ہر سوچنے والا مشال خان ہے


سوچنا، غورو فکر کرنا اور کائناتی رازوں کو ڈی کوڈ کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی کیونکہ اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اس حقیقت کی تاریخ شاہد ہے کہ سوچنے والے اذہان کو کس قدر دربدر کیا گیا اور ان کی سوچ پر پہرے بٹھائے گئے اور بہت ساروں کو تو سوچنے کی قیمت اپنے خون سے بھی چکانا پڑی۔ یہ الم ناک سلسلہ آج بھی جاری ہے، آج بھی سوچنے والوں مختلف کفریہ القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اس جنونیت کا نہ جانے کتنے قیمتی ہیرے شکار ہو چکے ہیں۔

13 اپریل 2017ء میں بھی ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تھا، اس بار اس ظالمانہ روش کا شکار عبدالولی خان یونیورسٹی کا ایک عظیم سپوت ہوا تھا۔ یونیورسٹی کے ایک جنونی جتھے نے محض جھوٹے الزامات کی بنیاد پر مشعال کو گستاخ مذہب قرار دے کر انتہائی سفاکی اور بے دردی کے ساتھ اینٹیں مار مار کر اس کے پورے وجود کو ہی چھلنی کر ڈالا اور یہ ظالمانہ اقدام کر کے انہوں نے اپنا نام وارثان جنت کی فہرست میں جلی حروف میں درج کروا لیا تھا۔

اساتذہ، والدین اور قریبی دوستوں کے مطابق مشال ایک مؤدب اور آؤٹ آف دی باکس جا کر سوچنے والا انسان تھا اور اپنی سوچ کا اظہار انتہائی شائستہ اور پڑھے لکھے انداز میں کرتا تھا۔ بعض دفعہ وہ اپنی سوچ کا اظہار اپنی فیس بک کی وال پر بھی کر دیا کرتا تھا، وہ سیکھنے اور جاننے کا اتنا متلاشی تھا کہ سکالر شپ کی بنیاد پر روس کی ایک یونیورسٹی میں انجینئرنگ پڑھنے بھی گیا مگر گھریلو مالی حالات کی وجہ سے تعلیم مکمل کیے بغیر ہی وطن واپس لوٹنا پڑا۔

اس کے بعد مشال نے ماس میڈیا اور صحافت میں ماسٹرز کرنے کا فیصلہ کیا، یہ تعلیمی سفر ابھی جاری تھا کہ ایک دن چند جنونیوں نے ظلم و بربریت کی ایک الم ناک داستان رقم کر دی اس روشن خیال انسان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا اور ایسا خوف کا سما ں پیدا کر دیا تھا کہ چند لوگ ہی اس عظیم انسان کے سفر آخرت میں شریک ہو سکے تھے مگر یہ قربانی رائیگاں کیسے جا سکتی تھی؟

اس کے جانے کے بعد شعور و آگہی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، اس کی الم ناک موت پر دانشوروں نے سوال اٹھائے، طالب علموں نے سوال اٹھائے، ہر سوچنے والے ذی شعور نے سوال اٹھائے حتیٰ کہ کھوج لگانے والی سرکاری کمیٹی جو اس الم ناک واقعے کی تفتیش کر رہی تھی انہوں نے مشال کو معصوم قرار دے کر تمام الزامات سے بری کر کے انسانی تاریخ کے آگے سرخرو کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مشال کا قصور کیا تھا؟

اس کے جسم کو بے رحمانہ طریقے سے کیوں کچلا گیا؟ اس کی زندگی کا فیصلہ چند بے رحم جنونیوں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا گیا؟ میری نظر میں اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ سوچنے لگ پڑا تھا اور اپنی سوچ کا وائرس دوسرے سوچنے والے اذہان میں بھی منتقل کر رہا تھا اور یہ بات تو طے ہے کہ سوچنے کی بیماری جس کسی بھی سماج میں سرایت کر جائے تو پھر ”اسٹیٹس کو“ کا جمود ٹوٹنے لگتا ہے اور لوگوں میں شعور پنپنے لگتا ہے اور یہی شعور لوگوں کو سوال اٹھانے پر مجبور کرنے لگتا ہے۔

مشال خان اسی شعور کا نقارچی تھا مگر اس کی انالحق کی صدا کو گستاخی سمجھا گیا اور جس یونیورسٹی میں وہ شعور کی منزل حاصل کرنے آیا تھا ، اسی یونیورسٹی کے کھوکھلے جنونیوں نے اس کی شعوری آواز کو خاموش کر دیا مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ہر سوچنے والا مشال خان ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments