پہلے سیاسی کنویں سے غیر جمہوری مداخلت کا کتا نکالیے


موجودہ سیاسی سرکس سے قطع نظر، ایک مستقل بحث ہمارے یہاں تواتر سے جاری رہتی ہے اور وہ ہے جمہوری اور غیر جمہوری بندوبست کا تقابل۔ ہر دو جانب سے دلائل کے انبار لگائے جاتے ہیں، جمہوریت کی مخالفت میں اسلام سے لے کر ہمارے علاقائی معاشرتی ڈی این اے تک ہر جانب سے دور سے دور تک کی کوڑی لائی جاتی ہے۔ ملکی ترقی میں آمرانہ ادوار کی مبینہ کارگزاری اور سیاسی ادوار کی کرپشن کی داستانوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور ہر دفعہ تان یہیں آ کر ٹوٹتی ہے کہ ملک کی بدحالی کی تمام تر ذمہ داری سیاست دانوں کی کرپشن، بد عنوانی، آئین و قانون کی خلاف ورزی اور ان کا غیر جمہوری رویے پر عائد ہوتی ہے۔

بادی النظر میں یہ سب درست بھی لگتا ہے۔ لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟ اس ساری بیان بازی میں بنیادی طور پر دو نکتے سامنے آتے ہیں، سیاست دانوں کا آئین پاکستان سے انحراف اور سیاست میں آنے کا بنیادی مقصد لوٹ کھسوٹ اور کرپشن، جس کا ثبوت الیکشن میں پیسے کے بے جا استعمال کو قرار دیا جاتا ہے یعنی یہ انویسٹمنٹ کی ہی بعد میں منافع سمیت وصولی کے لئے جاتی ہے۔

دونوں معاملات انتہائی اہم ہیں اور ان پر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی گرفت ہونی چاہیے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ 1973 سے آج 2021 تک اڑتالیس برسوں میں گیارہ سال ضیاء اور نو سال مشرف کے براہ راست مارشل لاء کے نکل جاتے ہیں اور باقی کے 27 سالوں میں بھی بالواسطہ مداخلت کے نتیجے میں ایک مستند عذر سیاست دانوں کے پاس موجود رہتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جواب دہی کے نام پر گاہے بگاہے، کرپشن، اقربا پروری اور اس طرح کے دیگر کئی الزامات (قطع نظر ان کی سچائی یا جھوٹ کے ) ہمیشہ مفاد پرست غاصبوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیے ، اور یہ کھیل تو 73 سے بھی کہیں پہلے پچاس کی دہائی سے جاری ہے ایبڈو، پیڈو وغیرہ کے زمانے سے شروع ہو کر تازہ ترین پانامہ تک چلا۔

پانامہ غلط نہیں ہو گا، لیکن کیا اس سچ (بالفرض) کو دیانت داری سے استعمال کیا گیا یا محض پسند کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے؟ یہ کہا جا سکتا ہے اور کہا جانا چاہیے کہ ان غاصبوں کے استبدادی ہتھکنڈوں سے سیاست دانوں کی نا اہلی، کرپشن اور بددیانتی کا جواز تو پیدا نہیں ہوتا۔ درست، لیکن سوچیے اگر پاکستان کے سیاسی منظرنامے سے یہ مفاد پرست غاصب غائب ہو جائیں تو کیا سیاست دانوں کو اپنی کرپشن، نا اہلی اور بد دیانتی چھپانے کے لئے ”جمہوریت کو خطرے“ کی آڑ میسر ہو؟

اور یہ آڑ بہرحال فرضی نہیں ہے، کیونکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کرپشن، نا اہلی وغیرہ اگرچہ حقیقی بھی ہوں تو ان بہانوں کا استعمال ہمیشہ غیر جمہوری، غاصب ٹولوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے ہی کیا ہے۔ تو دراصل غاصبانہ قبضوں کو ملکی سیاسی بساط سے حذف کردینے کے بعد ہی جمہوری تسلسل ان تمام خامیوں سے سیاسی منظرنامے کو پاک کر سکتا ہے جن کی تہمت (جھوٹی یا سچی) اس پر لگا کر ان آمرانہ مہم جوئیوں کو جواز عطا کیا جاتا ہے۔

یہاں یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ جمہوری تسلسل تو ماضی قریب میں جاری رہا ہے لیکن متوقع نتائج سامنے نہیں آئے۔ تو عرض یہی ہے کہ وطن عزیز کی تاریخ میں برا بھلا جمہوری تماشا کبھی بھی بارہ تیرہ سال سے زیادہ پروان نہیں چڑھ سکا۔ اور اس دوران میں خفی یا جہری آمریت کبھی مستور، کبھی ملفوف اور اکثر مادرزاد برہنہ ملکی منظرنامے پر حاوی ہی رہی ہے۔ چنانچہ اس دوران جمہوری تسلسل کی ناکامی کی مثال ویسی ہی ہے جیسے کنویں میں کتا موجود ہوتے ہوئے جتنے مرضی ڈول بھر بھر کے نکال لئے جائیں ، پلیدی ختم نہیں ہوتی۔

اس پس منظر میں عمران خان صاحب کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے سوسائٹی کے ایک ایسے طبقے کو ملکی سیاست کی طرف متوجہ کیا، جو پہلے ہمیشہ لاتعلق رہا۔ اس کا فائدہ بحیثیت قوم یہ ہوا کہ دوسری جماعتوں کو بھی اپنے روایتی کارکنوں والی سیاست کے ساتھ ساتھ اس مڈل کلاس پڑھی لکھی اکثریت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اقدامات کرنے پڑے۔ لیکن دوسری جانب نقصان یہ ہوا کہ یہ طبقہ ملکی سیاسی حقیقتوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے انتہائی غیر حقیقی ناقابل عمل دعوؤں سے متاثر ہو کر ایک خود فریبی کا شکار ہوا اور جب 2013 میں پی ٹی آئی ناکام ہوئی (ذاتی طور پر میں اسے ناکامی نہیں بلکہ کم کامیابی سمجھتا ہوں) تو یہ طبقہ اپنے احساس برتری کے جذبے کے نتیجے میں شدید طبقاتی نفرت کا شکار ہوا جس کا اظہار پی ٹی آئی کے سپورٹرز کی اس زمانے کی منفی اور مخالفین کے بارے میں حقارت بھری پوسٹوں، نعروں اور تحریروں میں جا بجا ملتا ہے۔

اس وقت سیاسی وابستگی سے قطع نظر پرکھ کا پیمانہ صرف ایک ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ جو بھی غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار ہو گا وہ غلط ہو گا اور جو بھی ان کے خلاف کھڑا ہو گا ، وہ اپنی باقی ساری خامیوں اور قباحتوں کے باوجود تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہے۔ اسی حوالے سے میرے نزدیک اس وقت مسلم لیگ سیاسی طور پر چاہے تنہائی کا شکار نظر آئے، چاہے انتہائی غیر دانش مندانہ حکمت عملی پر گامزن ہو، کھڑی وہ تاریخ کی درست جانب ہے۔ چاہے اپنی مرضی سے یا حالات کے جبر کی بناء پر۔

جس طرح اس کی حکومت کا خاتمہ ایک غیر جمہوری مہم جوئی کا نتیجہ ہونے کی بناء پر ناقابل قبول تھا، اسی طرح موجودہ اکھاڑ پچھاڑ میں اس کا یا پیپلز پارٹی کا حکومت میں آنا بھی غیر جمہوری قوتوں کی آشیرباد کا مرہون منت ہونے کے تأثر کے سبب ( بھلے یہ تأثر غلط ہی کیوں نہ ہو)  ناقابل قبول ہو گا۔

اس لئے عرض یہ ہے کہ سیاسی کنویں سے غیر جمہوری مداخلت کا کتا نکالنے کے بعد ہی ہم مسلسل جمہوری عمل کے ڈول بھر بھر کر نکال کے کرپشن، نا اہلی اور بددیانتی کی پلیدی سے ملکی نظام کا پانی پاک کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments