سے بھی رقوم ڈپازٹس کی شکل میں وسیع پیمانے پر وصول کرنا شروع کر دیں۔ اس سے پہلے بینکوں کو سرمایہ زیادہ تر امرا فراہم کرتے تھے اور معاشرے کے عام افراد کی بچتوں کو متحرک کر کے سرمائے میں بدلنے کا کوئی اجتماعی نظام موجود نہ تھا۔ نئی صنعتوں کے قیام سے لوگوں کو روزگار کے بہتر ذرائع میسر آئے تو ان کی آمدنیوں اور بچتوں میں اضافہ ہوا اور پھر ان بچتوں کے بینکوں کے واسطے سے سرمائے میں ڈھلنے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا جو معاشی خوشحالی کی اساس اور مالی نظام کا ایک لازمی جزو بن گیا۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو اپنی بچتوں کو نفع آور بنانا چاہتے تھے اور دوسری طرف تجارتی اور صنعتی ادارے تھے جنہیں اپنے کاروبار کے پھیلاو اور پیداوار میں اضافے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی۔

بینکوں میں اپنی بچتیں رکھنے والے افراد جہاں زیادہ سے زیادہ منافع کے خواہش مند تھے وہیں تاجر اور صنعت کار کاروبار میں متوقع منافع کی عمومی شرح سے زیادہ انٹرسٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان دو فریقوں کی متضاد ترجیحات کو توازن میں لانے میں بینک کے ادارے نے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور انٹرسٹ کی شرح ایک ایسے معتدل درجے پر آ گئی جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔

حکومتوں کے اقتصادی معاملات میں پھیلتے ہوئے کردار، محاصل کے مقابلے میں بڑھتے ہوئے اخراجات، اور مالیاتی اور زری پالیسیوں نے قرض کے اس لین دین اور انٹرسٹ کی شرح کے تعین کے نظام کو ایک نئی جہت دی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مرکزی بینکنگ کا ارتقا بھی اس حوالے سے ایک بڑی پیشرفت تھی۔ حکومتوں کو اندرونی قرضوں کی فراہمی اور زری پالیسیوں کے نفاذ کے لیے مرکزی بینکوں نے اہم کردار ادا کیا اور ان کا یہ کردار مالیاتی مارکیٹوں کے پھیلاو کے ساتھ مزید بڑھ گیا۔

مرکزی بینک مالیاتی مارکیٹوں میں ٹریژری بلز یا بانڈز فروخت کر کے حکومت کے لیے قرض حاصل کرتے ہیں۔ یہ بلز اور بانڈز بینک، سرمایہ کار کمپنیاں اور دیگر مالیاتی ادارے خرید لیتے ہیں اور ان پر ایک مخصوص شرح پر انٹرسٹ وصول کرتے ہیں۔ مرکزی بینک ان بانڈز کی خریدوفروخت کے ذریعے، ملک کی معاشی صورتحال کی ضرورت کے مطابق، انٹرسٹ کی شرح میں رد و بدل کرتا ہے۔ اگر ملک میں پیسے کی رسد زیادہ ہو جائے (افراط زر) اور اس کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں میں ایک حد سے زیادہ اضافہ ہونے کا خدشہ ہو تو مرکزی بینک مالیاتی مارکیٹوں میں بانڈز فروخت کر کے انٹرسٹ کی شرح بڑھا کر پیسے کی رسد کم کر دیتا ہے اور انٹرسٹ ریٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے غیر حکومتی قرضوں کی طلب کم ہو جاتی ہے۔

اسی طرح اگر ملکی اقتصادی صورتحال پیسے کی رسد میں اضافے کی متقاضی ہو تو مرکزی بینک مالیاتی مارکیٹوں سے بانڈز خرید کر پیسے کی رسد بڑھا دیتا ہے۔ خیال رہے کہ ان بانڈز کی رسیدگی کے وقت کی اصل قیمت چونکہ اجرا کے وقت طے ہوتی ہے اس لیے انٹرسٹ کی شرح میں تبدیلی قیمتوں کے اتار اور چڑھا و کی متضاد سمت میں ہوتی ہے۔

اجتماعی حوالے سے جائزہ لینے کے بعد اب مختصراً انفرادی معاشی ضروریات اور ترجیحات کے پس منظر میں انٹرسٹ کے عمل کو دیکھتے ہیں۔

اگر ایک عام فرد کے پاس اپنی موجودہ ضرورت سے زیادہ پیسے ہوں یا وہ اپنی مستقبل کی ممکنہ ضروریات کے لے کچھ رقم پس انداز کرے تو اس کے پاس ایک اختیار تو یہ ہے کہ وہ ان بچتوں کو اپنے پاس کرنسی کی شکل میں رکھے یا بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں جمع کرا دے۔ اس صورت میں اس بچت کی حقیقی قدر افراط زر کی شرح کے مطابق کم ہوتی جائے گی۔ مثلاً اگر افراط زر 10 فیصد سالانہ ہو تو 7 سالوں میں بچائی ہوئی رقم اپنی تقریباً نصف حقیقی قدر کھو دے گی۔

اس رویے کی کسی معقول آدمی سے توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ دوسرا اختیار یہ ہو سکتا ہے کہ وہ پراپرٹی، شیئرز اور دیگر اثاثہ جات اور مواقع میں خود پیسہ لگائے۔ لیکن ہر ایک کے پاس اتنا وقت، پیسہ، علم اور قابلیت نہیں ہوتی کہ اس درجے میں منافع بخش سرمایہ کاری کر سکے۔ تیسرا طریقہ یہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ مشارکت اور مضاربت (اجتہادی غلطی کے شکار علما کا پسندیدہ طریقہ) کی بنیاد پر اپنا پیسہ دوسروں کے حوالے کر دیا جائے۔

یہ حکمت عملی کسی حد تک کام کر سکتی ہے اگر ہمیں کوئی فرشتہ صفت، مخلص، قابل بھروسا، با صلاحیت اور ایماندار شراکت دار افراد یا کمپنی مل جائے (اور یہ جنس نایاب ہے ) ۔ اگرچہ سٹاک ایکسچینج میں کمپنیوں کی خریداری بھی ایک طرح سے شراکت داری ہی ہے لیکن نام نہاد اسلامی بینک مشارکہ اور مضاربہ کے نام سے جو کچھ کر رہے ہیں وہ نام اور طریقہ کار کی تبدیلی کے ساتھ حقیقت میں انٹرسٹ ہی ہے۔

ان تین راستوں کے علاوہ ہمارے پاس اپنی بچتوں سے یقینی نفع حاصل کرنے کا واحد طریقہ انٹرسٹ ہی ہے جس میں ہم اپنے سرمائے کو ایک طے شدہ اضافے کی شرط کے ساتھ بینک کے حوالے کرتے ہیں۔ بینک اس سرمائے کو ان افراد اور اداروں کو قرض کی صورت میں دے دیتے ہیں جو اس سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بینک سے انٹرسٹ کی صورت میں ملنے والے منافع کی شرح عمومی طور پر سرمایہ کاری کے دیگر تمام آپشنز کی نسبت کم ہوتی ہے لیکن چونکہ فائدہ یقینی ہوتا ہے، وقت اور مہارت کی بھی ضرورت نہیں، اور پیسے کسی بھی وقت فوری طور پر نکلوائے جا سکتے ہیں، اس لیے بہت سے افراد اور اداروں کے لیے اپنی بچتوں کا ایک حصہ اس مد میں رکھنا فائدہ مند رہتا ہے۔

اگر انٹرسٹ کو یکسر ختم کر دیا جائے تو جہاں ایک طرف بچت کو بینک کی وساطت سے سرمائے میں بدلنے کا محرک ختم ہو جائے گا وہیں دوسری طرف سرمائے کی طلب کی انتہائی حد تک بڑھ جائے گی۔ نتیجتاً بینک سرمائے کی اس طلب کو پورا نہیں کر پائیں گے۔ انٹرسٹ کے علاوہ کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں ہے جو مالیاتی مارکیٹوں میں سرمائے کی طلب اور رسد کو توازن میں لا سکے۔

مزید براں، روایتی بینک کمرشل ادارے ہیں جو منافع کے حصول اور سرمائے کو متحرک کرنے کے لیے ہیں۔ وہ یقیناً بالواسطہ غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن محتاج اور غریب لوگوں کی مدد کرنا اور انہیں یوزری (ربا ) کا کام کرنے والے مہا جنوں کے ظالمانہ پنجے سے بچا نا حکومتی اور خیراتی اداروں کا کام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments