میری تخلیقات انسانیت کے نام میرے محبت نامے ہیں


جاوید دانش کا اپنے فیس بک لاؤ پروگرام۔ آوارگی۔ کے لیے
خالد سہیل سے انٹرویو
ڈاکٹر خالد سہیل
دانش : ڈاکٹر صاحب! کرونا وبا نے آپ کی زندگی کو کیسے متاثر کیا؟

سہیل: کرونا وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے تنہائی کے ساتھ وقت گزارنے کا زیادہ موقع ملا۔ میں نے کرونا وبا اور تنہائی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ایک لکھاری ہونے کے ناتے بھی اور ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے بھی

ایک لکھاری ہونے کے ناتے میں نے اپنی تمام ایسی تخلیقات جمع کر کے چھپوا دیں جو پہلے نہیں چھپی تھیں۔
شاعری کا مجموعہ۔ خواب در خواب
افسانوں کا انتخاب۔ دیوتا
کالموں کا مجموعہ۔ آدرش
اور
عالمی ادب کے تراجم کا مجموعہ۔ نگر نگر کی کہانیاں

ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے فون پر اور ٹیلی میڈیسن سے تھراپی کا نظام بنایا اور نفسیاتی مریضوں کی ورچول تھراپی کی کیونکہ کرونا وبا کی وجہ سے نئے انفرادی ’ازدواجی اور خاندنی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

دانش : آپ ہمارے ناظرین کو اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں؟

سہیل:میرے والدین نے 1947 میں امرتسر سے لاہور ہجرت کی۔ میرے والد اور شاعر چچا عارف عبدالمتین چشتیہ ہائی سکول لاہور میں پڑھاتے تھے۔ میرے والد نے ریاضی میں ماسٹرز کیا تو گورنمنٹ کالج میں لیکچرر بن کر 1954 میں کوہاٹ چلے گئے۔ چنانچہ میرا بچپن کوہاٹ اور پشاور میں گزرا۔ میں ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی نانی اماں سے ملنے تین ماہ کے لیے لاہور آ جاتا تھا۔

میرے ننھیال روایتی اور مذہبی اور ددھیال غیر روایتی اور غیر مذہبی تھے۔

میری عمر دس برس تھی جب میرے والد کا نروس بریک ڈاؤں ہوا۔ وہ ایک سال بہت بیمار رہے۔ صحتیاب ہوئے تو بہت مذہبی ہو گئے۔ داڑھی رکھ لی اور سادہ زندگی گزارنے لگے۔ لوگ انہیں صوفی صاحب کہتے تھے۔ لوگ سمجھتے تھے ان کا NERVOUS BREAKDOWNہوا تھا وہ سمجھتے تھے ان کا SPIRITUL BREAKTHROUGHہوا ہے۔ ان واقعات نے شاید لاشعوری طور پر مجھے ایک ماہر نفسیات بننے کی تحریک دی ہوگی۔

دانش: آپ کا ہجرت کے بارے میں کیا خیال ہے؟

سہیل: میں سمجھتا ہوں جب ایک مہاجر دو زبانوں ’دو مذاہب اور دو کلچر میں زندگی گزارتا ہے تو اس کے اندر کی تیسری آنکھ کھل جاتی ہے جو نئی بصارتیں اور بصیرتیں عطا کرتی ہے اور وہ زندگی کو ایک نئے نقطہ نطر سے دیکھتا ہے۔ اگر وہ مہاجر ایک شاعر ادیب اور دانشور بھی ہے تو نیا ادب تخلیق کرتا ہے اور عالمی ادب میں گرانقدر اضافے کرتا ہے۔ بیسویں صدی کے عالمی ادب میں مہاجر ادیبوں نے بہت عمدہ اضافے کیے ہیں۔

دانش: آپ کی کیا خواہش ہوگی کہ آپ کس طرح جانے جانیں شاعر کے طور پر افسانہ نگار کے طور پر یا فلاسفر کے طور پر؟

سہیل: میری غزلیں ’میری نظمیں‘ میرے افسانے اور میرے مقالے سب ایک انسان دوست کے دکھی انسانیت کے نام محبت نامے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ایک انسان دوست ادیب کے طور پر جانا جاؤں۔

دانش: آپ نے انسان دوستی کے فلسفے کا کیوں انتخاب کیا؟

سہیل: میں امن پسند انسان ہوں۔ میرا موقف ہے کہ کرہ ارض پر پر امن معاشرے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم رنگ ’نسل‘ مذہب اور زبان سے بالا تر ہو کر انسان ہونے کی شناخت پیدا کریں۔ ہم جانیں کہ ہم ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔ ہمارے دشمن بھی ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں کیونکہ ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں۔ یہی انسان دوستی ہے اور یہی میرا فلسفہ حیات ہے۔

دانش: آپ کا روحانیت کے بارے میں کیا نقطہ نطر ہے؟
سہیل: انسان کی دو طرح کی ضروریات ہیں۔

جسمانی ضروریات اور روحانی ضروریات۔ PSYCHEلفظ کا ماضی میں ترجمہ روح کیا جاتا تھا اب اسے ذہن کہتے ہیں۔ روحانی تجربات ہر انسان کو ہو سکتے ہیں ایک دہریے کو بھی کیونکہ ان کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں اسی لیے میں کہتا ہوں

SPIRITUALITY IS PART OF HUMANITY NOT DIVINITY
دانش: ہمارے دوستوں کو اپنی ’اسرائیل‘ والی غزل عنایت فرمائیں

سہیل: 1980 کی دہائی میں جب مجھے کنیڈین پاسپورٹ ملا تو میں نے اسرائیل اور جنوبی افریقہ جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اندو ممالک میں میں پاکستانی پاسپورٹ پر نہیں جا سکتا تھا۔ اسرائیل سے واپسی پر یہ اشعار لکھے

؎ نفرت بھی عجب اور محبت بھی عجب تھی
اس شہر میں خالد یہ روایت بھی عجب تھی
دیواریں تھیں ہمراز مگر دل میں خلیجیں
ہمسایوں کی آپس میں رقابت بھی عجب تھی
اک باپ کی اولاد مگر خون کے پیاسے
دشمن تھے مگر ان میں شباہت بھی عجب تھی
خاموشی کا ہر لمحہ وہاں چیخ رہا تھا
آوازوں کی بستی میں بغاوت بھی عجب تھی
معصوم جبینوں پہ ملے خون کے چھینٹے
اور اس پہ ستم خون کی رنگت بھی عجب تھی
جو شخص ملا کانچ کا پیکر لگا مجھ کو
اور کانچ کی پتھر سے رفاقت بھی عجب تھی
ہر نسل نئی نسل کو دیتی رہی ہتھیار
اس شہر میں خالد یہ وراثت بھی عجب تھی
دانش : کوئی چھوٹی سی نظم بھی عنایت ہو
سہیل: میری ایک چھوٹی سی نظم۔ جنگلی پھول۔ حاضر ہے
کسی کے کوٹ کے کالر میں
بالوں میں
نہ گلدانوں میں سجتا ہوں
کسی کے باغ میں
دفتر کی میزوں پر
نہ تہواروں میں کھلتا ہوں
نہ میری مسکراہٹ ہی سر بازار بکتی ہے
نہ میری کاغذی پھولوں سے ہر دم کی رقابت ہے
مری ہر مسکراہٹ میری آزادی کا مظہر ہے
مرا ماحول فطرت کے تبسم سے معطر ہے
میں انساں کی منافق زندگی سے دور رہتا ہوں
میں جنگل میں مہکتا ہوں
میں جنگل میں ہوں مرجھاتا
میں جنگل کا ہوں شہزادہ
دانش: کیا ادب تخلیق کرنے کے لیے عشق ضروری ہے؟

سہیل: میری طالب علمانہ رائے میں عشق کے بغیر اعلیٰ ادب تخلیق نہیں ہو سکتا۔ چاہے عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی اور یا زندگی سے عشق ہے۔ کیونکہ اس عشق کی وجہ سے انسان دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے درویش بن جاتا ہے اور ادب عالیہ تخلیق کرتا ہے

غالب فرماتے ہیں
؎ شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بئی عریاں نکلا
لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے مرد فنکاروں کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
دولت کی قربانی۔ شہرت کی قربانی۔ عورت کی قربانی

جو مرد شاعر ادیب اور دانشور دولت شہرت اور عورت میں الجھ جاتے ہیں وہ اپنے سارے ادبی اور تخلیقی خواب شرمندہ تعبیر نہیں کر پاتے۔ میں کہا کرتا ہوں

THERE ARE TWO SECRETS OF A SUCCESSFUL LIFE.
..PASSION AND COMPASSION
ادب عالیہ انسانی ارتقا میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
دانش: آپ نے کئی سال اردو میں نہیں لکھا اس کی کیا وجہ ہے؟

سہیل: میری دو محبوبائیں ہیں۔ اردو اور انگریزی۔ دونوں میں سخت رقابت رہتی ہے۔ کچھ وقت پہلی محبوبہ اردو کی زلف کا اسیر رہا ’پھر دوسری محوبہ انگریزی کے عشوہ و غمزہ و انداز و ادا کے سحر میں گھرا رہا۔ پہلی محبوبہ نے شکایت کی تو لوٹ آیا اب پچھلے چار سالوں میں۔ ہم سب انٹرنیٹ میگزین۔ کے لیے تین سو سے زیادہ کالم لکھے۔ دونوں محبوباؤں کو خوش رکھنا آسان نہیں۔ کوشش کرتا رہتا ہوں۔

دانش: آپ کے محبوب شاعر اور ادیب کون سے ہیں؟
سہیل: کلاسیکی شاعروں میں مرزا غالب اور جدید شاعروں میں مصطفیٰ زیدی جنہوں نے فرمایا تھا
؎ کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
؎ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو پسند ہیں جنہوں نے فرمایا تھا۔ ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ منٹو سے عورت کا احترام اور منافقت کو چیلنج کرنا سیکھا۔

دانش: مہاجر ادیبوں میں بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سہیل: مہاجر ادیبوں مین شاعر زیادہ ہیں نثر نگار کم

ہم کینیڈا کے شاعروں کو کسی بھی بین الاقوامی محفل اور مشاعرے میں بڑے فخر سے پیش کر سکتے ہیں۔ آپ نے بہت اعلیٰ ڈرامے لکھے اور پیش کیے۔

ہندوستان میں شبانہ خاتون نے میرے افسانوں پر ایم فل کا تھیسس لکھا تھا اب وہ کینیڈا کے افسانہ نگاروں پر پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھ رہی ہیں۔

دانش: زندگی کا کوئی پچھتاوا؟
سہیل: کوئی پچھتاوا نہیں۔ درویش کا فلسفہ ہے۔
مل جائے تو شکر نہ ملے تو صبر۔
فیض فرماتے ہیں
؎ فیض تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
دانش: مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟

سہیل: درویش کی کٹیا میں دو سو کتابیں ہیں۔ ان کے بارے میں۔ ہم سب۔ کے لیے کالم۔ لکھنا چاہتا ہوں اور گرین زون کے سیمینار کر رہا ہوں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ذہنی صحت کے بارے میں تعلیم دی جا سکے۔ ہم نے فیس بک پر GREEN ZONE COMMUNITY PAGEبنایا ہے۔ اس کے ہر ہفتے سو نئے ممبر بن رہے ہیں۔ بارہ ہفتوں میں بارہ سو ممبر بن گئے ہیں۔

آپ جانتے ہیں میں مذہبی انسان نہیں ہوں لیکن ادبی کام اور مریضوں کی خدمت عبادت سمجھ کر کرتا ہوں۔
دانش: انٹرویو دینے کا شکریہ۔
سہیل: آپ میرے تیس سال سے ادبی ہمسفر ہیں اور مجھے آپ کی دوستی پر فخر ہے۔
؎ آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے
جو بھی نبھ جائے بھلا لگتا ہے۔
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments