ہوشیار باش! اب فوج مخالفین کو عدالتوں میں گھسیٹے گی


دو وزیروں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے منظور کردہ اس بل کو مسترد کیا ہے جس میں افواج پاکستان کا تمسخر اڑانے یا توہین کرنے پر قید اور جرمانہ کی سزا دی جاسکے گی۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے حکمران جماعت تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان کے اس نجی بل کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تنقید کو جرم قرار دینا درست نہیں ہوسکتا۔ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بھی فواد چوہدری کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے امجد علی خان کے پرائیویٹ بل کو پانچ چار کی اکثریت سے منظور کرلیا تھا۔ پارلیمنٹ سے منظوری کی صورت میں یہ بل پاکستان پینل کوڈ کا حصہ بن جائے گا جس کے تحت افواج پاکستان کے بارے میں ناشائستہ گفتگو قابل سزا جرم ہوگا۔ بل کے متن کے مطابق ’جان بوجھ کر مسلح افواج یا اس کے ارکان کا تمسخر اڑانے یا ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے پر دو سال قید یا پانچ لاکھ جرمانہ یا بیک وقت دونوں سزائیں دی جاسکیں گی‘۔ یہ بل پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 500 میں اضافہ کرے گا۔ اسے پی پی سی 500 اے کا نام دیا گیا ہے۔ اس شق کے تحت پہلے بھی کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے یا توہین کا سبب بننے والے کے لئے سزا تجویز کی گئی ہے لیکن اس میں کسی خاص گروہ یا طبقہ کا ذ کر نہیں ہے۔ البتہ نئی ترمیم کے بعد افواج پاکستان کو یہ خصوصیت حاصل ہوجائے گی کہ ان کےبارے میں بطور ادارہ یا ان کے کسی بھی رکن کے بارے میں ’غیر محتاط‘ یا ایسی گفتگو جسے فوج کی شہرت کو نقصان پہنچانے کا سبب سمجھا جائے، اس پر اب قانونی طور سے سز ادی جاسکے گی۔
اس ترمیمی بل کے دیگر پہلوؤں کے علاوہ سب سے دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس قانون کے تحت فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہوگا بلکہ متاثرہ ادارہ یعنی افواج پاکستان یا ان کا کوئی عہدہ دار سول مقدمہ کے ذریعے عدالت سے انصاف کا تقاضہ کرسکے گا۔ بل کے محرک ایم این اے امجد علی خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ اس بل کے قانون بننے کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف دیوانی کارروائی ہوسکے گی۔ اس قانون کے تحت بظاہر افواج پاکستان اور ان کے اہلکاروں کو کسی توہین آمیز گفتگو کے شبہ میں کارروائی کےلئے عدالت سے رجوع کا حق دیا گیا ہے ۔ گویا عملی طور سے متعلقہ ادارے یا شخص کو عمومی عدالتی کارروائی کے مطابق یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ جس رائے یا تبصرہ کے بارے میں توہین کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے، وہ واقعی اس قانون کے مطابق قابل سزا جرم ہے۔
ایسا سول مقدمہ قائم ہونے کی صورت میں متاثرہ شخص بھی اپنے دلائل پیش کرنے اور شواہد لانے کا حقدار ہوگا۔ گویا قانون کے محرک کی نیت یہ قرار پائی کہ اب مسلح افواج اور ان کے اہل کار دفاع وطن کا مقدس کام چھوڑ کر اس بات کی نگرانی شروع کردیں کہ کس نے کس فوجی یا فوجی ادارے کے بارے میں بدتمیزی کی ہے یا ایسا تنقیدی تبصرہ کردیا ہے جس پر اسے عدالت میں گھسیٹا جاسکتا ہے۔ دیکھا جائے تو کسی کو سول مقدمہ میں ’گھسیٹنے ‘ والا ادارہ ہو یا فرد، خود بھی ایک طویل اور انتھک مشقت میں مصروف ہوجائے گا۔ اس حوالے سے آزادی اظہار رائے اور شہری حقوق سے متعلق پیدا ہونے والی پریشانی اور تشویش سے بھی پہلے یہ پہلو دلچسپ اور قابل غور ہے کہ سرکاری بنچوں میں بیٹھنے والے بعض معزز ارکان اس بنیادی نکتہ پر بھی غور کی زحمت کرنے سے عاجز ہیں کہ اس قانون کو بروئے کار لانے کی صورت میں افواج پاکستان کو جو کہ ایک غیر متنازع اور قومی افتخار کی علامت ادارہ ہے، اب متنازع بنا دیا جائے گا ۔ بلکہ اس کی ذمہ داری بھی افواج اور ان کے اہل کاروں پر ہوگی کہ وہ دادرسی کے لئے عدالتوں میں جائیں۔
قیاس کیا جائے کہ کوئی فوجی افسر یا ادارہ کسی بیان، تبصرے، ٹوئٹ، مضمون یا ٹاک شو میں دی گئی کسی رائے پر ’توہین ‘ محسوس کرتا ہے تو وہ پہلے تو سول معاملات کا ماہر وکیل تلاش کرے۔ پھر اپنا ایسا ’مضبوط‘ کیس تیار کروائے کہ سول عدالت ان دلائل کو قبول کرنے پر راضی ہوجائے۔ اس عمل میں کئی سال بیت سکتے ہیں ۔ عدالتی کارروائی کے دوران فریق مخالف بھی اپنے حق میں دلیل لائے گا اور خود کو درست اور فوج، اس کے کسی ادارے یا رکن کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس جد و جہد میں ماضی کو کھنگالا جائے گا۔ یہ واضح کیا جائے گا کہ ایسا تبصرہ یا رائے جسے باعث توہین یا تمسخر سمجھا جارہا ہے، کیوں کر حقائق کی درست تصویر پیش کرتا ہے۔ تصور کیا جائے کہ اس سارے عمل میں میڈیا،تجزیہ نگار، سیاسی کارکن اور عمومی شہری معاملات میں دلچسپی لینے والے لوگ نت نئے پہلوؤں سے اس معاملہ پر تبصرہ کریں گے۔ ٹاک شوز منعقد ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر مباحث ہوں گے۔ کچھ لوگ فوج کے حق میں دلیل دیں گے تو کچھ ان پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے جن کی وجہ سے افواج یا ان کے نمائیندوں کے بارے میں سماج میں عام طور سے اور سیاسی حلقوں میں خاص طور سے رائے دینے کا رجحان فروغ پارہا ہے۔
قانون کو عین اس کے الفاظ کے مطابق دیکھنے والا کوئی سادہ مزاج جج اگر ایسے کسی مقدمہ کی سماعت پر متعین ہؤا تو وہ ضرور سوال کرے گا کہ سول معاملات سے فوج کا کیا تعلق ہے؟ کسی سول معاملہ میں خواہ وہ سیاست ہو یا سول انتظام میں چلنے والے اداروں میں معمولی سے اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں کا معاملہ ، کیوں فوج کو ترجیح ملتی ہے۔ کوئی جج، وکیل یا الزام کی زد پر آیا ہؤا کوئی شخص، سیاست دان، پارٹی یا میڈیا ادارہ جب یہ سوال اٹھائے گا تو فوج ، فوجی یا اس کے وکیل کو ان سوالوں کا جواب بھی دینا پڑے گا۔ یعنی جو کام سال ہا سال سے خاموشی سے کسی توتکار یا بحث مباحثہ کے بغیر سرانجام پارہا ہے، اسے گھر گھر میں بحث کا موضوع بنایا جائے گا۔ امجد علی خان اور ان کے بل کی حمایت کرنے والے چار دیگر ارکان قومی اسمبلی سے پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ واقعی ملک کی قابل قدر افواج کے بارے میں یہ ڈرامائی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اس تصویر میں فوج اور فوجیوں کی عزت افزائی ہوگی یا وہ مزید شبہات کا شکار ہوں گے۔ اور غیر متنازع امور متنازع اور قابل غور قرار پائیں گے؟
اس پہلو سے دیکھیں تو امجد علی خان دراصل اس ملک میں سول بالادستی کے نمائندہ بن کر سول معاملات میں فوج کے کردار کو ختم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ لیکن سیاسی یا عقلی مجبوریوں کی وجہ سے شاید وہ براہ راست یہ کہنے، سوچنے یا اس طرف اشارہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے لیکن تجویز کردہ بل بعینہ یہ کام کرنے کا موجب بنے گا۔ امجد علی خان یا ان کے ساتھیوں کو اگر یہ باریک نکتہ سمجھ میں آگیا تو شاید وہ آئندہ انتخاب جیتنے کی خواہش میں فوری طور سے خود ہی اس بل سے دست بردار ہونے کا اعلان کردیں۔ یوں قومی اسمبلی اور قوم ایک مشکل امتحان سے محفوظ رہے۔ فواد چوہدری نے کابینہ کا سیانا وزیر ہونے کے باوصف فوری طور سے اس بل کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے اور شیریں مزاری نے وقت ضائع کئے بغیر اس کی تائید کی ہے، امجد علی خان اس کے بین السطور پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرلیں تو بہتر ہوگا۔ اگر انہوں نے یہ امید باندھی ہے کہ اس کارنامے پر پاک فوج کا ادارہ ابلاغ عام انہیں کسی اعزاز و احترام سے نوازے گا تو شاید وہ کبھی پوری نہ ہوسکے۔
عسکری حلقوں کو اگرچہ صرف دفاعی شعبہ کی تربیت ہوتی ہے لیکن آئی ایس پی آر کے قابل قدر نمائندوں کو اس بات کا بخوبی احساس ہوگا کہ فوج کی عزت کو عوام پر ٹھونسا نہیں جاسکتا بلکہ افواج کی خدمات، قربانیوں اور قومی دفاع کے لئے مستعد و متحرک رہنے کی وجہ سے ملک کے عوام فطری طور سے اپنے فوجیوں اور کمانڈروں کی تکریم کرتے ہیں۔ یہ احترام بندوق کی نوک پر نہیں کروایا جاتا بلکہ ایثار اور محبت و شائستگی کے دو طرفہ تعلق کی وجہ سے استوار ہؤا ہے۔ امجد علی خان کا بل اس تعلق کو داغدار کرنے کا سبب بنے گا۔ یقیناً فواد چوہدری ، شیریں مزاری اور مجوزہ بل پر پریشانی کا شکار ملک کے لاکھوں دیگر لوگوں کے علاوہ افواج پاکستان کے ذمہ دار بھی حیران ہوں گے کہ انہیں کیسے ’خیر خواہوں‘ سے پالا پڑا ہے۔
قائمہ کمیٹی میں وزارت داخلہ نے اس بل کے حوالے سے ایک ورکنگ پیپر جمع کروایا ہے۔ اس کے مطابق خیبر پختون خوا کی حکومت نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ یہ بل ملک کے متعدد آئینی و قانونی پہلوؤں سے متصادم ہوگا۔ اس کے علاوہ افواج پاکستان کو خصوصی قانونی ’تحفظ‘ دینے کی صورت میں، قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے اور عہدیدار اسے اپنے خلاف متعصبانہ کارروائی سمجھیں گے۔ تاہم وفاقی وزارت داخلہ نے اس ورکنگ پیپر میں بل کی تائید کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ ’ ملک میں افواج کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے واقعات میں اضافہ ہؤا ہے۔ انتشار پھیلانے والے بعض عناصر اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جو افواج پاکستان کے لئے توہین آمیز ہوتا ہے اور حوصلہ شکنی کا سبب بنتا ہے‘۔
وزارت داخلہ کی یہی دلیل دراصل یہ سوال سامنے لاتی ہے کہ بعض ’عناصر‘ کو کیوں فوج پر نکتہ چینی سے سیاسی فائدہ ہونے کی امید ہوتی ہے۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان نے ملکی خدمت میں اپنے آئینی کردار پر اکتفا کرنے کی بجائے، قومی مفاد کے نام پر سیاسی و سول معاملات میں مسلسل مداخلت کی ہے۔ پاکستانی عوام میں اب اس مداخلت کو مسترد کرنے کا رجحان تقویت پکڑ رہا ہے۔ وزارت داخلہ، حکومت، افواج اور ان کے خیر خواہ قانون سازوں کو آگاہ ہونا چاہئے کہ فوج کا احترام برقرار رکھنے اور ملک میں انتشار کے خاتمہ کا ایک ہی قابل قبول، آئینی اور مہذب طریقہ ہے کہ افواج ماضی کو بھول کر اب خود کو صرف ملکی دفاع کی آئینی ذمہ داری تک محدود کرلیں۔
سول حکمرانی میں عدم مداخلت کے اشارے سامنے آنے پر افواج کے احترام میں خود بخود اضافہ ہونے لگے گا۔ پھر کسی سیاسی مفاد پرست کو افواج پر ’کیچڑ اچھالنے‘ کا حوصلہ نہیں ہوگا۔ احترام کے لئے ناقص قانون سازی کی دھمکیوں سے پاکستانی عوام اور افواج کے درمیان استوار احترام و انسیت کے تعلق کو نقصان پہنچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments