اندیشہ ہائے دور دراز


احمر اچانک نیند سے بیدار ہوا اور بوکھلا کر پلنگ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ کمرے کی دیوار پہ روشن، سبزنمبروں والا کلاک، رات کے ڈھائی بجا رہا تھا۔ کھڑکی کے باہر درجۂ حرارت نقطۂ انجماد پر تھا لیکن اس کے ماتھے پر پسینے کی نمی تھی۔ خود کو آرام دہ اور محفوظ بستر میں پا کر اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ وہ شاید کوئی خواب دیکھ رہا تھا جس میں وہ زخموں سے گھائل، ایک بلند پہاڑ سے نیچے لڑھکتا جا رہا تھا۔

ایسے خواب، اسے پچھلے کئی ماہ سے آ رہے تھے جن میں وہ اور موت، آنکھ مچولی کھیلتے۔ کبھی کچھ مسلح لوگ، چاقو اور برچھیوں سے حملہ آور ہو کر اسے چھلنی کرتے اور وہ اپنے جسم سے رستے ہوئے خون کو دیکھتے دیکھتے بیدار ہو جاتا تو کبھی کسی نامعلوم قاتل سے بھاگتے بھاگتے، اس کی آنکھ کھل جاتی۔ اکثر تو وہ اس کوشش میں کامیاب ہو جاتا لیکن ایک بار ایسا بھی ہوا کہ اس کی ٹانگیں بہت بھاری ہو گئیں اور وہ فالج زدہ حالت میں اپنے نامعلوم دشمنوں کے رحم و کرم پر زمین پہ پڑا رہا۔ ان سب خوابوں میں، مگر ایک چیز مشترک تھی اور وہ یہ کہ ہر بار یہ واقعات، پاکستان کے کسی ایسے شہر یا قصبے میں ہوتے نظر آتے جہاں سے کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی صورت، احمر کا گزر ضرور ہوا تھا۔

خوابوں کایہ سلسلہ تب سے شروع تھا جب اس نے پاکستان جانے کا ارادہ کیا تھا۔ اسے پردیس میں بسے کئی سال ہو چکے تھے۔ اس دوران معاش کے سلسلے میں اس اجنبی ملک کے ایک شہر سے دوسرے شہر تو جانا رہا، مگر اپنے شہر کبھی نہ جا سکا۔ خدا جانے پچھلے برس ایسا کیا ہوا کہ اچانک اس کے دل میں واپس جانے کی خواہش شدت سے بیدار ہو گئی۔ پھر جب سے اس نے کہانیاں پڑھنا اور فلمیں دیکھنا شروع کیں تو اپنی مٹی اسے مزید یاد آنے لگی۔

اتنے سال گریز کے راستوں پہ چلنے کے بعد جب اس نے واپسی کے سفر کا ارادہ کیا تو اسے ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ احساس ہونے لگا کہ شاید یہی وہ سفر ہے جو اب کرنے کے قابل ہے۔ لیکن یہاں معاملہ سفر کا نہیں تھا بلکہ سفر کے ساتھ وابستہ ان خدشات کا تھا جن کے بارے میں اس کے اپنے شہر کے ایک اپنے آدمی نے لکھا تھا

صرف اتنا ہے کہ اب خواب ڈراتے ہیں مجھے
پہلے دنیا میں کہیں خوف نہ تھا
خواہشیں جاگیں تو یہ خوف بھی بیدار ہوئے

(زاہد ڈار)

جوں جوں سفر کے دن قریب آ رہے تھے یہ خواب اسے کسی نادیدہ دشمن سے اور بھی ڈرا رہے تھے۔ اسے یہ اشارے مل رہے تھے کہ کوئی اپنا اس کے خون کا پیاسا ہے اور اسے برباد کرنے کے درپے ہے۔

گھڑی پہ اب تین بج چکے تھے۔ اس نے اپنے ساتھ بستر پر سوتی مریم کو دیکھا۔ دنیا و ما فیہا سے بے خبر، اپنی بیوی کی نیند پہ اسے رشک آ رہا تھا۔ خاص طور پہ جب اس کی اپنی نیند ہوا ہو چکی تھی۔ مریم کے چہرے کا اطمینان دیکھ کر احمر کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔ شادی کے کچھ سال بعد میاں بیوی اپنے اپنے معمولات زندگی میں یوں مگن ہو جاتے ہیں جیسے ہاسٹل کے روم میٹ، جنہیں ایک دوسرے کی عادات، ضروریات اور معمول سے تو پوری واقفیت ہوتی ہے لیکن وہ ان کا لحاظ رکھتے ہوئے ان میں دخل دینا ضروری نہیں سمجھتے۔

اس مختلف طرح کی محبت میں احساس اور بے اعتنائی کا ایک عجیب امتزاج ہوتا ہے۔ وہ گاڑی کے پہیوں کی طرح ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے ایک ہی سمت میں دوڑتے ضرور ہیں مگر ایک میکانکی انداز میں، اس میں جذباتیت کا عنصر کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یوں تو احمر مریم سے بہت محبت کرتا تھا اور وہ بھی حتی المقدور دم بھرتی تھی۔ لیکن پھر بھی اس نے مریم سے ان خوابوں کا ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ نہ بتانے کے پیچھے اس کی مریم سے محبت ہے یا مریم کی اس کے جذبات سے لاعلمی۔ شاید یہ وجہ بھی تھی کہ وہ مریم کو ان باتوں سے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔

احمر، امریکہ کی ایک بڑی آئل کمپنی میں انجینیئر تھا۔ وہ ایک کھلے ذہن کا آدمی تھا اور مطالعے کی عادت نے بتدریج اس کی آنکھیں کئی اطراف کھولیں تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے خیالات میں بہت تبدیلی آ گئی تھی اور اس میں توہم پرستی نہ تھی۔ انسانی نفسیات کے عمیق مطالعے کے بعد اس نے جانا تھا کہ خوابوں کا حقیقت سے کہیں نہ کہیں تعلق ضرور ہوتا ہے۔ اب ان خوابوں کے تسلسل نے اسے یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا تھا کہ یہ سب غیب کی طرف سے کسی ممکنہ خطرے کا اشارہ تھے۔ جب اس کے بچوں نے بھی اس کے ساتھ جانے کا پلان بنایا تو وہ بھی ان خوابوں میں شامل ہو گئے اور ایک دفعہ اس نے ان سب کو بھی ایسے ہی ایک خواب میں دیکھا تھا۔

ہر آنے والے دن کے ساتھ وہ کشمکش کی دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ ایک طرف سکون کی آرزو تھی جو اسے پاکستان کی طرف کھینچے جا رہی تھی اور دوسری طرف اپنی سلامتی کی فکر تھی جو اسے جانے سے روک رہی تھی۔ عین ممکن تھا کہ یہ سب بے بنیاد ثابت ہوتا مگر وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا، خاص طور پہ جب گمان کی قوت الہام کے پردے سے اسے خبردار کر رہی تھی۔

تنگ آ کر اس نے مریم سے ان خوابوں کا تذکرہ کیا تو اس نے جواباً اسے ایمان کی کمزوری اور وہم قرار دیا۔ مریم کا ماننا تھا کہ وہ خدا کی امان میں ہیں اور ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ مریم لمحۂ موجود میں جینے والی ایک مرنجاں مرنج عورت تھی۔ وہ کئی سال پہلے مارکیٹنگ مینیجر کے طور پہ کام کرتی تھی لیکن پھر اس نے اچانک نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک لگی بندھی سی زندگی اپنا لی۔ بچوں کی پیدائش کے بعد اس نے خود کو گھر گرہستی تک محدود کر لیا تھا۔

اس کے پاس احمر کے تمام اندیشوں اور پریشانیوں کا ایک ہی علاج تھا ’کچھ نہیں ہو گا اللہ پہ بھروسا رکھو‘ ۔ پھر چلتے چلتے اس نے احمر کو یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ وہ پاکستانی نیوز چینلز کو سننا چھوڑ دے جن کے پاس سنسنی اور خوف و ہراس پھیلانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ پاکستان میں سب کچھ اتنا برا بھی نہیں جتنا میڈیا واویلا مچاتا ہے۔ مگر احمر کے اندیشے ان طفل تسلیوں سے کہاں جانے والے تھے۔

احمر کا طیارہ، جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترا۔ مئی کا سورج اپنے جوبن پہ تھا اور کراچی کا گرم مرطوب موسم اپنا رنگ دکھا رہا تھا۔ مگر پھر بھی اسے وہاں کی ہر شے بھلی لگ رہی تھی۔ مسافروں کی دھکم پیل اور امیگریشن کاؤنٹر کی ہڑبونگ اسے بالکل بری نہیں لگی۔ ایئر پورٹ سے باہر آ کر جب اس نے ایک طویل سانس کے ساتھ مٹی کی خوشبو کو اپنے وجود میں اتارا تو اسے یوں لگا جیسے کوئی گمشدہ قیمتی شے مل گئی۔ اسے لینے کے لئے اس کا بچپن کا دوست مصطفیٰ آنے والا تھا۔

کچھ دیر کے بعد اس نے مصطفیٰ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو راستے میں ٹائر پنکچر ہو جانے کی بناء پر سڑک کنارے کھڑا ٹائر تبدیل کر رہا ہے۔ دفعتاً احمر کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔ کچھ دیر سوچ بچار کے بعد وہ بچوں کو سنبھالتے سنبھالتے، خود ہی سامان ٹرالی پہ ڈالے باہر آ گیا۔ اس نے فوراً ایک ریڈیو کیب بک کی اور مصطفیٰ کا مزید انتظار کیے بغیر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے اپنے آنے کی خبر گھر والوں سے چھپا رکھی تھی، جس کے پیچھے اس کے یہی اندیشے تھے۔

جب مریم نے اس پر اعتراض کیا تو اس نے کہا کہ اس کا ارادہ گھر والوں کو سرپرائز دینے کا تھا۔ لیکن اب اس نئی صورتحال میں اس نے اپنے والد کو فون کر کے آگاہ کیا۔ پہلے تو وہ بہت خفا ہوئے اور پیشگی اطلاع نہ دینے کا گلہ کیا لیکن اگلے ہی لمحے ان کا لہجہ پگھل گیا۔ اتنے برسوں بعد بیٹا آیا تھا اور وہ پوتے پوتیوں سے ملنے کے لئے بے حد بے تاب تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سب کام چھوڑ کے گھر پہنچ رہے ہیں۔ ٹیکسی نے ابھی چند ہی میل کا فاصلہ طے کیا تھا کہ اچانک دھماکے کی آواز سنائی دی اور گاڑی لڑھکتی ہوئی کھمبے سے جا ٹکرائی، ہائی وولٹیج بجلی کے تار ٹوٹ کر گاڑی پہ گرے اور گاڑی کو آگ لگ گئی۔ احمر نے محسوس کیا کہ اس کا وجود اس کا ساتھ چھوڑ رہا ہے۔ اس نے چلانا چاہا مگر اس کی آواز گلے میں گھٹ کر رہ گئی اور وہ ایک تاریکی کی طرف کھنچتا چلا گیا۔

اچانک اسے مریم کی آواز سنائی دی، کوئی ڈراؤنا سپنا دیکھ رہے ہو؟ ایک بار پھر اس کی آنکھ کھل گئی اور خواب ٹوٹ گیا۔ لیکن اس خواب کے ٹوٹنے پہ اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔

’ آج شام ہماری فلائٹ ہے ، خدا کے لئے اپنے ذہن سے یہ خدشات نکال دو، ہزار بار کہا ہے کہ یہ چینلز مت دیکھا کرو‘ مریم نے ریموٹ اٹھا کر میز پہ رکھتے ہوئے کہا۔ احمر نے اٹھ کر پانی پیا اور دو نفل ادا کر کے اپنے اور اپنے خاندان کی سلامتی کی دعا مانگی۔ شام کو جان ایف کینیڈی انٹرنیشنل ایئر پورٹ نیویارک سے ان کے جہاز نے اڑان بھری اور اگلے دن وہ کراچی پہنچ گئے۔ ایئر پورٹ پر اس کا بھائی اور والد ان کے منتظر تھے۔ سالوں کی دوری کے بعد والد کے گلے لگنے کی دیر تھی کہ اس کے تمام وہم آنسو بن کر بہ نکلے اور تمام خدشات رفع ہونے لگے۔

اس کے دل و دماغ میں ایک ایسی طمانیت کا احساس جاگا جس کا وہ برسوں سے متلاشی تھا۔ اس کے بچوں نے اپنوں کے پیار اور خود اپنی اہمیت کو پہلی دفعہ محسوس کیا۔ تین ہفتے گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا۔ آج اس کی فلائٹ واپسی کے لئے اڑان بھرنے کو تیار کھڑی تھی۔ اس نے کھڑکی سے باہر اپنی زمین کو آخری نگاہ ڈالی اور آنکھیں بند کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments