جہانگیر ترین کے پاس سیاسی غلطی کی گنجائش نہیں!


اس وقت سیاسی منظرنامے میں جہانگیر ترین گہرے نقوش کے ساتھ موجود ہیں۔جہانگیر ترین اپوزیشن جماعتوں خصوصی طورپر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے اُمید کی کرن اور پاکستان تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکے ہیں۔تیس کے قریب صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان ،جو جہانگیر ترین کی طاقت ہونے کا احساس دلارہے ہیں ،ایک لحاظ سے عمران خان کے طرزِ حکومت و طرزِ سیاست میں بے پناہ خامیوں اور کمزوریوں کا اظہاریہ بھی ہے۔

وزیرِ اعظم بننے کے بعد عمران خان صاحب کا قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں پوری طرح شرکت اوراپنے اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں نہ کرنا،اِن کے اور اراکین اسمبلی کے مابین فاصلے کا سبب بنا،نیز وزیر اعظم کا اپناانتخابی حلقہ نہ رکھنے والوں کو زیادہ قریب کرنا اور قومی فیصلوں میںانتخابی حلقہ رکھنے والوں کی ضرورت ہی محسوس نہ کرنا ،مذکورہ فاصلے کو بڑھاوادینے کا سبب بنا۔عثمان بزدار کو وزیرِ اعلیٰ بنانیکے فیصلے کا بڑا سیاسی فائدہ کیا ہے؟ کیا انکی شخصیت اتنی اہم تھی کہ اُن کو ر سیاسی و معاشی طور پر اہم صوبے کا وزیرِ اعلیٰ بنانا پڑا؟

جیسے جیسے وقت گزرتا چلا جا رہا ہے،پی ٹی آئی کے اندر سے ناراض اراکین صوبائی وقومی اسمبلی کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔جہانگیر ترین جن کی قومی سطح پر سیاسی خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں،آج اپنی ’’پارٹی‘‘کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔جہانگیر ترین نے دوہزار اَٹھارہ میں حکومت سازی میں الیکٹ ایبلز پر انحصار کی بدولت اہم کردار ادا کیا،اس بنیاد پر اِن کی خدمات کو سراہا جا سکتا ہے؟ملکی انتخابات میں فتح کے تناظر میں الیکٹ ایبلز کی اہمیت کا تصورنیا ہرگز نہیں کہ اس پر جہانگیر ترین کو کریڈٹ دیا جائے ،تاہم جوڑ توڑ کی سیاست کو ’’خوبی‘‘سمجھ لیا جائے تو پی ٹی آئی میںجہانگیر ترین کے پاس یہ ’’خوبی‘‘ دوسروں سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

یہ اس کا ثبوت گذشتہ الیکشن میں دے بھی چکے ہیں اور آج بھی یہ سیاست کے میدان میں روایتی طریقہ کارکو بروئے کارلا کر اپنی موجودگی برقراررکھے ہوئے ہیں ۔اگر عمران خان وزیرِ اعظم بننے کے بعد اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو اہمیت دیتے جو اپنا انتخابی حلقہ رکھتے ہیں اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا انتخاب موزوں انداز میں کیا جاتا ،اراکین اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا جاتا ، پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں متواتر شرکت کی جاتی تو کیاآج جہانگیر ترین کے پاس تیس اراکین اسمبلی ہوتے؟اِن تیس لوگوں کو جہانگیر ترین سے کیا مفاد ہوسکتا ہے؟محض یہی کہ یہ سب اپنے ’’ہونے ‘‘کا احساس دلاسکیں۔

جہانگیر ترین کو دسمبر دوہزار سترہ میں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی رُکنیت کے لیے تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔اُس وقت اِن کے پاس تحریکِ انصاف کے جنرل سیکرٹری کاعہدہ تھا،جن سے یہ مستعفی ہوگئے تھے۔واضح رہے کہ جولائی دوہزار اَٹھارہ میں عام انتخابات تھے،عام انتخابات سے محض چند ماہ قبل جب یہ نااہل قرارپائے تو ایک بیان دیاکہ ’’مَیں عمران خان کو وزیرِ اعظم بنوانے کی جدوجہد کرتارہاہوں گا‘‘یہ اپنے بیان پر قائم رہے اورعمران خان کو وزیرِ اعظم بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں کو پی ٹی آئی میں لانے کا سہرا اِن کے سر جاتا ہے۔ انتخابات سے قبل اُمیدواروں کے چنائو میں الیکٹ ایبلزپر انحصار کرنا،اِن کی بدولت ممکن ہوا۔جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ عمران خان وزیرِ اعظم بن گئے۔عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد یہ اہم حکومتی اجلاسوں میں شریک ہوکر فیصلہ سازی میں بنیادی کردار اداکرتے رہے۔

اس عرصہ میں جہانگیر ترین سے دوبڑی سیاسی غلطیاں ہوئیں ،پہلی غلطی یہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اِن کو حکومت سازی میں اپنے کردار کو محدود پیمانے پر اداکرنا چاہیے تھا،اگر عمران خان وزیرِ اعظم نہ بن پاتے،یا وزیرِ اعظم بننے میں شدیدنو ع کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تو اُس وقت جہانگیر ترین کے نااہل ہوجانے کا عمران خان اور پی ٹی آئی کو احساس ہوتا۔یوں اِن کے نااہل ہوجانے کی پی ٹی آئی کو بھاری قیمت چُکانا پڑتی۔وزیرِ اعظم بننے کے بعد آہستہ بہ آہستہ عمران خان کو بعض قریبی لوگوں کی طرف سے احساس دلایا گیا کہ یہ وزیرِ اعظم محض اپنی مقبولیت کی بنیاد پر بنے ہیں۔

جیسے جیسے یہ احساس تقویت پکڑتا گیا ،جہانگیر ترین اور عمران خان کے مابین فاصلہ بڑھتا چلا گیا۔جہانگیر ترین سے دوسری غلطی حکومت بن جانے کے بعد حکومتی اجلاسوں میں شرکت کرنا ٹھہرتی ہے۔جہانگیر ترین اوردیگر پی ٹی آئی رہنمائوں کی لڑائیوں نے یہیں سے جنم لیا،جن کا اظہار ایک بار فواد چودھری نے اپنے انٹرویو میں بھی کیاتھا۔حکومت بننے کے بعد جہانگیر ترین خود کو ’’اہم‘‘سمجھ کر غلطی کر بیٹھے،جس کا خمیازہ اس وقت بھگت رہے ہیں۔جہانگیر ترین سے مخالفت رکھنے والوں نے بڑی مہارت کا ثبوت دے کر اِن کو اُن افراد کی لسٹ میں ڈال دیا ،عمران خان جن کا احتساب ضروری سمجھتے ہیں .

عمران خان کے نزدیک یہ لوگ’’ قومی مجرم‘‘ ہیں اوریہ مجرموں کو نہیں چھوڑیں گے۔جہانگیر ترین کو اس پہلو کا احساس ہوچکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے عمران خان تک پیغام پہنچاتے پائے جاتے ہیں کہ آپ کو غلط معلومات پہنچائی گئیں،مَیں پی ٹی آئی کا حصہ ہوں ،پی ٹی آئی چھوڑ کر کہاں جائوں گا۔مگر سچ تو یہ ہے کہ جہانگیر ترین کو معلوم پڑچکا ہے کہ واپسی اب ممکن نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments