پرنس فلپ: ملکہ الزبتھ دوم کے وفادار ساتھی


ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ کو ملکہ کے لیے ثابت قدم رہنے اور ان کی مستقل حمایت پر بڑے پیمانے پر احترام ملا۔

یہ کسی کے لیے بھی ایک انتہائی مشکل کردار تھا خاص کر کہ ایک ایسے شخص کے لیے جو خود نیول کمان کرنے کا عادی تھا اور مختلف موضوعات پر سخت نظریات رکھتا تھا۔

اس کے باوجود یہ کردار کی طاقت تھی جس نے انھیں اتنے مؤثر طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل بنا دیا، اور اپنی اہلیہ کو ان کے ملکہ کے کردار میں پورے دل سے مدد فراہم کی۔

ایک خاتون فرمانروا کے مرد ساتھی کے علاوہ شہزادہ فلپ کی کوئی آئینی حیثیت نہیں تھی۔ لیکن کوئی بھی بادشاہت کے اتنا قریب نہیں تھا، یا تخت کے لیے اس سے زیادہ اہم نہیں تھا۔

شہزادہ فلپ 10 جون 1921 کو یونان کے جزیرے کورفو میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ پر 28 مئی 1921 کی تاریخ درج ہے، کیونکہ یونان نے اس وقت تک گریگورین کیلنڈر کو نہیں اپنایا تھا۔

ان کا والد یونان کے شہزادہ اینڈریو تھے، جو ہیلنس کے بادشاہ جارج اول کے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ ، شہزادی ایلس آف بیٹن برگ ، شہزادہ لوئی آف بیٹین برگ کی بڑی بیٹی اور برما کے ارل ماؤنٹ بیٹن کی بہن تھیں۔

Princess Alice of Greece and her son Prince Philip in 1924, after being exiled from Greece with Philip's father, Prince Andrew of Greece.

PA Media

1922 میں بغاوت کے بعد، ان کے والد کو ایک عدالت نے یونان سے جلا وطن کردیا تھا۔

ان کے سیکنڈ کزن کنگ جارج پنجم نے ایک برطانوی جنگی جہاز بھیجا جو ان کے خاندان کو فرانس لے گیا۔ ننھے فلپ نے سفر کا زیادہ تر حصہ ایک پالنے میں گذارا جو کہ سنتروں کے ڈبے سے بنایا گیا تھا۔

وہ سب سے چھوٹی اولاد تھے، بہنوں کے خاندان میں واحد لڑکا ۔ اور ان کا ابتدائی بچپن نہایت محبت کے ماحول میں گذرا تھا۔

شہزادہ فلپ نے اپنی تعلیم کا آغاز فرانس میں ہی کیا، لیکن پھر سات سال کی عمر میں انگلینڈ میں اپنے ماؤنٹ بیٹن رشتہ داروں کے ساتھ رہائش پزیر ہوئے، جہاں انھوں نے سرے کے ایک پریپ سکول میں تعلیم حاصل کی۔

اس وقت تک ان کی والدہ میں شیزوفرینیا کی تشخیص ہوچکی تھی اور انھیں ایک پناہ گاہ میں رکھا گیا تھا۔ کم عمر شہزادے کا ان سے بہت کم رابطہ تھا۔

1933 میں، انھیں جنوبی جرمنی میں شول سلوس سالم بھیج دیا گیا، جسے مشہور ماہرِ تعلیم کرٹ ہان چلاتے تھے۔ لیکن کچھ مہینوں میں، ہان کو، جو یہودی تھے، نازی ظلم و ستم سے مجبور ہو کر فرار ہونا پڑا۔

مراسلوں کے مطابق

ہان سکاٹ لینڈ منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے گورڈن سٹون سکول کی بنیاد رکھی، اور پھر پرنس جرمنی میں صرف دو ٹرمز گذارنے کے بعد ہی وہاں آ گئے۔

گورڈن سٹون کی سپارٹن طرز زندگی، جس میں خود انحصاری پر زور ہوتا تھا، ایک ایسے نو عمر لڑکے کے لیے ایک مثالی ماحول تھا جو پہلے ہی اپنے والدین سے الگ ہوکر خود پر ہی زیادہ انحصار کرتا تھا۔

جنگ کیونکہ سر پر تھی اس لیے شہزادہ فلپ نے فوجی کیریئر اپنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ رائل ایئر فورس میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن چونکہ ان کی والدہ کا خاندان روایتی طور پر جہاز رانی سے وابستہ تھا اس لیے وہ بھی برطانیہ رائل نیول کالج، ڈارٹماؤتھ میں کیڈٹ بن گئے۔

وہاں انھیں دو نوجوان شہزادیوں، الزیبتھ اور مارگریٹ، کو ایسکورٹ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جو کنگ جارج ششم اور ملکہ الزیبتھ کے ہمراہ تھیں اور ان کے والدین کالج کا دورہ کر رہے تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق، شہزادہ فلپ نے بہت اچھے کردار کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس ملاقات نے 13 سالہ شہزادی الزیبتھ پر گہرا اثر ڈالا۔

فلپ نے جلد ہی اپنے آپ کو مستقبل کی ایک اہل ترین شخصیت کے طور پر ثابت کیا۔ جنوری 1940 میں انھوں نے اپنی کلاس میں سب سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کی اور پھر بحر ہند میں پہلی بار فوجی کارروائی میں حصہ لیا۔

Philip in costume as Macbeth

انہیں بحیرہ روم میں موجود جنگی بیڑے ایچ ایم ایس ویلیئنٹ پر منتقل کردیا گیا، جہاں 1941 میں کیپ مٹاپن کی لڑائی میں ان کی کارکردگی کا مراسلوں میں میں ذکر ملتا ہے۔

بحری جہاز کی سرچ لائٹس کے انچارج افسر کی حیثیت سے انھوں نے رات کے فیصلہ کن کارروائی میں اہم کردار ادا کیا۔

انھوں نے 2014 میں بی بی سی ریڈیو 4 کو بتایا، ‘میں نے ایک اور جہاز کو دیکھا اور اس کے درمیانی حصے پر روشنی ڈالی، جو کہ بعد میں فوراً 15 انچ کے شیلز کی سیدھی رینج میں آنے کے بعد عملی طور پر غائب ہو گیا۔’

اکتوبر 1942 تک وہ رائل نیوی میں سب سے کم عمر ترین لیفٹیننٹ میں سے ایک تھے، جو جنگی جہاز ایچ ایم ایس والیس پر کام کر رہے تھے۔

منگنی

اس پورے عرصے میں وہ اور نوجوان شہزادی الزیبتھ کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوتا رہا، اور متعدد مواقعوں پر انھیں شاہی خاندان کے ساتھ رہنے کی دعوت دی گئی۔

اسی طرح کے دوروں میں سے ایک میں 1943 میں کرسمس کے دوران، الزیبتھ نے فلپ کی ایک تصویر کو جس میں وہ نیوی کی وردی پہنے ہوئے تھے، اپنے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا۔

امن کے دور میں ان کا رشتہ مزید مضبوط ہوا، حالانکہ کچھ درباریوں کی طرف سے اس کی مخالفت بھی کی گئی۔ ان میں سے ایک نے شہزادہ فلپ کو ‘بد تہذیب’ بھی کہا۔

لیکن نوجوان شہزادی انھیں بہت زیادہ پیار کرتی تھیں اور 1946 کے موسم گرما میں شہزادی کے عاشق نے شادی کے لیے بادشاہ سے ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگا۔

The Duke of Edinburgh inspecting Canadian Sailors at Pirbright, 1953

تاہم، منگنی کا اعلان ہونے سے پہلے، شہزادے کو ایک نئی شہریت اور خاندانی نام کی ضرورت تھی۔ انھوں نے اپنا یونانی ٹائٹل ترک کیا، برطانوی شہری حاصل کی اور اپنی والدہ کا اینگلیسائیزڈ نام ماؤنٹ بیٹن اپنایا۔

شادی کی تقریب سے ایک روز قبل شاہ جارج ششم نے فلپ کو ہز رائل ہائنس کے خطاب سے نوازا اور شادی کی صبح ہی وہ ڈیوک آف ایڈنبرا، ارل آف میرونیتھ اور بیرن گرین وچ بنا دیے گئے۔

20 نومبر 1947 کو ویسٹ منسٹر ایبے میں شادی انجام پائی۔ ونسٹن چرچل کے مطابق وہ جنگ کے بعد کے سرمئی برطانیہ میں نے ایک ‘رنگ کی چمک’ جیسی تھی۔

کیریئر رک گیا

ڈیوک اپنے نیول کیریئر میں واپس آگئے اور انھیں مالٹا پوسٹ کر دیا گیا، جہاں کم از کم کچھ عرصے تک تو جوڑا کسی بھی دوسری سروس فیملی کی رہا۔

ان کا بیٹا، پرنس چارلس 1948 میں بکنگھم پیلس میں پیدا ہوا، اور بیٹی، شہزادی این، 1950 میں پیدا ہوئی۔ بعد میں شہزادہ اینڈریو (1960) اور شہزادہ ایڈورڈ (1964) میں پیدا ہوئے۔

2 ستمبر 1950 کو انھیں وہ اعزاز حاصل ہوا جس کا خواب ہر نیول افسر دیکھتا ہے۔ انھیں اس دن جہاز ایچ ایم ایس میگ پائی کی کمانڈ سونپی گئی۔

لیکن ان کا نیول کیریئر اب رکنے والا تھا۔ جارج ششم کی بگڑتی ہوئی صحت کا مطلب تھا کہ ان کی بیٹی کو اب زیادہ شاہی فرائض انجام دینے تھے اور انھیں اپنے ساتھ اپنے شوہر کی ضرورت تھی۔

Princess Elizabeth marries Philip Mountbatten

PA

جولائی 1951 میں شہزادہ فلپ نے رائل نیوی سے چھٹی لی۔ لیکن پھر کبھی اس میں کسی ایکٹیو کردار میں واپس نہیں آئے۔

ڈیوک ایسے شخص نہیں ہیں جو بعد میں افسوس کرتے رہیں، لیکن انھوں نے بعد کی زندگی میں یہ ضرور کہا تھا کہ انھیں افسوس ہے کہ وہ بحریہ میں اپنا کیریئر جاری رکھنے میں ناکام رہے۔

ان کے معاصرین کے مطابق وہ اپنے بل بوتے پر ہی نیوی کے پہلے سربراہ کے عہدے پر پہنچ سکتے تھے۔

1952 میں شاہی جوڑا دولت مشترکہ کے دورے پر روانہ ہوا جس پر پہلے دراصل شاہ اور ملکہ کو جانا تھا۔

جدید نظریات

جب وہ فروری میں کینیا کے ایک گیم لاج میں قیام پذیر تھے تو انھیں بادشاہ کی موت کی خبر ملی۔ بادشاہ کورونری تھرومبوسس ہوا تھا جس میں دل میں کلاٹ آ جاتا ہے۔

انھیں اپنی بیوی کو یہ خبر دینی پڑی کہ وہ اب ملکہ بن گئی ہیں۔

بعد میں ایک دوست نے بتایا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے شہزادہ فلپ پر ‘آدھی دنیا’ گر گئی ہو۔

The Duke of Edinburgh pays homage to his wife, the newly crowned Queen Elizabeth II, during her coronation ceremony, 1953

اپنے بحری کیریئر میں رکاوٹ کے بعد انھیں اپنے لیے ایک نیا کردار بنانا تھا، اور الزیبتھ کے تخت پر بیٹھنے کے بعد سوال تھا کہ وہ کیا ہو گا۔

تاجپوشی کے قریب آتے ہی، ایک رائل وارنٹ میں اعلان کیا گیا کہ شہزادہ فلپ کو ہر موقع پر ملکہ کے بعد فوقیت حاصل ہوگی، پھر بھی انھیں کبھی کوئی آئینی عہدہ نہیں دیا گیا۔

ڈیوک کے پاس بادشاہت کو جدید بنانے اور اسے ہموار کرنے کے بہت سے نظریات تھے لیکن محل کے کئی پرانے محافظوں کی مخالفتوں کی وجہ سے وہ تیزی سے مایوسی کا شکار ہوتے گئے۔

تلخ دھچکا

انھوں نے اپنی کچھ توانائیاں ایک فعال معاشرتی زندگی میں لگانا شروع کیں۔ وہ اور ان کے مرد دوستوں کا ایک گروپ نے وسطی لندن کے علاقے سوہو میں واقع ایک ریستوراں کے اوپر والے کمروں میں ہر ہفتے ملاقات کرنے لگا۔

طویل دوستانہ لنچ اور نائٹ کلبوں کے دوروں کا سلسلہ تھا اور اکثر ان کے ساتھ بہت پرکشش ساتھیوں کی تصاویر بھی منظرِ عام پر آئیں۔

ایک ایسی جگہ جہاں ڈیوک کو اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے پوری آزادی دی تھی وہ ان کا خاندان تھا، اگرچہ وہ اپنے بچوں کے نام کی جنگ ہار چکے تھے۔

The Queen & Prince Philip in 1953 at Maida Vale

ملکہ کا یہ فیصلے کہ ان کے خاندان کے افراد شہزادہ فلپ کے خاندانی نام ماؤنٹ بیٹن کے بجائے ونڈسر کے نام سے پکارے جائیں گے، ان کے لیے ایک سخت دھچکا تھا۔

انھوں نے اپنے دوستوں سے شکایت کی کہ ‘میں ملک کا واحد آدمی ہوں جسے اجازت نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنا نام دے۔ میں بلڈی امیبا کے سوا کچھ نہیں ہوں۔’

بطور ایک والد شہزادہ فلپ اکھڑ اور بے حس نظر آتے تھے۔

شہزادہ چارلس کی سوانح عمری لکھنے والے جوناتھن ڈمبلبی کے مطابق، جوانی میں شہزادہ چارلس عوامی جگہوں پر اپنے والد کی طرف سے سرزنشوں کی وجہ سے آبدیدہ ہو جاتے تھے اور والد اور بڑے بیٹے کے درمیان تعلقات کبھی بھی آسان نہیں تھے۔

کردار کی طاقت

فلپ کا اصرار تھا کہ پرنس چارلس ان کے اپنے پرانے سکول گورڈن سٹن جائیں، کیونکہ ان کو کامل یقین تھا کہ اس کی تعلیم اور ڈسپلن ان کے بیٹے کی کسی قدر خلوت پسند طبیعت کو بدل دے گی۔

اس وجہ سے نوجوان شہزادہ سکول سے نفرت کرتا تھا، جہاں انھیں گھر بہت یاد آیا اور دوسرے لڑکوں نے انھیں بُلی کیا۔

ڈیوک کے رویے ان کی اپنے کبھی کبھاری تنہا مشکل بچپن کی عکاسی کرتے تھے۔

انھیں چھوٹی عمر سے ہی خود انحصاری پیدا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور اسے سمجھنا مشکل تھا کہ ہر کوئی کردار کی مضبوطی کے حوالے سے ان جیسا نہیں تھا۔

Prince Charles arrives at Gordonstoun

شہزادہ فلپ کی سب سے بڑی تشویش نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے تھی اور 1956 میں اس میں دلچسپی کی وجہ سے انھوں نے غیر معمولی کامیاب ڈیوک آف ایڈنبرا ایوارڈ کا اجراء کیا۔

آنے والے سالوں میں اس نے دنیا بھر میں 15 سے 25 سال کی عمر کے تقریباً 60 لاکھ جسمانی طور پر قابل اور معذور افراد کو باہر کی جانے والی متعدد سرگرمیوں میں جسمانی ، ذہنی اور جذباتی طور پر چیلینج کرنے کے قابل بنا دیا۔ یہ سرگرمیاں ٹیم ورک ، وسائل اور فطرت کے احترام کو فروغ دینے کے لئے ڈیزائن کی جاتی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اگر آپ یہ کر سکتے ہیں کہ نوجوانوں کسی بھی سرگرمی کے شعبے میں کامیاب ہوں تو، وہ کامیابی کا احساس بہت سے دوسرے (شعبوں) میں بھی پھیل جائے گا۔’

اپنی ساری زندگی ڈیوک اس سکیم کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت نکالتے رہے، مختلف تقریبوں میں شریک ہوتے اور اس کی روز مرہ کی بھاگ ڈور میں خود کو شامل رکھتے۔

‘اخلاقی احساس’

وہ جنگلی حیات اور ماحولیات کے بھی ایک پرجوش حمایتی تھے، اگرچہ 1961 میں ہندوستان کے ایک دورے کے دوران ایک شیر کو گولی مارنے کے ان کے فیصلے نے ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا۔

معاملہ اس وقت مزید بگڑ گیا جو شیر کو ٹرافی کے طور پر دکھانے والی ایک تصویر بھی شائع ہوئی۔ ۔

تاہم، انھوں نے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے لیے اپنا قابل قدر اثر و رسوخ اور توانائی استعمال کی، بعد میں یہ ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر کہلایا اور وہ اس کے پہلے صدر کی حیثیت سے قدرتی انتخاب نظر آئے۔

انھوں نے بی بی سی کے ایک انٹرویو کو بتایا کہ ‘میرے خیال میں یہ حیرت انگیز ہے کہ ہمارے پاس اس سیارے پر زندگی کی بہت ہی مختلف قسم موجود ہیں، جن سب کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔’

‘میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر ہم انسانوں لہ پاس زندگی یا موت یا معدومیت یا بقا کی طاقت ہے تو ہمیں اسے کسی نہ کسی اخلاقی احساس کے ساتھ استعمال کرنا چاہیئے۔ کسی چیز کو معدوم ہی کیوں کریں، اگر آپ کو ایسے کرنے کی ضرورت نہیں؟’

Philip sits atop an elephant while visiting the Kanha Game Reserve today during his ten day tour of India with the Queen

PA

انھوں نے اس وقت کچھ ماہرِ ماحولیات کو پریشان کر دیا جب انھوں نے گراؤز )جنگلی مرغ) کے شکار کا دفاع کیا۔

‘اگر آپ کے پاس شکار کی نوع ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ وہ زندہ رہیں کیونکہ آپ اگلے سال بھی انھیں حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ بالکل ایک کسان کی طرح ۔ آپ اسے کاٹنا چاہتے ہیں، آپ اسے ختم نہیں کرنا چاہتے۔’

سیدھی بات کرنے والے

لیکن ان کے دنیا کے جنگلات کو محفوظ رکھنے اور سمندروں میں زیادہ مقدار میں ماہی گیری کے خلاف مہم چلانے کے عزم کی وسیع پیمانے پر تعریف کی گئی۔

شہزادہ فلپ اس صنعت میں گہری دلچسپی رکھتے تھے، انھوں نے فیکٹریوں کا دورہ کیا اور انڈسٹرئل سوسائٹی کے سرپرست بنے، جسے اب ورک فاؤنڈیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سنہ 1961 میں صنعت کاروں کے ایک گروہ کو ڈیوک نے اپنے روایتی دو ٹوک انداز میں کہا: ‘حضرات، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی انگلیاں باہر نکالیں۔’

ان کے اسطرح کے دو ٹوک انداز کو کچھ لوگوں نے مغروریت سے تعبیر کیا اور بعض اوقات اس نے انھیں مشکل میں بھی ڈال دیا۔ انھیں یقینی طور پر ایسی شہرت ملی کہ وہ حالات کو غلط انداز میں سمجھتے ہیں، خاص طور پر جب وہ بیرون ملک ہوں۔

The Duke of Edinburgh is seen trying the passenger's seat of the new 3.5 litre Jaguar XKSS sports car during his visit to the Motor Industry Research Association's headquarters near Nuneaton, Warwickshire

PA
He took a keen interest in British industry

1986 میں ملکہ کے ساتھ چین کے سرکاری دورے کے دوران انھوں اپنا ایک بہت زیادہ متنازعہ بیان دیا تھا۔ انھوں نے’کٹی ہوئی آنکھوں’ کی بات کی جو کہ انھیں لگا کہ ان کا نجی بیان تھا۔

اس پر ٹیبلوائڈز (اخبار) ایک طرح کے عارضی جنون میں گئے، حالانکہ ایسا لگا کہ چین میں اس پر اتنی تشویش نہیں تھی۔

2002 میں آسٹریلیا کے ایک دورے پر انھوں نے ایک ابروجینل بزنس مین سے پوچھا کہ ‘کیا آپ اب بھی ایک دوسرے پر نیزے پھینکتے ہیں۔’

تناؤ

اگرچہ ان کے اس طرح کے تبصروں پر کچھ حلقوں میں شدید تنقید کی گئی، دوسروں نے انھیں کسی ایسے شخص کے روپ میں دیکھا جو اپنا فیصلہ خود کرتا ہے اور جو سیاسی درستگی کا پابند ہونے سے انکار کرتا ہے۔

در حقیقت، بہت سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے نام نہاد ‘گافس’ یا ‘بے تکی باتیں’ ماحول کو ہلکا کرنے اور لوگوں کو آرام دہ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ اور نہیں تھیں۔

شہزادہ فلپ نے ساری زندگی کھیل کے لیے جوش و جذبہ برقرار رکھا۔ انھوں نے کشتی رانی کی، کرکٹ اور پولو کھیلی، کیریج چلانے میں مہارت حاصل کی اور کئی سال تک انٹرنیشنل ایکویسٹریئن فیڈریشن کے صدر رہے۔

Prince Philip playing polo

PA

جوناتھن ڈمبلبی کی لکھی ہوئی شہزادہ چارلس کی سوانح عمری کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کے بڑے بیٹے کے ساتھ ان کا تناؤ پھر منظرے عام پر آیا۔

کہا جاتا ہے کہ ڈیوک آف ایڈنبرا نے چارلس کو لیڈی ڈیانا سپینسر سے شادی کرنے پر مجبور کیا تھا۔

لیکن پھر بھی ان مشکل سالوں میں جب ان کے بچوں کی شادیاں ٹوٹ رہی تھیں تو ڈیوک ہی زیادہ تشویش کا اظہار کرتے نظر آتے تھے، اگرچہ شاید بہت سے نقاد اس سے متفق نہ ہوں۔

انھوں نے مسائل کو سمجھنے کی کوشش میں پہل کی،جو کہ شاید رائل فیملی میں شادی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کی ان کی اپنی یادوں کی طرف ایک اشارہ کیا۔

ماں کی قبر پر حاضری

شہزادہ فلپ کو اپنے چار میں سے تین بچوں ۔ شہزادی این، شہزادہ اینڈریو اور شہزادہ چارلس کی شادیوں کی ناکامی پر بہت دکھ تھا۔

لیکن انھوں نے ہمیشہ ذاتی معاملات پر بات کرنے سے انکار کیا۔ انھوں نے 1994 میں ایک اخبار کو بتایا کہ انھوں نے نہ پہلے ایسا کیا تھا اور نہ ہی وہ اس وقت یہ شروع کرنے والے ہیں۔

بڑھتی ہوئی عمر ان کی زندگی کی رفتار کو زیادہ سست نہ کر سکی۔ ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر کے لیے اور ملکہ کے ساتھ بیرون ملک ریاستی دوروں پر انھوں نے بڑے پیمانے پر سفر جاری رکھا۔

اور 1994 میں انھوں نے اپنی والدہ کے مقبرے کی زیارت کے لیے یروشلم کا ذاتی دورہ کیا۔ ان کو ان کی خواہش کی بنیاد پر وہاں دفن کیا گیا تھا۔

The Duke of Edinburgh (left) takes part in the Pony-Four-in-Hand

PA

1995 میں وی جے ڈے کی 50 ویں سالگرہ پر بھی ان کے لیے ایک اور تکلیف دہ لمحہ تھا۔

جب جاپانیوں نے ہتھیار ڈالے اس وقت شہزادہ فلپ ٹوکیو بے میں ایک برطانوی جہاز پر موجود تھے اور سالگرہ کے موقع پر، وہ مشرقِ بعید کی مہم میں شامل دیگر سابق فوجیوں کے ساتھ دی مال پر ملکہ کو سلامی دینے والوں میں موجود تھے۔

انھوں نے جاپانیوں کے ان سابقہ قیدیوں سے بھی ہمدردی کا اظہار کیا جن کے لیے اس کو معاف کرنا مشکل یا ناممکن تھا جو سلوک ان کے ساتھ کیا گیا تھا۔

بعد کے سالوں میں ان کے سخت رویے میں ذرا نرمی آ گئی تھی، جو کہ شاید ڈیانا، پرنسس آف ویلز کی موت کے بعد عوام میں شاہی خاندان کبھی کبھار جارحانہ رویہ کی وجہ سے تھا۔

2007 میں، ڈیوک اور شہزادی کے مابین خطوط شائع ہوئے جن میں ان دعوؤں کی تردید کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنی بہو سے دشمنی رکھتے تھے۔

‘ڈیئرسٹ پا’ کے نام سے جانے جانے والے خطوط میں دکھایا گیا تھا کہ ڈیانا کو ان کی بہت حمایت حاصل تھی، اس حقیقت کی نشاندہی ڈیانا کی طرف سے لکھے گئے خطوط میں موجود پر خلوص لہجے سے ہوتی ہے۔

The Duke with Diana, Princess of Wales

Shutterstock

ڈیانا کے آخری ساتھی ڈوڈی کے والد محمد الفائد نے ان کی موت پر انکویسٹ (تفتیش) کے موقع پر کہا تھا کہ ان کا قتل شہزادہ فلپ کے حکم پر کیا گیا تھا۔ کورونر نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا تھا۔

پرنس فلپ، ڈیوک آف ایڈنبرا، مضبوط حواس کے ایک ایسے آزاد آدمی تھے جنھوں نے خود کو برطانوی معاشرے کے مرکز میں پایا۔

وہ ایک فطری رہنما تھے جن کے کردار نے انھیں ہمیشہ دوسری جگہ لینے پر مجبور کیا۔ ایک لڑاکا مزاج آدمی جو اکثر اپنی حیثیت کی حساسیت کی وجہ سے بے چین رہتے تھے۔

انھوں نے ایک مرتبہ بی بی سی کو بتایا کہ ‘میں نے ابھی تک وہی کیا جو میرے خیال میں میرا سب سے اچھا تھا۔ میں اچانک چیزوں کو کرنے کے اپنے پورے طریقے کو تبدیل نہیں کرسکتا، میں اپنی دلچسپی یا چیزوں پر اپنے ردعمل کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ یہ میرا انداز ہے۔’

اس کا اعتراف وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اس وقت کیا جب انھوں نے جون 2011 میں ڈیوک کی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر انھیں خراج تحسین پیش کیا۔

‘انھوں نے ہمیشہ اپنے کام اپنے بے نظیر طریقے سے سرانجام دیے ہیں، اپنے حقیقت پسندانہ، نو نان سینس نقطہ نظر کے ساتھ، جو کہ میرا خیال ہے برطانوی عوام کو پسند ہے۔’

Queen Elizabeth and Prince Philip walk at Broadlands in Romsey, 2007

PA
The Queen referred to him as her ‘strength and stay’

عوامی زندگی سے کنارہ کشی

ڈیوک آف ایڈنبرا کئی دہائیاں ملکہ کی حمایت کرنے اور اپنے ہی خیراتی اداروں اور تنظیموں کے پروگراموں میں شرکت کے بعد اگست 2017 میں عوامی زندگی سے سبکدوش ہوگئے تھے۔

بکنگھم پیلس کے ایک تخمینے کے مطابق انھوں نے 1952 سے اب تک 22219 سولو مصروفیات میں حصہ لیا ہے۔

وزیر اعظم تھریسا مے نے ان کی ‘عوامی خدمت کی قابل ذکر زندگی’ کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔

اسی سال کے آخر میں فلپ نے شادی کی 70 ویں سالگرہ منائی۔ کولہے کا آپریشن بھی انھیں ونڈسر کیسل کے میدان کے ارد گرد گاڑیاں چلانے سے نہیں روک پایا۔

جنوری 2019 میں سینڈرنگھم کے قریب گاڑی چلاتے ہوئے وہ ایک سنگین کار حادثے میں بال بال بچے۔ دوسری کار میں موجود دو خواتین کو زخم آئے، اور ڈیوک نے رضاکارانہ طور پر اپنے ڈرائیور لائسنس واپس کر دیا۔

کورونا وائرس وبائی مرض کے دوران فلپ اور ملکہ کو جنوری 2021 میں ویکسین لگی۔ ونڈسر کیسل کے ایک ڈاکٹر نے انھیں ویکسین لگائی۔ انگلینڈ کے لاک ڈاؤن ڈیوک اور ملکہ ونڈسر کیسل میں ہی رہے تھے۔

فلپ برطانوی زندگی میں ایک بہت بڑا حصہ ڈالنے کے لیے اپنے عہدے کو بروئے کار لانے میں کامیاب رہے اور وقت کے ساتھ بادشاہت کو بدلتے ہوئے معاشرتی رویوں کے مطابق ڈھلنے میں مدد دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔

لیکن ان کی سب سے بڑی کامیابی بلاشبہ ملکہ کی حکمرانی کے طویل دور ان کی مستقل مزاجی اور حمایت کی طاقت تھی۔

انھوں نے اپنی سوانح عمری لکھنے والے کو بتایا کہ ان کا کام اس بات کو ‘یقینی بنانا تھا کہ ملکہ راج کر سکتی ہیں۔’

جوڑے کی شادی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر منعقدہ ایک جشن میں ایک تقریر میں ملکہ نے اپنے شوہر کو خراج تحسین پیش کیا، جو کہ برطانوی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک کام کرنے والے شاہی کنسورٹ یا ساتھی ہیں۔

‘وہ ایسے شخص ہیں جو آسانی سے تعریف نہیں سنتے، لیکن وہ اتنے سالوں سے میری طاقت اور ساتھ رہے ہیں۔ اور میں اور ان کا پورا خاندان، اور اس اور بہت سارے دوسرے ملکوں پر، ان کا بہت زیادہ قرض ہے، جو کہ اس سے زیادہ ہے جس کا دعویٰ کریں گے یا ہم کبھی بھی جانیں گے۔’

The Duke of Edinburgh in his uniform as a Field Marshall in the British Army

PA

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp