کیا اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہو گی؟


پاکستان پیپلز پارٹی کو سینیٹ کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں ”باپ“ کی حمایت، پیپلز پارٹی کی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے تنازع پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے علیحدگی، پاکستان مسلم لیگ نواز کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے مطالبے کی مخالفت، ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی بھی پی ڈی ایم سے علیحدگی اور سب سے بڑھ کر جہانگیر ترین کی پی پی پی میں شمولیت کی افواہیں۔ کیا یہ تمام اشارے ثابت کرتے ہیں کہ اگلی حکومت پی پی پی کی ہو گی؟ چاہے وہ پاکستان تحریک انصاف کی باقی ماندہ حکومت مکمل ہونے کے بعد ہونے والے انتخابات کے بعد اقتدار میں آئے یا قبل از وقت انتخابات۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں کچھ ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جیسے کہ 2008 کے انتخابات سے پہلے تھے۔ اس وقت برسر اقتدار جنرل مشرف کی حکومت نے جلا وطن محترمہ بے نظیر بھٹو کو وطن واپس آنے کی اجازت اور سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے سربراہ کو وطن واپسی کی اجازت نہیں دی تھی اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں 2008 کے انتخابات سے قبل اہم سیاسی رہنماؤں نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔

دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نواز اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنائے جمیعت علماء اسلام (ف) اور پی ڈی ایم کی بقیہ جماعتوں کے ہمراہ اپنا راگ الاپ رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب میں تبدیلی سے متعلق بلاول بھٹو کے حمزہ کے ساتھ رابطے، عندیہ دیتے ہیں کہ ادارے پیپلز پارٹی کے ذریعے نواز لیگ میں پہلے سے موجود تقسیم کو مزید اجاگر کرتے ہوئے شہباز شریف اور حمزہ کو مستقبل میں پنجاب میں اقتدار دینے سے متعلق اشارے دے رہے ہیں۔

ابھی تک کی صورتحال میں جو سب سے نمایاں پیش رفت ہونا ابھی باقی ہے۔ وہ مولانا فضل الرحمان کا نواز لیگ کی کشتی سے کودنا ہے اور اس کی وجہ یہ کہ مولانا شاید اس وقت اس چیز کا تعین کرنے میں وقت لگا رہے ہیں کہ آیا نواز لیگ ڈیل کرنے میں کامیاب ہو گی یا پیپلز پارٹی۔ اس کے باوجود کہ مولانا ابھی تک نواز لیگ کے بیانیے کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے نکلنے کے بعد اگر پی ڈی ایم ٹوٹ جاتی ہے تو مولانا باآسانی سیاسی دنگل میں کچھ دیر کا قیلولہ لینے کے بعد پیپلز پارٹی کے ٹانگے میں سوار ہو سکتے ہیں۔ جس میں بظاہر اگلی حکومتی سواریاں بیٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دس جماعتی حکومت مخالف اتحاد میں سے پیپلز پارٹی نے ہی سب سے پہلے پی ڈی ایم کی کشتی میں سے چھلانگ کیوں ماری؟

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کی وجہ ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی اس حکومت کو باقی ماندہ وقت دینے پر رضا مند ہو گی جو کہ شاید نواز لیگ نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ چونکہ پیپلز پارٹی ایک صوبے میں برسر اقتدار ہے۔ لہٰذا اس طرح سے پیپلز پارٹی بھی مزید اڑھائی سالوں تک سندھ میں اپنی حکومت برقرار رکھ سکے گی اور اس عرصے میں ماضی میں برسراقتدار رہنے والی جماعت جہانگیر ترین جیسے سیاسی رہنماؤں کو اپنی جماعت میں شامل کر لے گی۔ جن کی مدد سے وفاق میں حکومت بنا سکے گی۔

علاوہ ازیں اگر اس سارے سیاسی منظرنامے میں نواز لیگ کا شہباز شریف گروپ اگر اس حکومت کو باقی ماندہ وقت پورا کرنے کی ہامی بھرتا ہے تو اسے اگلے دور میں پنجاب میں حکومت مل سکتی ہے جو کہ ماضی کی طرح پنجاب میں برسر اقتدار ہو گی اور وفاق میں پیپلز پارٹی۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں تبدیلیاں جو بھی آئیں اور پیپلز پارٹی جو مرضی بہانے اور اعتراضات کر کے حکومت مخالف اتحاد سے علیحدہ ہونے کے بعد اگلی حکومت کے لیے اہل ہو جائے۔ یہ طے ہے کہ اس کا فائدہ 2008 کی طرح نواز شریف کو یقیناً ہو گا۔ جو کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وطن واپس آنے میں کامیاب ہوئے تھے اور پھر وہ اپنے داؤ آزماتے ہوئے 2013 میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

ویسے بھی اس حکومت میں نواز شریف وطن واپس آنے والے تو ہیں نہیں اور اگر انہوں نے مریم نواز کی خاطر وطن واپس آنا بھی چاہا تو اس کا کوئی فائدہ ہو گا نہیں، چونکہ ان کی تنقید کا نشانہ بننے والے اگلے انتخابات تک کہیں جانے والے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments