سرمد نے انکار کیا اور سولی چڑھ گیا


بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور جو اس طرح کی صورت حال میں ہوتا رہا ہے۔ جو اس سے قبل بھی ہوتا رہا اور شاید آئندہ بھی ہوتا رہے۔ کوئی نئی بات نہیں ہوئی جو کچھ معین قریشی نے کیا اور جو شوکت عزیز  نے کیا وہی کچھ حفیظ شیخ نے بھی کیا اور کام ختم ہونے پر بیگ اٹھایا اور چلتے بنے۔ اچھا ہوا یا برا ہوا ، ان کو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے ۔ ان کے ذمہ جو کام تھا ، وہ انہوں نے بخوبی اور احسن طریقے سے پورا کیا۔ باقی عوام جانے اور ان کا نصیب۔

یہ تو ابتدا ہے ابھی تو ایوان اقتدار کی غلام گردشوں سے بہت سے غلاموں نے نکلنا ہے ۔ بس مناسب وقت کا انتظار ہے جیسے ہی تبدیلی کا بگل بجے گا مسند نشین کے حاشیہ بردار، ملک و قوم کے درد میں پریشان حال درباری پہلی دستیاب پرواز سے اپنی سکونت کے مستقل پتوں کی جانب رواں دواں ہو گئے۔ کوئی کیا کر لے گا ، پہلے کسی نے کیا کر لیا۔ ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہوتا رہے گا۔

حفیظ شیخ کی شان میں قصیدے پڑھنے والے حامیوں نے یوٹرن لیا اور طوفان مچا دیا کہ حفیظ شیخ نا اہل تھا، اس کی نا اہلی کے سبب مہنگائی ہوئی۔ فوری طور پر حماد اظہر کا نام تجویز کیا گیا کہ وہ ٹیکسز کی بھرمار اور ریکارڈ قرضوں کی وصولی کے باوجود خالی خزانے کی حفاظت کریں گے۔ معاشی ماہر اور ملک کے سنجیدہ حلقے اس نامزدگی پر حیران تھے کہ میڈیا پر چلا کہ شوکت ترین کو مشیر خزانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس خبر کی کہیں سے تصدیق تو کہیں سے تردید ہونے لگی۔ جبکہ شوکت ترین نے پہلے ہی شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں یہ کہہ کر کہ حکومت نے سوا تیرہ فیصد پر شرح سود اور 165 روپے کا ڈالر کر کے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے پیغام دیا ہے کہ ساڈے تے ناں رہنا بھائیو!

اسی دوران پتہ چلا کہ انڈیا سے کاٹن اور چینی خریدنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ایک شدید عوامی ردعمل سامنے آیا کہ کشمیر کے ایشو کو حل کیے بغیر حکومت انڈیا سے تجارت کیسے کر سکتی ہے۔ عوامی ردعمل اتنا شدید تھا کہ حکومت کو اس فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس فیصلے پر میڈیا ذرائع کے مطابق اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جب وزیراعظم نے پوچھا کہ کس سے پوچھ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے تو نئے وزیر خزانہ حماد اظہر نے معصومیت سے جواب دیا کہ جناب وزیر اعظم! یہ آپ کی ہدایات تھیں جس پر عمل ہوا ہے اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

بے چینی، اضطراب اور انتشار اس حکومت کا خاصہ رہا ہے۔ خدا جانے حکومت کو کس چیز کی جلدی ہے جو کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنے کو تیار نہیں۔ اب تو پی ڈی ایم کا بھی زور ٹوٹ گیا ہے تو پھر کاہے کو پریشان ہیں۔ بلکہ اب تو پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس میں پی پی پی کو مدعو نہیں کیا جائے گا۔ شاید مولانا پی پی پی کی سی ای سی کے 5 اپریل کے اجلاس کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ اسی وجہ سے شاید انہوں نے مولانا شیرانی کی عیادت کے دوران کی گئی گفتگو سے اتفاق نہیں کیا۔

اتفاق تو پنجاب کے چیف سیکرٹری بھی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ سے نہیں کر رہے۔ کون کام کرے گا اور کون ٹرانسفر پوسٹنگ کرے گا تاحال فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔ وفاق کی طرح صوبائی سیکرٹریٹ بھی کنفیوژن کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اس ضمن میں میٹنگز کر رہے ہیں مگر لگتا ہے کہ دوسرے سیکرٹریٹ کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ حالت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے سیکرٹری علاقائی دوروں پر افسران کو طلب کرتے ہیں تو افسران شرکت نہیں کرتے۔ ان حالات میں کیسے کام چلے گا اور عوام کی تکالیف جو پہلے سے بڑھ گئی ہیں کیسے کم ہوں گی۔

شاید عوام کی قسمت میں تکالیف میں اضافہ ہی لکھا ہوا ہے ۔ کورونا کی نئی لہر  نے ایک بارپھر معاشی ترقی کا پہیہ آہستہ کر دیا ہے۔ مہنگائی سے پریشان حال عوام کو ماسک نہ پہننے پر مقدمات کا سامنا ہے۔ آئے روز گرفتاریوں اور مقدمات کے اندراج کے بعد عوام کی بے چینی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ ابھی گرمیاں شروع ہوئی ہیں ، امید ہے گرمیوں کو بجلی کے بلوں کے موصول ہونے کے بعد یہ بے چینی نقطۂ ابال کو پہنچ جائے گی اور اسی لیے شاید پی ڈی ایم ماہ رمضان کے بعد کسی تحریک کا پروگرام بنائے۔ اگر ایسا ہوا تو اندازہ یہی ہے کہ عوام شاید اپنے کھوئے ہوئے سکون کی تلاش میں بڑی تعداد میں نکلیں گے۔

تلاش تو اس وقت ایک نوجوان سرمد سلطان کی بھی سوشل میڈیا پر زور و شور سے جاری ہے۔ ایک پڑھا لکھا نوجوان جس کے فینز کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ تاریخی حقائق بیان کرتا ہے حالات و واقعات کے تحت سوال کرتا ہے۔ کیا سوال کرنا جرم ہے۔

جواب بھلے نہ دیں مگر سوال کرنے سے تو نہیں روک سکتے۔ سرمد کی ذاتی یا کسی اور وجہ سے غیر حاضری سے بہت سے سوال جنم لے رہے ہیں۔ سرمد سلطان کی سوشل میڈیا پر واپسی بہت ضروری ہے۔ امید ہے ملکی ادارے اس ضمن میں اپنا مثبت کردار ضرور ادا کریں گے تاکہ پیدا ہونے والے شکوک و شہبات رفع ہو سکیں۔ پاکستان کا ایک معتبر ادبی نام نورالہدیٰ شاہ صاحبہ نے سرمد سلطان کے نام ایک ٹویٹ کیا ہے جو کہ پیش خدمت ہے

سرمد
سرمد کو مسجد کے سامنے قتل گاہ میں کھڑا کیا گیا
ہجوم جمع تھا
بادشاہ جنتا کو سرمد کا انجام دکھانا چاہتا تھا
جلاد نے سرمد کا چہرہ ڈھانپنا چاہا
سرمد نے انکار کیا اور سولی چڑھ گیا
سہمے عوام نے مشہدی کا شعر سرمد سے منسوب کیا
اک شور بپا ہوا
ہم نے خواب عدم سے آنکھ کھولی
دیکھا
فتنے کی رات ابھی باقی ہے
ہم پھر سو گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments