عجب تبدیلی کا غضب شاہکار

عاصمہ شیرازی - صحافی


آڑھی ترچھی لکیروں پر مشتمل تجریدی تصویروں کا فن بھی کسی کسی کو آتا ہے۔ الجھے ذہن کبھی کبھی ایسے الجھے خطوط کھینچتے ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے الگ نظر، ذہن اور سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی گیلری میں ایسی کئی تصویریں آویزاں ہیں کہ تخلیق کار کے ذہن کو سب پڑھ سکتے ہیں لیکن فنکار ہی اپنے نمونے سے بے خبر ہوتا ہے۔

موجودہ نظام اور سیاسی شاہکار کی تخلیق بہت سے سابقہ تجرباتی حکمرانوں کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی عوام پاکستان 80 کی دہائی میں سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی سن دو ہزار کے عشرے کو تلاشتے نظر آتے ہیں۔

اس بار ترکیب کچھ خاص ہے۔

آمر ضیا الحق نے اسلام کا نعرہ لگایا اور ریاست کے خدوخال کو جہاد، اسلام اور اسلامی معاشرے جیسے نعروں سے ترتیب دینا شروع کیا۔ دعویٰ کیا کہ مغربی جمہوریتوں کی طرز پر آمریت عوام کو جوابدہ ہو گی، صدارتی اور پارلیمانی نظام ملا کر خلافت کی طرز ڈالنے کی کوشش کی اور عملاً ایک دن سائیکل لے کر دفتر کے لیے روانہ ہو گئے۔ اُن کی سائیکل کے پہیوں کے ساتھ منافقت اور منافرت کا سفر بھی شروع ہوا۔

دس سالوں میں اسلام کے نام پر قانون سازی اور دراصل لاقانونیت کا بازار گرم ہوا۔ عورتوں پر حدود کے تازیانے اور شخصی آزادیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ فرقہ واریت، سماجی تفریق اور معاشی حقوق کو ڈالروں کے عوض بیچ دیا گیا۔ سوچ اور افکار پر پابندیاں اور قلم کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔

بہر حال آمریت کا وہ دور ختم ہوا۔۔۔ اگلی آمریت روشن خیالی کے نعروں سے سجائی گئی۔ اب کی بار تجریدی آرٹ کے تخلیق کاروں نے انتہاپسندی کو روشن خیالی کا پہناوا دیا، وقت اور حالات اور بین الاقوامی تقاضوں کے عین مطابق enlightened moderation یعنی روشن خیال جدیدیت کی انوکھی اصطلاح تخلیق کر لی گئی۔

یہاں بھی آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کے ساتھ وہی ہوتا رہا جس کی بنیاد 80 کی دہائی میں ڈالی گئی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اب اُس پر جدت اور روشن خیالی کا بورڈ آویزاں کر دیا۔

اسی دور میں ہمارے جدید اور لبرل آمر جنرل پرویز مشرف نے اجتماعی زیادتی کی شکار مختاراں مائی کے لیے بیرون ملک ایسے الفاظ استعمال کیے کہ دنیا بھر میں رُسوائی ہوئی اور یوں روشن خیالی کا مصنوعی لبادہ اتر گیا۔

دو آمریتوں میں سُنے جانے والے سب الفاظ جن میں جہاد اور ریاست مدینہ کا اضافہ تھا، اب کی تخلیق میں استعمال کیے گئے۔

عجب صورت حال کہ ریاست مدینہ کا نعرہ ہے اور آئے روز لوگ اٹھا لیے جاتے ہیں۔ شہری لاپتہ اور قانون اغوا ہو جاتا ہے، آئے روز لاپتہ افراد کے لواحقین درد بھری اپیلیں کرتے ہیں سُننے والا کوئی نہیں۔

حسیبہ قمبرانی ، مدثر نارو کے لواحقین کے آنسوؤں بھری درخواستیں، گلالئی اسماعیل کے بزرگ والدین کے بغیر کسی الزام کے عدالتوں کے چکر سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں مگر آسمان سے بلند دعوے خود شرمسار ہو جاتے ہیں۔

براہ راست عوام سے مخاطب وزیراعظم جب جنسی زیادتی کے واقعات کا ذمہ دار فحاشی کو ٹھہراتے ہیں تو سوال اُبھرتا ہے کہ چھ ماہ اور دو سال کی کم عمر بچیوں سے زیادتی کے واقعات ان کی کون سی فحاشی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔۔۔

کیا ملک کے وزیراعظم کی ایسی سوچ جنسی زیادتی کے واقعات کے تدارک کے لیے پالیسی بنانے کے قابل ہو سکتی ہے؟ پھر کبھی گردنیں اُڑا دینے سے بدعنوانی پر قابو پانے کے طریقے اور کبھی چین، فرانس اور ایران کے خونی انقلاب کی خواہشیں۔۔۔ کیا اپنی ناکامی کو جمہوریت کی ناکامی بنا کر تبدیلی کے کسی نئے جھانسے کی تیاری ہے؟

تبدیلی، جہاد اور ریاست مدینہ کی گونج میں عوام کو انصاف، استحقاق اور مساوات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ عوام ہر بار کی طرح اس بار بھی الجھی ہوئی اس تصویر کو سمجھ چکے ہیں۔۔۔ کاش تخلیق کاروں کو بھی اپنے شاہکار کی سمجھ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).