نانی اماں کا دکھ اور مذہب کے ٹھیکے دار



میرا خواتین کے حقوق کے حوالے سے کالم پڑھ کر میری دوست خاص طور پر میرے گھر آئی اور مجھے سراہتے ہوئے آبدیدہ ہو کر بولی کہ تم نے خواتین کے بارے میں بالکل ٹھیک لکھا، میں نے اس کی آنکھوں میں جھلملاتے آنسوؤں کی وجہ پوچھی تو وہ رندھی ہوئی آواز میں بمشکل کہہ پائی:

”میرے نانا نے میری نانی کو اس وقت طلاق دی تھی جب وہ رمضان کی آمد سے قبل گھر کی سالانہ صفائی کر رہی تھیں، گھر کا سارا سامان کمروں سے باہر نکلا پڑا تھا، میری نانی سخت گرمی کی وجہ سے پسینے میں شرابور تھیں کہ جب نانا اچانک بیس بائیس دن کی غیر حاضری کے بعد گاؤں آئے۔  آؤ دیکھا نہ تاؤ، گاڑی سے نکلے اور سیدھا نانی کے پاس آ کر کہنے لگے کہ کیا مجھے دوسری شادی کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟

نانی چپ رہیں مگر بہت ڈر گئیں۔ جب نانا اندر کمرے میں گئے تو موقع پاتے ہی نانی گھر کے اوپر والے پورشن میں چلی گئیں۔ میری امی اس وقت بہت چھوٹی تھیں، وہ اس سارے معاملے کو مکمل تو نہیں مگر اتنا ضرور سمجھ رہی تھیں کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوا ہے، ان کا دکھ اور حیرت اس وقت انتہا کو پہنچا جب انہوں نے اوپر والے کمرے میں نانی کو چھپا ہوا دیکھا، وہ گرمی میں حبس میں آہستہ سے بولیں کہ مجھے پانی لا دو، میری امی چونکہ اس وقت بہت چھوٹی تھیں، وہ یہ صورتحال دیکھ کر گھبراہٹ میں نیچے کچن کی طرف گئیں مگر پانی لانا بھول گئیں کیونکہ اس وقت ان کے ابو کمرے سے باہر تمتماتے چہرے کے ساتھ پوچھ رہے تھے کہ کہاں ہے تمہاری ماں؟

کیا دفع ہو گئی کہیں؟ بمشکل جواب دیا کہ وہ اوپر ہیں، نانا ہاتھ میں ایک کاغذ لئے سیدھے اوپر چلے گئے، تھوڑی ہی دیر گزری کہ نیچے آئے اور واپس گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے، امی بتاتی ہیں کہ یہ چند لمحے ان کے اندر کبھی ختم نہ ہونے والا کرب، اذیت، خوف اور بے اعتمادی چھوڑ گئے اور انہوں نے ذہنی طور پر صدیوں کا سفر لمحوں میں اس وقت طے کر لیا جب انہیں ایک دم نانی کا خیال آیا کہ انہوں نے پانی مانگا تھا، وہ جلدی سے پانی لے کر اوپر پہنچیں تو نانی اپنے ہاتھ میں کاغذ تھامے کسی بت کی طرح مبہوت بیٹھی تھیں۔

جس خوف اور طوفان سے بچنے کے لئے وہ چھت پر آ کر چھپ گئی تھیں، وہ طوفان آ کر گزر چکا تھا، گرمی، حبس، دکھ اور پچھتاوے مل کر نانی کے وجود کا اس طرح حصہ بنے ہوئے تھے کہ ان کے چہرے پر آنسو تلاش کرنا بے حد دشوار تھا، امی کہتی ہیں کہ وہ لمحوں میں بچپن سے بڑھاپے میں چلی گئیں جب انہوں نے اپنی ماں کے منہ سے کاغذ والا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے  انہیں یہ کہتے سنا کہ تمہارے ابو نے مجھے طلاق دے دی ہے۔

وہ ان کو بمشکل نیچے لائیں اور گاؤں میں نانا کا گھر ساتھ ہی ہونے کی وجہ سے ان کو وہاں چھوڑ آئیں۔ واپسی پر ان کو ماں کے بغیر وہ گھر ایک کھنڈر لگا جس میں ان کے ابو صرف استری شدہ کپڑے اٹھانے اور مہینے کا سودا دینے آیا کرتے تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ بچوں کو صرف دال روٹی پہنچا دینے سے ان کے سب فرائض ادا ہو جاتے ہیں، یہ الگ بات کہ دوسری شادی کے بعد یہ زحمت بھی انہوں نے گوارا نہ کی۔ نفرت کا ایک ایسا احساس زندگی میں داخل ہوا جس کی تلخی کو زندگی بھر کم نہ کیا جا سکا“ ۔

میری دوست یہ کہانی اس انداز میں سنا رہی تھی کہ گویا اپنا کتھارسس کر رہی ہو، میں نے اس دوران کوئی سوال پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ بس پانی کے گلاس کی طرف بمشکل اشارہ کیا، اس نے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے ایک گھونٹ پانی پیا اور پھر سے گویا ہوئی:

” وہ رشتے جو زندگی میں سائبان کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر چھن جائیں تو باقی رشتے زندگی کے سائبان کو حتی المقدور چاروں طرف سے پکڑتے ہیں اور ہر رشتہ اسے اپنی جانب کھینچتا ہے اور اسی کھینچا تانی میں کبھی تو یہ سائبان بوسیدہ اور کبھی بالکل غائب ہو جاتا ہے، زندگی کی تمازت آپ کی روح کو جھلسا کر رکھ دیتی ہے۔ شاید اسی لیے حقوق العباد کی معافی اللہ رب العزت اس وقت تک نہیں دیتا جس وقت تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی حق تلفی ہوئی ہو۔

معاشرے کا جبر دیکھو کہ خاندان کے کچھ لوگ درمیان میں پڑ کر یہ کہہ کر نانی کو چند ہی دن میں واپس گھر چھوڑ گئے کہ اگر فوراً واپسی ہو جائے تو طلاق نہیں ہوتی، تقدیر اور معاشرے کا جبر دیکھیے کہ نانی اس گھر میں واپس آ گئیں جہاں ان کا شوہر واپس نہ آیا، وہ اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں یہاں تک کہ بچے نانی کے میکے اور سسرال والوں کی مالی معاونت سے پڑھ لکھ کر بڑے ہو گئے۔

تیس پینتیس سال گزر جانے کے بعد نانا جب کوئی کام کاج کرنے کے قابل نہ رہے تو شدید علالت کی وجہ سے ایک بار پھر خاندان والوں کی وساطت سے واپس گھر پہنچا دیے گئے ، جہاں وہی عورت خود بلڈ پریشر اور شوگر کی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود کھانا بنا کر کمرے میں رکھ جاتی ہے جس کو انہوں نے برسوں پہلے دوسری شادی کے لئے طلاق دے دی تھی اور کبھی اس کو مڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا کہ زندہ بھی ہے یا مر گئی“ ۔

میری دوست کہنے لگی کہ اسے اپنے نانا کے فعل سے نفرت ہے، اس کا ان کے گھر جانے کو بھی بالکل دل نہیں چاہتا اور وہ پوچھنا چاہتی ہے کہ کہاں ہیں وہ اسلام کے ٹھیکیدار جو کبھی عورت مارچ اور کبھی ملازمت کرنے والی خواتین پر تنقید کرتے رہتے ہیں، وہ کیوں ان مردوں پر تنقید نہیں کرتے جو بلاوجہ عورت کو طلاق دیتے ہیں، دوسری شادی کر کے پچھلے بچوں کو بھول جاتے ہیں، دوسری بیوی چھوڑ کر چلی جائے تو بیماری اور بے بسی کی وجہ سے اسی عورت کے رحم و کرم پر گھر کے کسی کونے میں رہتے ہیں مگر ان پر کوئی مفتی یا خاندان کا کوئی بڑا فتویٰ نہیں لگاتا۔

میری دوست کی آنکھوں سے آنسو اور زبان سے الفاظ جاری تھے، وہ آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگی کہ اس کی امی اکثر یہ کہانی چھیڑتی ہیں اور جب جب اس پر بات کرتی ہیں تو ان کے چہرے پر دکھ کی پرچھائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعہ ابھی ابھی ہوا ہے، حالانکہ اس کی امی کی عمر اس وقت پینتالیس سال ہے۔ تمہیں یاد تو رہ جائے گا ناں جویریہ کہ کیا لکھنا ہے! تم لکھو گی ناں میری امی کا دکھ، میری نانی کا دکھ کیونکہ وہ عورت مارچ میں نہیں جاتیں بلکہ وہ تو کہیں بھی نہیں جاتیں کیونکہ ان کو کچھ اچھا ہی نہیں لگتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments