محسن داوڑ کا آئینی ترمیمی بل


گزشتہ دن محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں خیبر پختونخوا کے نام کی آئینی ترمیمی بل پیش کیا ہے اور وجہ یہ بیان کیا ہے کہ چونکہ سرکاری اور عمومی طور پر نام کے طوالت کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے بجائے کے۔ پی یا کے۔ پی۔ کے لکھا اور پکارہ جاتا ہے اور اس نام کو دیگر صوبوں یعنی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی طرح مختصر کیا جائے تاکہ عمومی اور سرکاری طور پر اس کو آسانی سے پختونخوا لکھا پڑھا اور پکارا جائے۔ محسن داوڑ کے اس بل کو سپیکر قومی اسمبلی نے فرسٹ ریڈنگ کے لئے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔

اب بل منظور ہوتا ہے کہ نہیں یہ بعد کی بات ہے۔ لیکن اس بل کا منظور ہونا مشکل بلکہ بہت مشکل ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ موجودہ قومی اسمبلی میں محسن داوڑ اپوزیشن کے بینچوں میں ہیں اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن اقلیت میں ہیں۔ سینٹ میں گو کہ اپوزیشن بنچز اکثریت میں ہیں لیکن ایوان بالا میں یہ بل جب جائے گا جب یہ بل قومی اسمبلی سے پاس ہوگا۔ جہاں تک بل کے مسودے کا تعلق ہے وہ کسی بھی حوالے سے اختلافی نہیں ہیں اور ایسا ہی ہو رہا ہے اور ایسا ہی دکھ بھی رہا ہے اور محسن داوڑ بطور قومی اسمبلی کے ممبر کے حق بجانب بھی ہیں کہ وہ اپنے حلقے کے حوالے سے خصوصاً اور پورے صوبے کے حوالے سے عموماً وہ نکات قومی اسمبلی میں اٹھائیں اور اٹھاتے بھی رہے ہیں۔

لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ:۔ ہر چیز، ہر بات اور ہر معاملے کو زیر بحث لانے کا اپنا ایک وقت اور اپنا ایک محل وقوع ہوتا ہے پھر جا کے اس مسئلے اور بات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ محسن داوڑ میں ایسی کم مائیگی ہے کہ وہ کسی مسئلے کو سمجھے بغیر یا کسی مسئلے کے وقت اور محل وقوع کو جانتے بوجھتے بغیر قومی اسمبلی میں ٹیبل کریں۔ لیکن اس مسئلے کو اس وقت زیربحث لانا اس لئے زرہ سمجھ سے باہر ہے کہ قومی اسمبلی کا ممبر اکثر وہ باتیں اسمبلی میں زیر بحث لاتے ہیں جو ان کے حلقے میں رونما ہوتے ہیں اور حلقے کے لوگ اس سے متاثر ہو کر ان سے مطالبہ کریں یا احتجاج کریں جو کہ بظاہر ایسا مطالبہ یا مظاہرہ ان کے اپنے حلقے میں، میں نے نہ سنا اور نہ دیکھا اور نہ پورے صوبے میں ایسی کوئی احتجاج دکھائی دے رہی ہے کہ اس کے لئے فوری طور پر ترمیمی بل پیش کیا جائے، ہاں صوبے کے اگر عمومی طور پر نہیں تو خصوصی یا ایک حد تک یہ تاثر ضرور ہے کہ پختونخوا کا نام ملکی الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں پورہ پکارہ اور لکھا نہیں جا رہا ہے۔

اور پہلے یہ صوبہ این۔ ڈبلیو۔ ایف۔ پی سے جانا اور پہچانا جاتا تھا اور اب کے۔ پی۔ کے، کے نام سے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ این۔ ڈبلیو۔ ایف۔ پی کا مطلب بھی نارتھ ویسٹ فرنٹئیر پراونس یا شمالی مغربی سرحدی صوبہ تھا اور کے۔ پی۔ کے سے مراد بھی خیبر پختونخوا ہے۔ اور شارٹ کٹ میں پنجاب کے لئے پی بی۔ سندھ کے لئے ایس این اور بلوچستان کے لئے بی اے ایل اور ہم یہ ڈان اخبار میں اگر روزمرہ نہیں تو منہ کے ذائقے کے لئے کبھی کبھار دیکھتے اور پڑھتے بھی ہیں لیکن ان کا ( محسن داوڑ ) کا یہ مطالبہ ہے ہی نہیں اور نہ یہ بات ان کے بل کے مسودے میں شامل ہے کہ اوروں صوبوں کو بھی ایسے ہی پکاریں جیسے خیبر پختونخوا کو کے پی۔ کے لکھا اور پکارہ جاتا ہے بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ خیبر پختونخوا کو دیگر صوبوں کی طرح پڑھا، لکھا اور پکارہ جائے۔ اگر میری یادداشت کام کر رہی ہے تو سرکاری طور پر اس بارے میں نوٹیفیکیشن بھی نکل چکے ہیں اور سرکاری جگہوں خصوصاً ڈاک خانہ وغیرہ میں ایک عرصے تک وہ خط یا رجسٹری صرف کے پی لکھنے سے لیتے نہیں تھے اور پورا خیبر پختونخوا لکھنے کو کہا جاتا تھا لیکن شاید اب اس نوٹیفیکیشن پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ سینٹ الیکشن سے پہلے اسٹیبلشمنٹ نے سینٹ میں حکومت کی اکثریت لانے کی جتن بھی اسی لئے کر رہی تھی تاکہ بعد میں اٹھارہویں ترمیم میں اسانی ہو لیکن پیپلز پارٹی خصوصی طور پر اٹھارہویں ترمیم کو کسی بھی حال میں ختم نہیں کرنا چاہتی ہے کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد این۔ ایف۔ سی ایوارڈ کے اتنے پیسے یا فنڈ ملتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی احتساب کے کہ ایک تو زرداری وہ کھونا نہیں چاہتے دوسرے پیپلز پارٹی تقریباً سندھ تک محدود ہو چکی ہے تو وہ سارا زور ہی صوبائی خود مختاری پر لگا رہے ہیں۔

اب پیپلز پارٹی چاروں صوبوں کی زنجیر نہیں رہی کیونکہ اس کے پیچجے بینظیر نہیں ہیں، دوسرے یہ کی اٹھارہویں ترمیم میں خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ سندھ کے ”ھ“ کے ایچ یعنی sind کے بجائے sindh کیا گیا ہے۔ Baluchistan کے بحائے Balochistan کیا گیا ہے۔ اس میں وہ کسی بھی حوالے سے تبدیلی کے لئے تیار نہیں اور بالآخر سینٹ میں اپنی برتری لائی گو کہ ان کو پی ڈی ایم کی قربانی دینی پڑی۔ اب آتے اس طرف کہ اگر پختونخوا کے مسئلے پر ترمیم پر بحث شورو ہوئی تو ایک بار پھر علاقائی تعصب کے نعرے اٹھنے کا امکان ہے اور پشتو ہندکو سیاسی تصادم کو ہوا دی جائے گی۔

اور ایک بار پھر بابا حیدر زمان کے روپ میں کوئی اور اپنی سیاست چمکانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوگا۔ اور لگتا ہے کہ یہ جو نواز شریف اور اے۔ این۔ پی کا سیاسی جوڑ ہے اس کے توڑ کی بھی ایک کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ نواز شریف ہزارہ بیلٹ میں سیاسی طور پر مقبول ہے یا پھر کیپٹن صفدر کی شکل میں شاید کوئی لیڈر اس سیاست کو اگے بڑھائے جو آج کل باچا خان کی سیاست کا ہر جگہ حوالے دیتا رہتا ہے۔ اور مریم جو کہ علیل ہے (اللہ نہ کرے) لیکن شاید مزید علیل ہو جائے اور ان کو باہر روانہ کیا جائے ”ن“ کو ”ش“ میں اور پھر ”ص“ یعنی صفدر میں اور صفدر کو ہزارہ ہی سے بابا حیدر زمان کی شکل میں سیاسی طور پر پنپنے دیا جائے۔ اگرچہ اس وقت وہ ایک باغی دکھائی دے رہے ہیں پر سیاست میں وقت اور فیصلے بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بہر حال میرے خیال میں نام تو خیبر پختونخوا کے تبدیلی کا لیا جا رہا ہے پر پس پردہ مقاصد کچھ اور ہی نظر آرہے ہیں، خصوصی طور پر جس طرح حکومت نے بغیر کسی مخالفت کے بل کو اگے جانے دیا ہے اس سے سیاسی مخاصمت کا تعفن اٹھ رہا ہے، دیکھتے ہیں آنے والے وقتوں میں نتیجہ کیا نکلتا ہے بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments