اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم تقسیم کے دہانے پر


دس جماعتوں کا حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) ظاہری بیانات اور ٹی وی ٹاک شو میں ایک دوسرے پر جس قسم کے جملے بازی کی لپیٹ میں ہے ، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کا شیرازہ اگر نہیں بکھرا تو وہ دو حصوں میں تقسیم کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ نکلے تھے مل کر حکومت گرانے خود ہی باہم دست و گریباں ہو گئے۔ اس طرح بھلا حکومتیں گرا کرتی ہیں؟

اقتدار میں نہ ہوں تو اقتدار کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اقتدار کا فیصلہ کسی بھی طرح ہو جائے تو بازی ہار جانے والا دھاندلی دھاندلی کا ایسا شور مچاتا ہے کہ اسے اس کے سوا کوئی دوسرا کام ہی نہیں ہوتا۔ جو ہماری مرضی سے نہیں آیا اس پر سلیکٹڈ کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔

الیکشن 2018 کے نتیجے میں سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کو ملا، خیبر پختونخوا اور پنجاب پی ٹی آئی اور بلوچستان میں ’باپ‘ پارٹی اور اتحادیوں کی حکومت قائم ہوئی۔

پی ڈی ایم کا ڈول ڈالنے میں پی پی زیادہ پیش پیش تھی۔ حالانکہ وہ پہلے دن سے سندھ کی حکومت کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔ نہ ہی منتخب ایوانوں سے مستعفی ہونا چاہتی تھی۔ جب بھی استعفے دینے کی بات ہوتی پی پی کسی بھی طرح پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ادھر ادھر کی باتوں میں لگا دیا کرتی تھی۔ یہ کریڈٹ پی پی کو جاتا ہے کہ اس نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا، اسی نے سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ کیا ورنہ تو پی ڈی ایم کی بڑی جماعتیں نون لیگ اور مولانا تو اس کے حق میں تھے ہی نہیں۔

پی پی بڑی جماعت تھی ، اس لیے پی ڈی ایم کی جماعتیں پی پی کی رائے کر ترجیح دیتی رہیں۔ پی پی کے کئی رہنما صاف الفاظ میں ایوانوں سے مستعفی ہونے کے حق میں نہیں تھے یہاں تک کہ پی پی کی سی ای سی نے یہ فیصلہ کر بھی دیا تھا۔ اس کے باوجود نون لیگ، مولانا کو نہ معلوم کیسے یقین تھا کہ پی پی استعفے دینے میں ان کے ساتھ ہو گی۔

سارے مراحل سے گزرتے ہوئے، جلسے، جلوس، ریلیوں کے بعد مرحلہ اسلام آباد میں دھرنے کا آن پہنچا یعنی 26 مارچ۔ اس دوران سینیٹ کے انتخابات کا معرکہ بھی لڑا گیا، پہلے سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے یوسف رضا گیلانی کی فتح، جو یقیناً نون لیگ کے ووٹوں کے بغیر ممکن نہیں تھی، حکومت کو اس سیٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسلام آباد سے ہی خاتون سینٹر پی ٹی آئی کی جیت گئیں۔ اب مرحلہ چیئرمین کا آیا ، اس میں یوسف رضا گیلانی کو شکست ہوئی، کیسے۔۔۔؟ اس کی تفصیل سب کے علم میں ہے۔

اسی طرح جے یو آئی کے امیدوار ڈپٹی چیئرمین کے لیے مولانا عبدالغفور حیدری صاحب کو شکست ہوئی۔ ابھی یہ واویلا جاری تھا کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا انتخاب عمل میں آنا تھا، نون لیگ اور مولانا کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں یہ طے ہوا تھا کہ چیئرمین سینیٹ پی پی کا ہو گا، ڈپٹی چیئرمین جے یو آئی کا اور قائد حزب اختلاف نون لیگ کا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ چنانچہ قائد اختلاف کے لیے پی پی نے یوسف رضا گیلانی کو امیدوار بنایا، پی پی کے 21 ووٹ تھے، جماعت اسلامی، اے این پی، آزاد امیدوار اور باپ پارٹی کے ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی لیڈر آف اپوزیشن منتخب ہو گئے۔

نون لیگ اور مولانا دیکھتے رہ گئے بلکہ سکتے میں آ گئے۔ اب کیا ہو سکتا تھا، بازی ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ نون لیگ کی جانب سے پی پی پر گولا باری شروع گئی، دوسری جانب سے بلاول کے علاوہ دیگر نے بھی جواب دیے۔ بلاول نے مریم کو ٹھنڈا پانی پینے کا مشورہ دیا۔ مولانا سے کہا کہ لاڑکانہ سے مولانا نے اسٹیبلشمنٹ سے مل کر الیکشن لڑا پھر بھی ان کے دھرنے کی حمایت کی، وہ مجھ سے ناراض نہیں ہو سکتے۔

بلاول کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کو تقسیم کرنا چاہتی ہے بالکل اسی طرح ہے جیسے اپوزیشن حکومت کو گرانا چاہتی تھی۔ یہاں تو حکومت کو اپوزیشن کو گرانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔ یہ آپس میں ہی تقسیم ہونے جا رہے ہیں۔ یہاں بھی اقتدار ہی بنیاد ہے۔ ایک وجہ پی پی کی جانب سے یہ بھی بتائی گئی کہ نون لیگ نے اعظم نذیر تارڑ کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے لیے نامزد کیا تھا ،پ ی پی کے لیے یہ شخص کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔

کچھ بھی ہو پی ڈی ایم میں دراڑیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کا اجلاس پی پی، پی این پی کے بغیر منعقد ہوا جس میں نون لیگ سمیت پانچ جماعتوں کے 27 سینیٹرز کا آزاد اپوزیشن گروپ بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

گویا پی ڈی ایم نے اپنے اجلاسوں میں پی پی کو غائب کر دیا ہے۔ البتہ اے این پی سے خفیہ ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ اس گروپ میں پیپلز پارٹی اور اے این پی شامل نہیں۔ سینیٹ میں نون لیگ کے پارلیمانی لیڈر اعظم نذیر تارڑ کے پارٹی ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق مسلم لیگ (ن) ، جمعیت علماء اسلام (ف) ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بی این پی (مینگل ) نے سینیٹ میں الگ اپوزیشن بلاک بنانے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے۔ 5 جماعتوں کے اجلاس میں پی پی اور اے این پی سے وضاحت طلب کرنے کے لیے صدر پی ڈی ایم سے رجوع کرنے بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب سینیٹ کے اجلاس کی تیاری کے طور پر یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے سینیٹرز سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کل ہونے والی پارٹی کی سی ای سی کا اجلاس بھی ملتوی کر دیا ہے۔ اس سارے عمل میں پیپلز پارٹی کی جانب سے کون اس قسم کی پالیسیاں بنا رہا تھا۔ پی ڈی ایم اجلاس میں دھرنے کو استعفوں سے مشروط کرنا اور پیپلز پارٹی کا اس معاملے پر سخت اسٹینڈ لینا، بلاول کا تو کہنا تھا کہ 26 مارچ کے دھرنے کو استعفوں سے مشروط کرنے کا مقصد مارچ کو سبوتاژ کرنا تھا۔

مختصر یہ کہ حکومت گرانے جو نکلے تھے وہ بارڈر پر پہنچ کر باہم دست و گریباں ہو گئے، آپس میں اختلافات ہو گئے، ویسے بھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ماضی کی تلخیاں شدید قسم کی رہی ہیں، اس وقت صاف محسوس ہو رہا تھا کہ صرف اور صرف بغض عمران خان میں یہ ازل کے مخالفین وقتی طور پر ساتھ مل گئے ہیں، جیسے ہی مفادات کا ٹکراؤ ہوا، راہیں جدا ہوجائیں گی اور وہی ہوا۔

کچھ بھی ہو اپوزیشن کا ہونا بہت ضروری ہے، بلکہ مضبوط اپوزیشن ملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔ عمران خان کی حکومت نے اپنے آدھے دور حکمرانی میں اچھے کام ضرور کیے ہوں گے لیکن مہنگائی ایک ایسا ناسور ہے کہ عمران اور اس کے بیرون ملک سے درآمد کردہ ماہرین بھی اس کا علاج نہ کر سکے۔ عمران خان کے پاس اب بھی وقت بھی اڑھائی سال ہیں، اسے اپنی گورننس پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ وزیروں، معاونین خصوصی سب کو اب ملک اور عوام کی بہتری کے کاموں پر لگا دینا چاہیے۔

کام کریں، محنت کریں، کچھ کر کے دکھائیں، عوام اپنے مسائل کا، مشکلات کا حل چاہتے ہیں۔ مہنگائی سب سے بڑا مرض ہے ، اس کا علاج جس قدر جلد ہو سکے کرنا چاہیے۔ لوگ ابھی سے خوف میں مبتلا ہیں کہ رمضان آیا ہی چاہتا ہے، مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے رمضان میں اس نے عوام کا کیا حال کرنا ہے ۔ اللہ ہی جانتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments