سمیع چوہدری کا کالم: 'فہیم اشرف تو کلاسن کے پلان میں بھی نہ تھے'


فہیم اشرف

مہارت کبھی بھی تجربے کا بدل نہیں ہو سکتی۔ مہارت بجائے خود ایک کمال خاصیت ہے مگر جب تک سالہا سال، پے بہ پے، زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہونے کی بھٹی سے نہ گزرے، تب تک تجربے کا روپ نہیں دھارتی۔

جب کوئی بولر مسلسل فل ٹاس گیندیں پھینک کر مار کھا رہا ہوتا ہے تو بظاہر یہ اس کی کوتاہ ہمتی یا نالائقی نظر آتی ہے مگر درحقیقت یہ یارکر پھینکنے کی حتمی درستگی حاصل کرنے میں ناکامی ہوتی ہے جو بری بولنگ کی شکل میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔

ٹی ٹونٹی میں ڈیتھ اوورز کی بولنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ یہاں یارکرز، رفتار کا بدلاؤ اور سست رفتار کٹرز کام آتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے نوجوان بولرز یہ سب کرنے کی صلاحیت تو شاید رکھتے ہیں مگر تجربے کی کمی ان کے آڑے آئی۔

ویسے تو ڈیتھ اوورز میں پاکستانی بولنگ بھی بہت متاثر کن نہیں رہی مگر پھر بھی حسن علی کا سپیل جنوبی افریقہ کے رن ریٹ کا تسلسل توڑنے میں کامیاب رہا اور یہیں اگر شاہین آفریدی بھی فارم میں ہوتے تو ہدف شاید بیس رنز کم ہوتا۔

یہ بھی پڑھیے

رضوان کے ناقابل تسخیر 74 رنز، پاکستان کو چار وکٹوں سے فتح

ٹی ٹؤنٹی سیریز کا پہلا میچ: بیتے دنوں کی عظمت پھر سے پانے کا موقع

بے خطر کرکٹ ہی طریقہ بن گئی تو پاکستان کے دن بدلنے کو ہیں

پاکستان نے سیریز جیت لی: ’امیدوں پہ پورا اترے بوائز‘

جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ درست کیا کیونکہ ہینرخ کلاسن اپنے نوآموز بولنگ اٹیک کو شروع سے ہی دباؤ میں نہیں لانا چاہتے تھے۔ میلان نے جو خواب ناک آغاز فراہم کیا تھا، مارکرم اور کلاسن نے اس کو بنیاد بنا کر ایک اچھا مجموعہ تشکیل دیا۔

اگر محمد نواز پاور پلے میں میلان کی قیمتی وکٹ حاصل نہ کرتے تو بابر اعظم کی مشکلات بڑھ سکتی تھیں۔ لیکن حسن علی اور محمد نواز نے میچ پہ پاکستان کی گرفت ڈھیلی نہ ہونے دی۔

یہ وکٹ 190 رنز والی تھی۔ جنوبی افریقہ نے بہت ہمت کی مگر صرف دو تین رنز پیچھے رہ گیا۔

لیکن کلاسن نے بولنگ آرڈر میں بھی بہت ترکیب سے کام لیا۔ اس نوآموز بولنگ اٹیک میں تبریز شمسی ان کا سب سے تگڑا مہرہ تھے اور کھیل کی بساط پہ انہوں نے اس مہرے کا عین صحیح وقت پہ استعمال کیا۔ جب پاکستانی اننگز رفتار پکڑنے کو تھی، تب وہ شمسی کو اٹیک میں لائے۔

کرکٹ

اور تبریز شمسی کا سپیل ہی وہ مرحلہ تھا کہ جہاں پاکستانی اننگز پٹڑی سے اترتی نظر آئی۔ ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں سپنرز وہی کامیاب رہتے ہیں جو بلے باز کے ذہن سے ایک قدم آگے چلنا جانتے ہوں۔ شمسی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ بلے باز کا ذہن پڑھ لیتے ہیں۔

مگر اکیلے شمسی بھلا کہاں تک مزاحمت کرتے؟

کیونکہ اس اٹیک میں وہ سینئر ترین بولر تھے اور اپنی کارکردگی سے انہوں نے اپنے ساتھی بولرز کو وہ ٹھہراؤ اور اعتماد فراہم بھی کیا جو اننگز کے اس حصے میں درکار تھا۔ لیکن پھر وہی بات کہ مہارت کبھی بھی تجربے کا بدل نہیں ہو سکتی۔

وہ تجربہ جو محمد رضوان کی اننگز کے اتار چڑھاؤ میں دکھائی دیا۔ ان کی اننگز اس لحاظ سے خاص تھی کہ دباؤ کے باوجود کہیں اوسان خطا نہ ہونے دئیے اور میچ کے مختلف مراحل کے حساب سے اپنی رفتار بدلتے رہے۔ دوسری اننگز میں وکٹ تھوڑی پیچیدہ ہو چکی تھی تو وہاں رکنے کی ضرورت تھی۔

اگرچہ دوسرے اینڈ پہ کوئی بھی بلے باز زیادہ دیر نہ ٹک سکا مگر رضوان کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا مضبوط کنارہ میسر تھا کہ دوسرے اینڈ پہ آنے والے بلے باز کسی غیر معمولی دباؤ سے محفوظ رہے۔

بالخصوص پاکستانی بیٹنگ آرڈر کی گہرائی وہ پہلو رہا جو دونوں ٹیموں میں واضح فرق دکھائی دیا۔ جہاں یکے بعد دیگرے محمد حفیظ، حیدر علی اور محمد نواز ناکام ہوئے تو وہیں فہیم اشرف نے غیر متوقع طور پہ ایسی یلغار کر ڈالی جو جنوبی افریقہ کی سبھی کاوشوں پہ بھاری پڑ گئی۔

اگر یہاں ربادا، نگدی اور نورکیہ جیسے تجربہ کار بولرز موجود ہوتے تو یہ ہدف پاکستان کے لئے پہاڑ بن سکتا تھا۔ لیکن تجربے کی کمی نے نوجوان جنوبی افریقی بولنگ اٹیک کی صلاحیتیں گہنا دیں اور کلاسن کی ٹیم اچھا کھیل کر بھی ہارنے والی صفوں میں رہ گئی۔

کیونکہ فہیم اشرف کا بلا ابھی تک اس دورے پہ کھلا ہی نہیں تھا۔ اور کلاسن نے زیادہ تر پلاننگ بابر اعظم اور فخر زمان کے گرد بُن رکھی تھی۔ فہیم اشرف تو شاید کلاسن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp