سانحۂ جلیاںوالہ باغ اور رام محمد سنگھ آزاد


یہ 13 مارچ 1940 کا دن تھا۔ برطانوی دارالحکومت لندن کے کاکسٹن ہال میں ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک اجلاس منعقد ہو رہا تھا۔ جس میں دوسری جنگ عظیم میں برطانوی عوام اور افواج کے گرتے ہوئے مورال کو بلند کرنے کے لیے ہندوستان میں برطانوی راج کی عظمت رفتہ کے قصیدے پڑھے جا رہے تھے۔ اسٹیج پہ 1919 میں پنجاب کے لیفٹینٹ گورنر سر لیوس ڈینی، انڈیا اور برما کے لیے سیکرٹری اسٹیٹ لارنس جان لیوملے ڈنڈاس، ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن کے صدر چارلس سی بیلی اور ایک لمبے عرصے تک رہنے والے پنجاب کے گورنر سر مائیکل اوڈوائر براجمان تھے۔

جیسے ہی مائیکل اوڈوائر اسٹیج پہ تقریر کے لیے نمودار ہوئے اور انہوں نے تاج برطانیہ کے لیے اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فخریہ انداز میں بیان کہا کہ میں نے برطانوی پرچم کی سر بلندی کے لیے کسی بھی موقع پہ کمزوری نہیں دکھائی اور اپنی بات میں تقویت کے لیے 13 اپریل 1919 بیساکھی کے موقعہ پہ جلیانوالہ باغ امرتسر کے قتل عام کو بطور دلیل پیش کیا۔ تو ہال میں ایک نوجوان نے اپنا ریوالور نکالا جسے وہ ایک بڑے سائز کی کتاب میں چھپا کر لے گیا تھا اور تین گولیاں مائیکل اوڈوائر کے سینے میں پیوست کر دیں۔

اس کی گولیوں سے اسٹیج پہ بیٹھے باقی لوگ بھی زخمی ہوئے۔ ہال میں شور برپا ہو گیا ، افراتفری میں ہر کوئی جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ کھڑا ہوا۔ اگر اس ہال میں کوئی پر سکون کھڑا تھا تو وہ تھا ”قاتل“ ۔ پولیس نے قاتل کو گرفتار کر لیا جس نے نہ ہی بھاگنے کی کوشش کی اور نہ گرفتار ہونے میں مزاحمت۔ جب اس سے پوچھا گیا تم کون ہو؟ اس نے گرجدار آواز میں جواب دیا۔ رام محمد سنگھ آزاد۔

یہ اودھم سنگھ تھے جنھوں نے 19 برس کی عمر میں 1919 کو بیساکھی کی تقریب میں جلیانوالہ باغ امرتسر میں شرکت کی۔ اس روز وہ آنے والوں کو پانی پلانے پہ مامور تھے۔ رولٹ ایکٹ نے ہندوستان کے حالات کشیدہ کر رکھے تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ہندوستان نے برطانیہ کے لیے فوجی مدد کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی کی۔ جہاں جنگ عظیم کی وجہ سے بھوک کی بھٹی میں اپنی زندگیوں کو جھونکا وہاں مہنگائی کے اژدھے کو بھی گلے لگایا کیونکہ انہیں امید تھی کہ جنگ کے خاتمے پر ہوم رول کی صورت میں مفید آئینی اصلاحات نافذ ہوں گی۔

لیکن جب برطانیہ جنگ جیت گیا تو مقامی لوگوں یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سڈنی رولٹ کے تجویز کردہ رولٹ ایکٹ کو پاس کر کے نافذ کر دیا۔ جس میں انفرادی حیثیت میں اتنی پابندیاں لگائیں کہ سانس لینا بھی دشوار تھا۔ کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ دو ماہ تک مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیے بغیر تفتیشی حراست میں رکھا جا سکتا تھا۔ ملزم کو فرد جرم کی کاپی حاصل کرنے کے حق سے بھی محروم کیا گیا۔ سزا یافتہ افراد کو وکیل اور اپیل جیسے حقوق سے بھی محروم کیا گیا۔ اس پہ لاہور کے ایک اخبار نے ”نہ دلیل۔ نہ وکیل۔ نہ اپیل“ کے عنوان سے تبصرہ چھاپا۔

30 مارچ 1919 سے دہلی اور پنجاب بغاوت کی چنگاری سے سلگ رہا تھا۔ گاندھی جی کو پنجاب آنے سے روک دیا گیا۔ پنجاب انگریزوں کی پکڑ ڈھیلی پڑنے لگی تھی۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور سیتہ رام پال کو امرتسر سے شہر بدر کر دیا گیا۔ بیساکھی کی تقریبات میں سے آزادی کی خوشبو آ رہی تھی۔ پنجاب کے گورنر مائیکل اوڈوائر نے لاہور اور امرتسر میں مارشل لاء نافذ کر کے جنرل ڈائر کو حالات پہ قابو پانے کے لیے اختیار دے دیا۔ جنرل ڈائر نے امرتسر کے فوجی کمانڈر کی حیثیت سے دیگر شہری اہلکاروں سے مل کر شہر کا گشت کیا اور شہر میں داخلے اور خارج ہونے کے لیے اجازت نامہ لینے کا حکم دیا اور یہ بھی کہ رات آٹھ بجے سے کرفیو شروع ہو جائے گا اور تمام عوامی اجتماعات اور چار یا چار سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگائی۔

یہ اعلان انگریزی، اردو، ہندی اور پنجابی میں پڑھ کر سنایا گیا مگر بعد کے واقعات سے پتہ چلا کہ بہت کم لوگوں نے اسے سنا یا انہیں علم ہوا۔ اس دوران مقامی خفیہ پولیس کو پتہ چلا کہ جلیاں والا باغ میں عوامی اجتماع ہو گا۔ 12بج کر 40 منٹ پر ڈائر کو اس کی اطلاع دی گئی اور ڈیڑھ بجے وہ اپنے مرکز واپس لوٹا تاکہ اجتماع سے نمٹنے کی تیاری کر سکے۔

دوپہر تک ہزاروں سکھ، مسلمان اور ہندو جلیاں والا باغ میں ہرمندر صاحب کے پاس جمع ہو چکے تھے۔ بہت سارے لوگ گولڈن ٹمپل میں عبادت کر کے آئے تھے اور باغ کے راستے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ باغ چھ یا سات ایکڑ جتنے رقبے پر پھیلا ہوا اور کھلا علاقہ تھا۔ یہ رقبہ لگ بھگ دو سو گز لمبا اور دو سو گز چوڑا تھا اور اس کے گرد تقریباً دس فٹ اونچی چار دیواری موجود تھی۔ گھروں کی بالکونیاں زمین سے تین یا چار منزل اونچی تھیں اور وہاں سے باغ کا نظارہ دکھائی دیتا تھا۔

باغ میں آنے کے کل پانچ تنگ راستے تھے جن میں سے کئی کے دروازے مقفل تھے۔ برسات میں یہاں فصلیں بھی اگائی جاتی تھیں مگر سال کا زیادہ تر حصہ اس کا کام کھیل کے میدان اور محض عوامی اجتماعات تک ہی محدود رہتا تھا۔ باغ کے مرکز میں سمادھی (شمشان گھاٹ) بھی تھا اور بیس فٹ چوڑا ایک کنواں تھا جس میں پانی موجود تھا۔

یاتریوں کے علاوہ امرتسر میں گزشتہ کئی دنوں سے کسانوں، تاجروں اور دکانداروں کا مجمع ہو رہا تھا جو بیساکھی کے سالانہ میلہ مویشیاں کی خاطر آئے ہوئے تھے۔ شہری پولیس نے 2 بجے میلہ بند کرا دیا جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگوں نے جلیاں والا باغ کا رخ کیا۔ اندازہ ہے کہ اس وقت باغ میں بیس سے پچیس ہزار افراد جمع تھے۔

اس اجتماع کے اکٹھا ہونے کا وقت ساڑھے چار بجے تھا اور اس کے ایک گھنٹے بعد کرنل ڈائر کل 90 گورکھا فوجی لے کر باغ پہنچا۔ ان میں سے 50 کے پاس تھری ناٹ تھری لی این فیلڈ کی بولٹ ایکشن رائفلیں تھیں۔ چالیس کے پاس لمبے گورکھا چاقو تھے۔ اس بارے علم نہیں کہ گورکھا فوجیوں کو برطانوی حکومت کے ساتھ ان کی غیر متزلزل وفاداری کی وجہ سے چنا گیا یا پھر اس لیے کہ اس وقت غیر سکھ فوجی میسر نہ تھے۔ اس کے علاوہ مشین گن سے لیس دو بکتربند گاڑیاں بھی ساتھ آئی تھیں مگر ان گاڑیوں کو باہر ہی چھوڑ دیا گیا کہ باغ کے راستے بہت تنگ تھے اور گاڑیاں اندر نہیں جا سکتی تھیں۔ جلیاں والا باغ کے گرد ہر سمت رہائشی مکانات تھے۔ بڑا داخلی راستہ نسبتاً زیادہ چوڑا تھا اور اس پر فوجی پہرہ دے رہے تھے اور ان کی پشت پر بکتربند گاڑیاں موجود تھیں۔

ڈائر نے مجمع کو کوئی تنبیہہ نہیں دی اور نہ ہی انہیں اجلاس ختم کرنے کا کہا اور اس نے اہم داخلی راستے بند کر دیے۔ بعد میں اس نے بتایا، ’میرا مقصد مجمع ختم کرنا نہیں بلکہ ہندوستانیوں کو سزا دینا تھا۔ ڈائر نے فوجیوں کو حکم دیا کہ مجمع میں ان حصوں پر گولی چلائی جائے جہاں سب سے زیادہ افراد جمع ہوں۔ فائرنگ تب روکی گئی جب گولیاں تقریباً ختم ہو چکی تھیں اور اندازاً 1650 کارتوس چلے۔

فائرنگ سے بچنے کی کوشش میں تنگ گزرگاہوں پر بہت سارے لوگ بھگدڑ کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور دیگر کنویں میں چھلانگ لگا کر ہلاک ہوئے۔ آزادی کے بعد کنویں پر لگائی گئی تختی کے مطابق اس کنویں سے 120 لاشیں نکالی گئیں۔ زخمیوں کو بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ کرفیو نافذ تھا۔ رات میں کئی زخمی بھی ہلاک ہوئے۔

فائرنگ سے ہلاکتوں کی تعداد واضح نہیں۔ برطانوی تفتیش کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل اموات 379 ہوئیں مگر اس تفتیش کے طریقہ کار پر اعتراض ہوا۔ جولائی 1919ء میں قتل عام کے تین ماہ بعد حکام نے قتل ہونے والے افراد کا اتا پتا لگانے کی خاطر علاقے کے لوگوں کو بلوایا تاکہ وہ مقتولین کے بارے رضاکارانہ طور پر معلومات دے سکیں۔ تاہم اس بارے زیادہ لوگ سامنے نہیں آئے کہ اس طرح یہ ثابت ہو جاتا کہ وہ افراد بھی اس غیر قانونی مجمع میں شریک تھے۔

اس کے علاوہ بہت سارے مقتولین کے قریبی رشتہ اس شہر سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ہنٹر کمیٹی کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ چونکہ مجمعے کے حجم، چلائی گئی گولیوں کی تعداد اور اس کے دورانیے کے بارے سرکاری اندازے غلط ہو سکتے ہیں، ۔ انڈین نیشنل کانگریس نے اپنی طرف سے ایک اور تحقیقاتی کمیٹی بنائی جس کے نتائج سرکاری نتائج سے بہت مختلف نکلے۔ کانگریس کی کمیٹی نے زخمیوں کی تعداد پندرہ سو سے زیادہ اور ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ ایک ہزار لگایا۔

اس وقت کے سیکریٹری آف سٹیٹ فار وار ونسٹن چرچل ہندوستانیوں سے شدید تعصب کے باوجود کھلے عام اس حملے کی مذمت کیے بغیر نہ رہ سکا۔ چرچل نے اسے ’خوفناک‘ کہا۔ 8 جولائی 1920 کو ایوان نمائندگان میں چرچل نے بتایا، ’ہجوم نہتا تھا اور ان کے پاس شاید لاٹھیاں رہی ہوں۔ انہوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا تھا۔ جب ان پر گولیاں چلائی گئیں تو لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی۔ ٹرافالگر سکوئیر سے بھی چھوٹی جگہ پر اتنا بڑا مجمع تھا اور گولیاں ہجوم کے وسط پر چلائی گئیں۔

انہوں نے جب فرار کی کوشش کی تو ان کے پاس باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ لوگ اتنے قریب قریب تھے کہ شاید ایک گولی تین یا چار انسانوں کے پار ہو جاتی۔ لوگ دیوانوں کی مانند جان بچانے کو ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ پھر اطراف پر بھی گولیاں برسائی گئیں۔ یہ سارا واقعہ آٹھ یا دس منٹ بعد تب جا کر رکا جب گولیاں ختم ہونے والی تھیں۔

udham singh arrested

رابندر سنگھ ٹیگور کو 22 مئی 1919 کو اس قتل عام کی اطلاع ملی۔ انہوں نے کلکتہ میں احتجاجی مظاہرے کی کوشش کی اور آخرکار بطور احتجاج سر کا خطاب واپس کر دیا۔ 30 مئی 1919 کو وائسرائے لارڈ چیلمس فورڈ کو لکھے ہوئے خط میں ٹیگور نے لکھا: ’میری خواہش ہے کہ میں تمام تر اعزازات کو چھوڑ کر اپنے ہم قوموں کے ساتھ کھڑا ہوں جو اپنی نام نہاد ناقدری کی وجہ سے تکلیفیں سہتے اور انسان کہلانے سے محروم ہیں۔

یہ خطاب بعد ازاں شاعر مشرق علامہ اقبال کے کشادہ سینے کی زینت بنا ، کاش کالم کی طوالت دامن گیر نہ ہوتی تو علامہ اقبال کا وہ قصیدہ بھی شامل کرتا جس میں انہوں نے گورنر مائیکل اوڈوائر کو حق اور باطل میں فرق کرنے والی تیغ بے نیام قرار دیا۔

اودھم سنگھ نے مقدمے کی سماعت کے دوران میں بتایا: میں نے یہ کام اس لیے کیا کہ مجھے اس سے نفرت تھی۔ وہ اسی کا مستحق تھا۔ اصل بدمعاشی اسی کی تھی۔ اس نے میری قوم کی روح کچلنے کی کوشش کی تھی ، سو میں نے اسے کچل دیا۔ پورے 21 سال تک میں بدلے کی تیاری کرتا رہا۔ میں خوش ہوں کہ آخرکار کامیاب ہو گیا۔ مجھے موت سے کوئی خوف نہیں۔ میں اپنے ملک کے لیے جان دے رہا ہوں۔ میں نے برطانوی راج کے تحت ہندوستان میں لوگوں کو بھوک سے سسکتے دیکھا ہے۔ یہ میرا فرض تھا کہ اس کے خلاف احتجاج کروں۔ مادر وطن کے لیے جان قربان کرنے سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟

اودھم سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو بوسہ دے لیا اس کا عدالت میں بیان آج بھی حریت پسندوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ لیکن افسوس آج قصیدہ خواں تو قومی ہیرو ہیں۔ لیکن پھانسی چڑھنے والے سرپھرے ہی قرار دیے جائیں گے لیکن آج کے دن رام محمد سنگھ آزاد صاحب آپ سے یہ کہنا چاہیں گے کہ آپ ہمارے ہیرو ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments