استنبول کینال: یہ منصوبہ کیا ہے اور اس کے امریکہ اور روس پر کیا ممکنہ اثرات پڑ سکتے ہیں؟


نہر

ترکی کی بحریہ کے 10 ریٹائرڈ ایڈمرلز کو صدر طیب اردوغان کے ’استنبول کینال‘ منصوبے پر کھلے عام تنقید کرنے پر حراست میں لیے جانے کے بعد ترک سیاست میں ایک بھونچال آ گیا ہے۔

حراست میں لیے جانے والے یہ افراد ان 104 ریٹائرڈ ایڈمرلز میں شامل ہیں جنھوں نے ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے تھے جس کے ذریعے ترک حکومت کو متنبہ کیا گیا تھا کہ نہر کے اس منصوبے سے آبنائے باسفورس پر بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔

ترکی کے صدر اردوغان نے افسران کے اس اعلامیے کو ’بدتمیزی‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس (خط) سے ’بغاوت کی بو‘ آ رہی ہے۔

اگرچہ اس منصوبے پر ہونے والی بحث نے ابھی مقامی سیاسی تقسیم کو ہی آشکار کیا ہے لیکن اس سے ڈارڈینیلیز اور باسفورس کے آبی راستوں کے متعلق قوانین پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں، جن کے امریکہ اور روس پر ممکنہ اثرات پڑ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

صدر اردوغان کے ’نہر استنبول‘ منصوبے پر تنقید کرنے والے 10 سابق ایڈمرل زیرِحراست

نہر سوئز کے علاوہ تجارت کے لیے دنیا کے اہم بحری راستے کون سے ہیں؟

رجب طیب اردوغان: ایک کوسٹ گارڈ کا بیٹا ترکی کا ’جھگڑالو‘ صدر کیسے بنا؟

سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطان

آبنائے باسفورس استنبول سے گزرنے والا وہ واحد بحری راستہ ہے جو بحیرۂ اسود کو بحیرۂ مرمرہ سے ملاتا ہے۔ اس بحری راستے کو بڑی تعداد میں بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔

ترکی میں صدر طیب اردوغان کے منصوبے کو آبنائے باسفورس کا متبادل کہا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے طیب اردوغان نے کہا ہے کہ نہر کا یہ نیا منصوبہ آبنائے باسفورس پر بوجھ کم کر دے گا اور اس سے سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی ہو گی۔

تاہم استنبول کے میئر اکرم اماموغلو نے گذشتہ سال کہا تھا کہ یہ ’قاتل منصوبہ‘ ہے اور اس کا مقصد ماحولیات کے نقصان کے بدلے ’کمائے بغیر آمدنی‘ حاصل کرنا ہے۔

آخر استنبول کینال منصوبہ ہے کیا؟

کینال استنبول کے منصوبے کا نقشہ

صدر اردوغان نے پہلی بار اپریل 2011 میں اس منصوبے کا اعلان کیا تھا اور اسے ’بڑے بجٹ‘ کے ’کریزی منصوبے‘ کی حیثیت سے سراہا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کا موازنہ پاناما یا سوئز کینال سے بھی نہیں کیا جا سکتا ہے (یعنی یہ ان دونوں منصوبوں سے بہتر اور بڑا منصوبہ ہے)۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بحری راستے کی گہرائی 25 میٹر ہو گی اور اس سے ہر روز تقریباً 160 بحری جہاز گزر سکیں گے۔

نئی نہر آبنائے باسفورس کے مغرب میں واقع ہو گی اور اس کا بہاؤ استنبول کے شمال سے جنوب کی جانب ہو گا اور یہ 45 کلومیٹر طویل ہو گی۔

اس نہر کے منصوبے کی سرکاری ویب سائٹ پر اس نہر کو بنانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آبنائے باسفورس کی بحری ٹریفک، بڑے جہازوں کی بڑی تعداد، جو ’خطرناک‘ مواد وہ لے کر جاتے ہیں، استنبول شہر کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق سو سال پہلے آبنائے باسفورس سے گزرنے والی کشتیوں کی سالانہ تعداد 3000 یا 4000 ہوتی تھی جو اب بڑھ کر تقریباً 45 سے 50 ہزار ہو گئی ہے۔

مونٹریکس کنونشن: ترکی میں پانی کی گزرگاہوں کا 85 سالہ معاہدہ کیا ہے؟

گرفتار ہونے والے ریٹائرڈ ایڈمرلز نے متنبہ کیا ہے کہ نہر کے اس منصوبے سے مونٹریکس کنونشن کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ اس معاہدے کے تحت ترکی کو اپنی سرحدوں کے اندر آبنائے باسفورس کا کنٹرول دیا گیا تھا اور وہاں کمرشل شپنگ اور بحریہ کے جہازوں کی کارروائیوں سے متعلق حدود مقرر کی گئی تھیں۔

انھوں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ اس سے متعلق ایسے کسی بھی اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے اس معاہدے پر بحث چھڑ سکتی ہو اور ایسا کرنا ترکی کے مفاد میں نہیں ہو گا۔

ترکی میں پانی کی گزرگاہوں کا معاہدہ مونٹریکس معاہدہ کہلاتا ہے جو سنہ 1936 میں طے پایا تھا۔ اس بین الاقوامی معاہدے کے تحت سامان لے جانے والے جہاز ترکی کی آبی گزرگاہوں سے گزر سکتے ہیں اور یہ ترکی کو استنبول، ڈارڈانیلیز، بحیرہ مرمرہ اور باسفورس پر خود مختاری دیتا ہے۔

یہ ان ممالک کے جنگی جہازوں پر پابندیاں بھی عائد کرتا ہے جن کے ساحل بحیرہ اسود کے کنارے پر نہیں ہیں۔ انھیں ’نان ریپریئن‘ ریاستیں کہا جاتا ہے، جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔

ان پابندیوں میں ان ریاستوں کے جہازوں کے مجموعی وزن (زیادہ سے زیادہ 45000 ٹن) اور بحیرہ اسود میں ان کے قیام کی مدت (21 دن) کی حد شامل ہے۔

بحیرہ اسود کی ریپریئن اور غیر ریپریئن ریاستوں کے طیارہ بردار بحری جہازوں کو ان گزرگاہوں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہے، اور صرف ریپریئن ریاستوں سے تعلق رکھنے والی آبدوزیں ہی یہاں سے گزر سکتی ہیں۔

بحیرہ اسود کی کسی بھی ریپریئن ریاست کو اپنے فوجی جہازوں کے گزرنے سے آٹھ دن قبل ترک حکام کو مطلع کرنا ہوتا ہے جبکہ ترکی کی وزارت خارجہ کے مطابق کسی نان ریپریئن ریاست کو گزرنے سے 15 دن پہلے ایسا کرنا ہوتا ہے۔

اب اس پر بحث کیوں ہو رہی ہے؟

استنبول کینال کے مجوزہ منصوبے کا مقصد بحیرہ اسود اور مرمرہ کو ملانے والا مصنوعی آبی گزرگاہ بنانا ہے، جس سے مونٹریکس کنونشن کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔

استنبول کینال کے منصوبے میں تجارتی جہازوں کے یہاں سے گزرنے کے لیے پیسے لیے جائیں گے جو کہ بظاہر مونٹریکس کنونشن کے مرچنٹ جہازوں کے یہاں سے مفت گزرنے کی شق کی خلاف ورزی ہے۔

طیب اردوغان

طیب اردوغان کہتے ہیں کہ نہر کا منصوبہ آبنائے باسفورس پر بوجھ کم کر دے گا اور اس سے سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی ہو گی

دوسری طرف پارلیمنٹ کے سپیکر مصطفیٰ سینٹوپ مارچ میں یہ کہنے کہ بعد شہ سرخیوں میں آ گئے تھے کہ صدر رجب طیب اردوغان ’تکنیکی طور پر‘ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ترکی کو کنونشن سے علیحدہ کر سکتے ہیں۔

اس تنازع میں نیا موڑ اس وقت آیا جب چار اپریل کو 104 ریٹائرڈ ترک ایڈمرلز نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں استنبول کینال کے دائرہ کار اور بین الاقوامی معاہدوں سے دستبرداری کے لیے صدر کے اختیار کے دائرہ کار کے حوالے سے مونٹریکس کنونشن کو زیرِ بحث لانے کے بارے میں ’تشویش‘ کا اظہار کیا گیا۔

ریٹائرڈ ایڈمرلز نے کہا کہ بحیرہ اسود میں استحکام کے لیے یہ کنونشن ضروری ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’مونٹریکس بحیرہ اسود کی ریپریئن ریاستوں کی سلامتی کی بنیادی دستاویز ہے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جو بحیرہ اسود کو امن کا سمندر بناتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مونٹریکس کسی بھی طرح اور کسی بھی جنگ میں ترکی کو غیر ارادی طور پر داخل ہونے سے روکتا ہے۔‘

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اس نے ’دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ ممکن بنانے میں مدد دی تھی کہ ترکی اپنی غیرجانبداری کا تحفظ کر سکے۔‘

روس اور امریکہ کس طرح اس سے متاثر ہوں گے؟

مونٹریکس کنونشن اور استنبول کینال کے حوالے سے امریکہ اور روس کے موقف سرکاری طور پر واضح نہیں ہیں۔

تاہم ترک تجزیہ کار اکثر کہتے ہیں کہ اس معاملے پر واشنگٹن اور ماسکو کے مابین جیو پولیٹیکل طاقت کا کھیل جاری ہے۔

ریٹائرڈ ایڈمرلز کے اعلامیہ کو شائع کرنے والی ویب سائٹ وریانسین ٹی وی نے حال ہی میں متعدد ایسے مضامین شائع کیے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ بحیرہ اسود تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مونٹریکس کنونشن کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

چار اپریل کو سینیئر صحافی مراد یتکین نے اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ ’مونٹریکس کنونشن نے ہمیشہ ہی امریکہ کو پریشان کیا ہے، کیونکہ وہ بحیرہ اسود میں روس کے خلاف زیادہ بڑے جنگی جہاز بھیجنا چاہتا ہے۔‘

حزبِ مخالف کے سیکولرسٹ اخبار ’کم حریت‘ کے کالم نویس مہمت علی گلر کہتے ہیں کہ ’مونٹریکس کنونشن کو ختم کرنے کے مطالبے کا مقصد ترکی اور روس کے مابین تعاون کو روکنا ہے۔‘

انقرہ میں روسی سفیر الیکسی یارخوف کے ’سپوتنک ترکی‘ میں چھ اپریل کو شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ماسکو یہ توقع نہیں کرتا کہ استنبول کینال مونٹریکس کنونشن کی شرائط کو متاثر کرے گا۔

تاہم حکومت کی حامی کچھ آوازیں اس معاہدے کو ’بیڑیوں‘ سے تشبیہہ دیتی ہیں جو ترکی کو ترقی کرنے سے روک رہی ہیں۔

حکومت کے حامی اسلامک اخبار ’ینی آکت‘ کے کالم نگار حاجی یاقسیلکی سوال اٹھاتے ہیں کہ ’کیا ہمیں 100 سال پہلے دستاویز پر دستخط کرنے کی سزا دی جائے گی، صرف اس لیے کہ کچھ لوگ طاقتور ترکی نہیں چاہتے؟‘

استنبول کینال کا مقامی سیاست پر کیا اثر ہو گا؟

ریٹائیرڈ ایڈمرلز کے بیان پر حکومت کو فوراً غصہ آ گیا اور کہا گیا کہ یہ تو ’بغاوت‘ ہے۔ تاہم حزب اختلاف کے اراکین نے اس بحث کو ’مصنوعی ایجنڈا‘ کہہ کر مسترد کیا ہے۔

پانچ اپریل کو اپنے پہلے عوامی بیان میں اردوغان نے افسران کے اعلامیے کو ’بدتمیزی‘ قرار دیا اور کہا کہ اس میں ’بغاوت‘ کی بو آ رہی ہے۔

انھوں نے حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) پر بھی براہ راست الزام عائد کیا اور کہا کہ سی ایچ پی کے ممبران اور ان کے رشتہ دار اس اعلامیے پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔

اردوغان نے مزید کہا کہ اس بیان پر بحث ’یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے‘ کہ ترکی کو ’نئے اور سویلین‘ آئین کی ضرورت ہے۔

سرکاری سرپرستی سے چلنے والی نیوز ایجنسی ’انادولو‘ نے استنبول کینال کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی ترکی کی عالمی تجارت میں کردار کے لیے کلیدی حیثیت ہے۔

آگے کیا ہو گا؟

صدر اردوغان نے کہا ہے کہ فی الحال حکومت مونٹریکس کنونشن سے دستبرداری کا ارادہ نہیں رکھتی لیکن مستقبل میں ’اگر ضرورت پڑی‘ تو کسی بہتر معاہدے کے لیے اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے استنبول کینال منصوبے کو جاری رکھنے کے عزم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سے باسفورس میں ترکی کے حقوق کی خودمختاری کو تقویت ملے گی۔‘

ترکی میں استنبول کینال کی شدید مخالفت ہو رہی ہے، جس کی سربراہی سی ایچ پی کر رہی ہے۔ ناقدین اس کی زیادہ قیمت اور اس کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔

اس سارے تنازع اور بحث کے باوجود اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں ہے کہ استنبول کینال اور مونٹریکس کنونشن کو کیا چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں۔

لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ ترکی کے مقامی ایجنڈے پر موجود رہے گا اور اس سے حکومت اور حزبِ مخالف کے درمیان سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp