ہمارے بچے اور شیطانی ڈبے


پتا نہیں کیوں ایک چمکتی دمکتی ڈیوائس سے ہم اپنے بچے کو دور رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں کیوں لگتا ہے اگر ہمارا بچہ یہ ہاتھ میں لے لے گا تو اخلاقیات کی سب سے نچلی منزل پر کھڑا ہو گا ۔ یہ سوچتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہم سارا قصور ان بے جان ڈبوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں جی میڈیا بگاڑ رہا ہے۔  ارے یہ سب شیطانی ڈبے کی کارستانی ہے ۔ بس جناب کیا کریں میڈیا نے تو خراب کر کے رکھ دیا ہے اور بہت سے لوگوں نے شیطانی ڈبوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال پھینکا۔

ہم ہمیشہ نئی آنے والی چیزوں کو بہت مشکل سے اور ڈرتے ڈرتے اپناتے ہیں پتا نہیں ہمارا ایمان اور اخلاقیات اتنی کمزور کیوں ہیں کہ ذرا سی تبدیلی سے ہمیں اپنے آپ کے تبدیل ہونے کا ڈر لگ جاتا ہے۔ جب نیا نیا وی سی آر آیا تھا تو بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت کی کہ میرے مرنے پر ہی یہ شیطانی ڈبہ میرے گھر آ سکتا ہے ۔ پھر گھر کے لڑکوں نے اس شیطانی ڈبے کو کسی اور دوست یار کے گھر پر رکھ کر شیطان سے بہت اچھی دوستی نبھائی۔

اور کچھ لوگوں نے اس ڈبے کو گھر پر رکھ کر شیطان کو گھر سے باہر نکال پھینکا کیونکہ شیطان تو تنہائی میں حملہ آور ہوتا ہے لوگوں نے اس بے جان ڈبے کو گھر کے درمیان میں ہی رکھ دیا۔

بالکل اسی طرح جب ڈش کیبل آنا شروع ہوا تو ایک ڈر اور خوف اس وقت بھی شروع ہوا لیکن پی ٹی وی کے سٹیلائٹ پر جانے سے کیبل ضرورت بنتا جانے لگا اور نئے چینلز کی بہار نے نئی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنا شروع کیا اور اب موبائل ایسی مصیبت بن گیا ہے کہ بڑے سے بڑے لوگوں نے شیطانی ڈبے کو تو باہر پھینکا ہے مگر اسے اپنی جیب میں ہی رکھنا پڑا۔

بات ان شیطانی ڈبوں کی نہیں ہے ۔ بات اب ہماری ذمہ داریوں کی ہے ۔ آپ کتنی ہی پابندی لگا لیں ، تنگ آ کے آپ ہی اپنے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں موبائل تھماتے ہیں ، مصروفیت آڑے آتی ہے اور بہت سے مسائل کا حل ہمیں فوری طور پر یہی نظر آتا ہے کہ لاؤ اسے موبائل دے دو ، تھوڑا سکون رہے گا اور جب وہ آزادانہ طور پر اسے استعمال کرتا ہے تو واقعی اس وقت ایک الارم بجتا ہے اور اب اس وقت جب لگتا ہے کہ ساری دنیا صرف انہی ایجادات میں قید ہے اور لوگوں کی ملاقاتیں اور باتیں اس ہی کی بدولت رہ گئی ہیں تو یہ موبائل اب ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ آج نہیں تو کل شاید آپ کو کورس کی کتاب کے ساتھ موبائل بھی اپنے بچے کو دلانا پڑے۔

تو بہتر نہیں ہے کہ ہم آگاہی دینا شروع کریں

تین سے چھ سال تک کے بچے!

سب سے پہلے تو بہت ہی چھوٹے بچوں کی بات کرتی ہوں۔ ان کے ہاتھ میں موبائل کے بجائے آپ لیپ ٹاپ دیں تاکہ ایک حد تک فاصلہ ہو ، آپ کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بچوں کو ٹی وی یا ایل ای ڈی پر ہی کارٹونز یا پوئمز وغیرہ دیکھنے کا عادی بنائیں تاکہ وہ موبائل سے دور رہیں۔

بچہ کتنی دیر اور کب کب دیکھتا ہے ، اکثر مائیں کھانا کھلانے کے وقت موبائل ہاتھ میں پکڑا دیتی ہیں اور بچہ بڑے مزے سے منٹوں میں کھانا کھا لیتا ہے مگر موبائل گھنٹوں استعمال کرتا ہے ۔ موبائل کی شعاعیں بہت خطرناک ہوتی ہیں اور کھانا کھانے کے دوران اس کا استعمال انتہائی خطرناک ہے تو بہتر یہی ہے کہ موبائل کو ایک فاصلے پر رکھیں یا پھر میں یہی مشورہ دوں گی کہ ایل ای ڈی ٹی وی یا مونیٹر یا پھر لیپ ٹاپ لگائیں تاکہ بچہ اپنی پسند کا کارٹون دیکھ سکے ۔ اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ وہ موبائل کا استعمال کم کرے گا۔

دوسرا ماؤں کو گھر صاف ستھرا اور سب کچھ سمیٹنے کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ بچوں کو موبائل ہاتھ میں دے دیتی ہیں تاکہ گھر صاف ستھرا رہے ۔ گھر کو شو روم نہ بنائیں بلکہ بچوں کو کھیلنے کودنے کی جگہ فراہم کریں۔

آپ اسے کارڈ شیٹ ، کلر پنسل ، کھلونے، پینٹ برش لا کر دیں۔ آپ اسے مٹی اور پانی سے کھیلنے دیں۔ ایک جگہ مختص کریں جہاں آپ کا بچہ گھر میں مٹی اور پانی سے چھپ چھپ کر سکے ۔ یقین جانیے یہ سرگرمی اس کے لئے بہترین ثابت ہو گی اور موبائل کو بہت دیر کے لئے بھول جائے گا۔

چھوٹے بچوں کے سامنے آپ خود بھی ضرورتاً ہی موبائل کا استعمال کریں اور کرنا ضروری بھی ہے تو اسے دیکھنے سے پیچھے نہ ہٹائیں۔

آئیے اب آتے ہیں ان بچوں کی طرف جو سمجھ داری کی سیڑھی پر چڑھنا شروع ہو گئے اور موبائل کو ایک نشے کی حد تک استعمال کرنا شروع کرتے ہیں۔

گھر کے ہر بچے کو الگ الگ موبائل قطعی نہ دیں۔ اگر ایسا کرنا بھی پڑے تو بچہ موبائل کو کونے میں بیٹھ کر سارے گھر والوں سے چھپ کر استعمال نہ کر رہا ہو۔

اور اس سب سے زیادہ ضروری ہے آگاہی دینا، وہ آگاہی جو بچہ اسکول میں اپنے ہم جماعتوں سے لے رہا ہے ، جو وین میں بیٹھے ساتھیوں سے، وہ آگاہی جو باہر کھیلتے وقت کوئی دوسرا بچہ اپنے موبائل کے ذریعے اسے دے رہا ہے ، وہ آگاہی اس سے پہلے آپ اسے دینا شروع کریں، اسے موبائل کے فائدے کے ساتھ ساتھ نقصانات سے آگاہ کریں۔ اسے حیا شرم، حلال حرام، نیک اور بد کی تعریف بتانا شروع کریں ۔ جب تک آپ اسے یہ نہیں بتائیں گی کہ برائی کیا ہے وہ نہیں سمجھے گا ۔ جب تک برائی کو برائی نہیں بولیں گے اسے سمجھ نہیں آئے گی۔

بعض اوقات بہت کم عمری میں بچے اور بچیاں ایسی غلط حرکت کر جاتے ہیں، اس وقت برائی کا علم ہی نہیں ہوتا وہ تو موبائل کی چمکتی ہوئی دنیا میں بے حیائی کو بھی خوبصورتی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ آس پاس کے لوگ بھی انہیں غلط راہ پر ڈال رہے ہیں۔ موبائل ان کے ہاتھ سے چھینیں نہیں بلکہ انہیں اس کے استعمال کا،  اس سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ بتائیں۔ یہ وہ چمکتی ہوئی ڈبیا ہے جسے آپ جتنا چھپائیں گی اور الگ کریں گی بچہ اس کی طرف اتنا ہی لپکے گا تو بہتر یہی ہے اس کا استعمال آگہی کے ساتھ کرنے دیں۔

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments