سوشل میڈیا، الفاظ کا چناؤ اور بٹن کا دباؤ


سوشل میڈیا جہاں ہم ایک ہی وقت میں لاتعداد لوگوں سے مخاطب ہو سکتے ہیں، ان کے منفی اور مثبت اظہار رائے کا سامنا بھی کرتے ہیں۔

اپنی تحریر کے لیے جہاں اخبار اور رسائل میں اشاعت کے لیے منتظر رہنا پڑتا تھا اب ایک کلک پہ اپنی تحریر کسی بھی پلیٹ فارم پر شائع کی جا سکتی ہے۔

ایک تصویر یا ویڈیو کے ذریعے یہاں تک کہ ایک جملے کی منفرد ادائیگی سے کوئی راتوں رات مشہور ہو جاتا ہے تو دوسری جانب کوئی اپنی تصویر یا ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے خودکشی کر لیتا ہے۔

فیس بک پہ دوستی کے بعد بیرون ملک کسی کا رشتہ طے پا گیا تو کبھی گروپ ایڈمن کی پوسٹ سے متاثر ہو کر ممبر نے ایڈمن سے شادی کر لی۔ گویا فیس بک رشتہ سینٹر بھی بن گیا۔

یہی نہیں بہت سے سنجیدہ افراد کی رفیقہ کی فیک آئی ڈی جب پکڑی گئی اور پیچھے سے رفیق برآمد ہوا تو ایسے میں اداس شاعری والی پوسٹ لگانا تو بنتا ہے۔

خواتین کا تو حال یہاں بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے معاشرے میں باہر آنے جانے پہ ہوتا ہے۔  جان نہ پہچان مگر پوسٹ اور ان باکس میں بن جاتے ہیں مرد حضرات وبال جان۔ خاتون میسج کا جواب تک نہیں دے رہی مگر یہ کیا آپ نے تو سیدھا ویڈیو کال ہی کر دی۔ کون سمجھائے اللہ کے بندو! یہ آپ کی خالہ کا گھر نہیں، سوشل میڈیا ہے ، جہاں ہر کوئی آپ کی سوچ کے مطابق بے سود مقاصد کے لیے نہیں بیٹھا ہوا۔

خبریں دیکھنا اور پڑھنا بے حد آسان ہو گیا مگر ساتھ ہی صبح کو اخبار پڑھنے کا لطف بھی جاتا رہا۔ ایک کلک پہ آپ کے سامنے ہزاروں کتب پر مشتمل لائبریری کھل جاتی ہے مگر اس نئی کتاب کی خوشبو جس کو پڑھتے ہوئے اس کے سحر میں گرفتار ہوا جاتا ہے، اس کا نعم البدل یہ ڈیجیٹل لائبریری نہیں ہو سکتی۔

کووڈ کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں بچوں نے صوفے پر لیٹ کر تو کبھی کھاتے پیتے جو کلاسز لیں ان میں استاد کا خوف اور دوستوں سے کلاس کے دوران چھپ چھپ کر باتیں کرنے کا مزہ تو کہیں کھو سا گیا شاید۔

جو افراد گھر بیٹھے دفتر کا کام کر رہے ہیں ، دعا کرتے ہیں کہ دفتر جلد کھل جائیں کیونکہ دفتر میں کام کے دوران بریک میں نہ تو برتن دھونا پڑتے تھے نہ ہی چائے بنانا پڑتی تھی۔

بزرگ افراد یا وہ لوگ جو تنہائی کا شکار تھے ۔ دوست احباب کی کمی بھی سوشل نیٹ ورک نے پوری کر دی مگر جو بچے اپنا وقت بڑے بزرگوں سے کہانیاں سن کر گزارا کرتے تھے ،اب اپنے نانا نانی یا دادا دادی کے ساتھ مزے مزے کی ویڈیو دیکھ کر گزارتے ہیں۔ لیکن پریوں کی کہانیاں سننے میں جو مزہ تھا وہ اس میں کہاں۔

سوشل نیٹ ورک جہاں آپ ایک عرصے سے کسی کے دوست رہے ، ایک چھوٹی سی ناراضی پر بلاک ہونے کے بعد اپنی وقعت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے تعلقات کی آسانی کے ساتھ ساتھ لاتعلقی کو بھی قدرے آسان بنا دیا۔ نہ صرف سوشل نیٹ ورک پر بلکہ حقیقی زندگی میں بھی جب ہم کسی کو اگنور کرنا چاہتے ہیں تو موبائل اٹھا لیتے ہیں۔

اس مٹھی میں بند دنیا میں لاتعداد لوگ موجود ہیں۔ سب اپنے اپنے احساسات اور جذبات رکھتے ہیں ۔ آپ کا ایک لفظ کسی کی دل آزاری کا باعث ہو سکتا ہے۔ الفاظ کے چناؤ اور بٹن کے دباؤ میں قدرے محتاط رہیں کیونکہ بہت سے لوگوں کی زندگی اور عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ بحث و مباحثہ میں اختلاف رائے ہونا فطری ہے مگر اختلاف رائے سے ذاتیات کی تشہیر انتہائی غیر مناسب فعل ہے۔

سوشل میڈیا کے استعمال سے جہاں آپ کو صحت سے متعلق اچھی اچھی ٹپس ملتی ہیں وہیں موبائل اور لیپ ٹاپ کے بے جا استعمال سے آپ کی صحت متاثر ہونے کا بھی امکان ہے۔ خاص کر اینگزائٹی اور ڈپریشن بڑھنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے۔

شاپنگ خواتین ہی نہیں مرد حضرات کا بھی پسندیدہ مشغلہ ہے اور جب شاپنگ ہو بھی آن لائن تو آسانی ہی آسانی ہے۔ مگر کیا کیجیے جب دوپٹہ آرڈر کرنے پر ڈیلیوری میں اسکارف نکل آئے اور پھر آن لائن پیج واپس لینے سے بھی انکار کر دے۔ تو کوئی بات نہیں پھر اسکارف پہ ہی گزارا کر لیجیے خود کو کوسنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔

احساس کمتری کا شکار ہونا بھی قدرے ممکن بات ہے، ایسی پوسٹ جس میں میاں بیوی ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہوں ، ایک لڑاکا جوڑے کے لیے یہ رشک و حسد کی وجہ بھی ہو سکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں دو برتن ہوں وہاں آواز تو ہو گی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کوئی کوئی برتن ساؤنڈ پروف ہوتے ہیں۔

تمام منفی اور مثبت پہلوؤں کے باوجود سوشل میڈیا انتہائی مؤثر ذریعہ ہے اور اس کے نتائج ہمارے استعمال پہ منحصر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments