لائی حیات آئے، وبا لے چلی، چلے


عہدرواں میں دنیا بازیچۂ آفات ثابت ہوئی ہے جہاں ڈینگی مخلوق کے پیچھے تو کورونا آگے ہے۔ گلوبل ویلج میں وباؤں کا گلوبل ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ سبھی ہی خالق و مخلوق سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ پچھلے برس کورونا کی پہلی لہر میں امیر، غریب، ابتر و حسیں سب لاک نشیں رہے۔ کچھ طبقات ابتلاء وبا سے بے مراد ٹھہرے تو چند بامراد بھی ہوئے۔ مزدور اور کاروباری حضرات فاقوں میں گھرے جبکہ طبی عملہ اور پولیس جان ہتھیلی پہ رکھے مصروف کار رہے۔

سرکاری دفاتر کی بندش سے کلرکوں اور کچھ افسران کو محض اپنی ہی تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑا توکچھ اپنی جیب اور اپنے گھر سے کھانے پہ مجبور ہوئے۔ بیوٹی پارلرز کے متعلقین و منحصرین کے اپنے ہی دکھڑے تھے۔ کچھ کا کام رکا تو کچھ کی وضع قطع متاثر ہوئی تاہم ماسک پہننے سے کسی حد تک رخ نازیبا کی لاج باقی رہی۔ ٹرانسپورٹرز بھی بمشکل زندگی کی گاڑی دھکیلتے رہے جبکہ خواجہ سرا اور شوبز سٹارز سخت مایوس ہوئے۔ شاپنگ کی رسیا خواتین کے لئے رنج، الم، خسارے اور کڑی آزمائش کا دور تھا۔

عشاق کو تو عقل اور وٹامن ”شی“ کی شدید کمی کے امراض لاحق ہو گئے۔ محافل و مجالس کے عدم انعقاد کے باعث علماء حق اور علماء سو کی شعلہ نوائیاں معدوم ہوئیں جبکہ ان کے ہمراہ مدحت سراؤں اور دیگر گائیکوں کو بھی اپنی روزی روٹی چاند میں دکھنے لگی۔ کریانہ و میڈیکل مالکان کے ہاں تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ پڑا جو بجز کورونا ممکن نہ تھا۔ ماسک سازی، سینی ٹائزر اور ڈیٹول کمپنیوں کے سر پر تو جیسے ہما آ بیٹھا۔

سب سے سعید و خوش نصیب مخلوق طلبا و اساتذہ تھے۔پانچوں تو کیا ان کی بیسوں ہی گھی میں رہیں اور آج کورونا کی تیسری لہر میں بھی ”شفقت“ کی بے جا شفقت کی مراد لیے منتظر ہیں۔ یہی وہ مثالی گروہ ہے جس نے لاک ڈاؤن کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے تاقیامت حکومت سے تعاون کا یقین دلایا۔ دوسری جانب سرکار بے سروکار کورونا سے اموات کے ناکافی اعداد و شمار پر مطمئن نہیں کیونکہ ان حالات میں امدادی اور قرضہ جاتی معاملات کا پنپنا مشکل ہے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن دراصل سمارٹ مذاق ڈاؤن ہے جس سے محض لوگ ڈاؤن ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

پاکستانی عوام سے ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے کہ حفظان صحت کا خیال نہیں رکھتے اور گھر، گلی محلے کی صفائی کی بابت ہاتھ خاصا تنگ رہتا ہے۔ تاہم پہلی بار یہ کوتاہیاں اور کوڑا کلچر رنگ لایا ہے اور ہماری غیرمعمولی قوت مدافعت سے کورونا چکرایا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ خوشیوں، غموں اور آفات کو جھیلنا پارٹ آف لائف ہے جبکہ ہر حال میں خوش رہنے کی کوشش، آرٹ آف لائف ہے۔ وقت تو ہوتا ہی گزرنے کے لئے ہے اسے ہنس کے گزار دیں یا رو کر۔ مانا کہ اس وقت دنیا کو شدید رنج و خوف سے سابقہ ہے مگر یہاں مایوسی اور خوف کی بجائے حوصلے اور احتیاط کی ضرورت ہے۔

بھلے فریب سہی، خود اور دوسروں کو مایوسیوں سے نکال کر خوش رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اب ہم اپنے زمانے اور اپنے حصے کی آزمائش بھگت رہے ہیں۔ ان حالات میں محض غموں کی تجارت کی بجائے تھوڑی سی تبسم فروشی بھی درکار ہے۔ درجن بھر نور ہائے نظر کے حامل خاندانوں کو اپنے ہی گھر میں رہنا محال ہوا ہے۔ گھر میں محصور شوہر اور شاعر کا دماغ یا تو چل جاتا ہے یا پھر چل پڑتا ہے۔ سیانے شوہر بار بار ہاتھ دھونے سے کترا رہے ہیں کہ کہیں دوسری شادی کی لکیر ہی نہ مٹ جائے۔

دوسری طرف کچھ سیانی بیویاں ہاتھ دھوتے شوہروں کے ہاتھوں میں برتن تھماتی بھی دیکھی جا رہی ہیں۔ اندر کے بت عین سلامت مگر باہر اذانوں کا شور معنی خیز ہے۔ گویا ہم دافع البلیات اعمال کے کم اور داعی البلیات سرگرمیوں کے زیادہ خوگر ہیں۔ چودہویں صدی کے طاعون کے سدباب کے لئے مصر اور شام میں کی گئی اجتماعی دعاؤں کے بعد مرض دگنا ہو گیا۔ پیروں اور عاملوں کے منتر بھی ہوا ہوئے۔ اب قریب کے پھونکوں کی بجائے صرف فلائنگ دموں اور پھونکوں کی کچھ گنجائش باقی ہے۔

اور ہم بھی اس بحث میں الجھے ہیں کہ ملک میں وارد پہلا کورونا حاجی تھا، زائر تھا یا کرکٹر۔ ان سے تو شاعر بھلے کہ ہر وقت موت کی خواہش رکھنے کے باوجود غالب نے وبائے عام میں مرنا اپنی شان کے خلاف سمجھا اور وبائی علاقے سے بھاگ نکلے۔ ایک خیال ہے وکلاء کے سوا سب طبقات متاثر ہیں۔ ٹیچرز بھی کام، کاج اور اناج والے محاورے پہ کار بند ہیں البتہ پولیس اور ڈاکٹرز خوب تحسین سمیٹ رہے ہیں۔ ان دنوں دانش و تحقیق بھی معراج پر ہے۔

اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہے۔ آفات بھی انسان کو بزور شمشیر سدھارنے کا موجب ہیں اور ڈیڑھ اینٹ والی انسانیت کچھ کچھ ”نسل آدم“ لگنے لگی ہے۔ فضول خرچیاں اور غیر ضروری سرگرمیاں معطل ہیں۔ لبرلز کے تمام کاموں میں صرف ”اللہ“ کی مرضی چل رہی ہے۔ اکھیوں کو اکھیوں کے آس پاس رکھنے کی خواہشات دم توڑ رہی ہیں بلکہ محبت کی کسوٹی میں بھی چھ فٹ کی دوری طے ہو چکی ہے۔ اس وبائی اعتکاف میں ہاتھ دھو کر گھر بیٹھنے کے سبب صفائی اور سماجی فاصلے کی باتیں کھوپڑی میں سمانے لگی ہیں۔

بن بلائے مہمانوں، افسوسی حضرات اور مبارکبادی طبقات سے نجات کاملہ کے ایام ہیں۔ یہ واحد بیماری ہے جس کے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کا کوئی نہیں سوچتا۔ یہ عجیب عارضہ ہے کہ جس کا مداوا تنہائی ہے اور شہروں کا اجڑنا بقاء ہے۔ اب تو لوگ ایک چہرے پہ کئی چہرے سجائے پھرتے ہیں۔ اس سے قبل ڈینگی بھی عریانی و فحاشی کے سیلاب کے آگے بند باندھ چکا ہے۔ پھر لوگوں کے لائف سٹائل اور تہوار پسندی کے باعث زندگی ناقابل بسر ہے لہٰذا یہ وبا قدرت کی جانب سے تجدید عہد الست کی کال ہے۔

میل جول، بیمارپرسی، شادی و مرگ، اجتماعات، بازار، خانقاہیں، تعلیمی ادارے اور پبلک مقامات شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ میلے ٹھیلے، شوبز کی بے لباس شوٹنگز، ہنی مون، ٹرپس اور عشقیہ و معشوقیہ سرگرمیاں تو منہ کے بل جا گری ہیں۔ حتیٰ کہ شرعی ازدواجیت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنی نوع انسان ازل سے ہی ایسی آفات کا شکار رہا ہے۔ طاعون کے زمانے میں لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بنے۔ لوگ اپنے گھر والوں کے علاج اور تدفین سے بھاگتے تھے اورسینکڑوں کو گڑھے کھود کر اکٹھے دفن کرتے تھے۔

اب نیک و بد، موحد و ملحد، مسٹر و مولوی، پنڈت و پیر کا سوال باقی نہیں رہا۔ جب روم، مسجد اقصیٰ، مسجد حرام، آستانے، مسجد، مندر اور سب دیر و حرم مقفل ہیں اور ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ حتیٰ کہ کورونا کے مریضوں کو کہیں کہیں غیر انسانی اقدامات سے تلف بھی کیا جا رہا ہے۔ گویا میر درد کی ایسے جینے کے ہاتھوں مر نے کی بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر عمران ظفر کی یہ پیروڈی نہایت بر محل ہے

لائی حیات آئے وبا لے چلی، چلے۔

اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments