مذہبی تاویلات اور حقائق و شواہد



افراد افراد ہوتے ہیں، یہ بلا تخصیص قانون، تعلیم، اور اخلاقی روایات ہوتی ہیں جو اسے حد میں رکھتی ہیں۔ دنیا کے دس بڑے بحری قزاقوں میں خیرالدین باربروسا تیسرے نمبر پر تھا جس کو اس کی بحری علوم میں مہارت کی وجہ سے بعد میں ترک بادشاہ نے ملازمت میں لے لیا تھا۔ وہ الحمدللہ مسلمان تھا۔ دنیا میں غلاموں کی سب سے بڑی منڈی جو پچھلی صدی کے شروع تک کام کرتی رہی ”زنجبار“ مکمل طور پر مسلمان غلاموں کا کاروبار کرنے والے تاجر ہی چلایا کرتے تھے۔

آپ جان چھڑانے کے لیے اس تمام علم اور سائنس پر لعنت بھیجنے میں حق بجانب ہیں جس سے آپ متعارف نہیں، لیکن ان کی ایجاد کردہ مشینوں پر بنے اور سلے کپڑے پہنتے ہیں۔ جہاز پر سفر کرتے ہیں اور چھوٹے سفر کے لیے اونٹ یا گھوڑے کے سنت پر مبنی طریقے کے بجائے کفار کی کمپنیوں کی بنائی ہوئی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ قدیم طب یا طب اسلامی پر عمل کرتے ہوئے دل کے مرض کا علاج عجوہ کے پیسٹ سے کرنے کے بجائے بائی پاس اور ٹرانسپلانٹ کرواتے ہیں، خدا کو بالکل نہ ماننے والوں کے بنائے سیل فون بغیر کسی ضمیر کی خلش کے استعمال کرتے ہیں۔

لادینوں کی بنائی کلاشنکوف سے جہاد کرتے ہیں، اب ہم کو کیا کہا جائے گا۔ اور ہمارا نہ کوئی حصہ ہے اور نہ ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تب اس پر اور ان علوم کے عالموں پر ہماری لعنت ہی بنتی ہے۔ جنگ میں اہمیت بہادری یا حربوں کی نہیں ہوتی، بلکہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی یا ناکامی سے جنگ میں فتح یا شکست کا فیصلہ کیا جاتا ہے یعنی اہمیت ”اینڈ رزلٹ“ کی ہوتی ہے۔ یہی حربے جو جنگ میں استعمال کیے گئے۔ ولندیزی اور پھر انگریز کوئی فرشتے نہ تھے، بلکہ بہتر علم، بہتر ہتھیاروں اور بہتر تدبیرات سے آراستہ لٹیرے تھے، نواب سراج الدولہ کی اڑھائی لاکھ کی فوج کے مقابلے میں لارڈ کلائیو کے دو ہزار سے بھی کم سپاہی فتح حاصل کر لیتے ہیں۔

حربوں اور جنگی چالوں سے قطع نظر سلطنت میسور کا کیا حشر کیا گیا تھا۔ رنجیت سنگھ کی ترتیب دی ہوئی پورے برصغیر کی مقامی افواج میں اس وقت کی سب سے جدید، تربیت یافتہ، اور اچھے ہتھیاروں سے لیس ریاست پنجاب کی افواج جب اپنے ہوم گراؤنڈ پر ہی انگریزوں کے مقابل آئیں تو ان کو بدترین شکست ہوئی اور پھر یہ شکست ہی ریاست جموں و کشمیر کی ڈوگروں کو فروخت کا باعث بنی۔ ، شمالی امریکہ کی شاندار مایا تہذیب ایک سو تیس ولندیزی افراد نے دو لاکھ کے لشکر کو شکست دے کر اور خوفزدہ کر کے فتح کر لی۔

اور زیادہ زمانہ قدیم میں چلے جائیں تو تقریباً چار ہزار سال قبل مسیح سے آرینز کے دراوڑی ترقی یافتہ شہری تہذیب پر حملوں کا احوال پڑھ لیں۔ یہ لکھا گیا ہے کہ یہ تہذیب جو تقریباً پورے مغربی پاکستان میں پھیلی ہوئی تھی اس کے یہاں موئنجو دڑو اور ہڑپہ جیسے نوے بڑے شہر تھے ۔ غذا اور غلہ اس قدر وافر ہوتا کہ رکھنے کی جگہ نہ ہونے پر فاضل پیداوار کھیتوں میں ہی جلا دی جاتی تھی، دودھ اور پالتو جانور وافر تھے، بہترین کاروباری اور پرامن صنعتی نظام تھا، وہ بابل اور اٹلی یعنی روم تک کے ساتھ تجارت کیا کرتے تھے، لیکن یہ ایک جمود کا شکار پرامن اور پرسکون سوسائٹی تھی، اور یہی خصوصیات ان کی حملہ آور آرینز کے مقابلے میں مکمل شکست کا باعث بن گئیں۔

یہ نہ تو گھوڑے سے واقف تھے، اور نہ ہی لوہے سے، آرینز کے گھڑ سواروں کو یہ ایسی مخلوق سمجھتے جو اوپر سے انسان اور نیچے سے گھوڑا تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین متفقہ طور پر اس تہذیب کے پرسکون جمود کو ہی ان کی شکست کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں، یہاں بیل گاڑی کا پہیہ جیسا ہزار سال قبل بنتا ہزار سال کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی یا جدت نہیں آئی۔ جس طرح جب آپ سڑک پر گاڑی ڈرائیو کر رہے ہوتے ہیں، تو کوئی دوسری گاڑی رانگ سائیڈ سے آئے تو آپ کا اس پر کیا بس چل سکتا ہے، اور جب وہ گاڑی بھی آپ کی گاڑی سے بہت بڑی اور اونچی ہو تو یہاں آپ کا بس صرف اپنی گاڑی کے سٹیئرنگ، بریک اور گئیر پر ہی چل سکتا ہے، اپنی گاڑی اور اپنی جان کو بچانا ہم نے خود ہی ہے، یہاں کوئی اخلاقیات کہ کون درست طرف تھا اور کون رانگ تھا کام نہیں آتی۔

بات بنیادی طور پر نظام کی ہوتی ہے، ایسا خود کار فلاحی نظام قائم کرنا جو کام کرنے کے لیے شخصیات کا محتاج نہ ہو، ہی دانش کا مقصد ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ روحانی طور پر مذہب کوئی ٹول یا دوائی نہیں، ایک اخلاقی ضابطہ ہے لیکن ہمارے علماء اس کو ایک تیر بہدف دوا اور ہر مادی مشکل کے حل کے اوزار کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو کہ مکمل طور پر غلط بات ہے۔ یہاں روحانیت بھی کوئی الہامی حل پیش کرنے کے بجائے علم اور سائنس کا انتظار کر رہی ہے، کہ جیسے علم اور سائنس نے پلیگ، طاعون، کوڑھ، ٹی بی، ملیریا، وبائی انفلوانزا، کتے اور سانپ کے کاٹے جیسی کروڑوں افراد کی جان لینے والی بیماریوں کے علاج آخر کار دریافت کر کے نوع انسانی کو ان مہلک وباؤں اور بیماریوں سے محفوظ بنا دیا، اسی طرح ان شاء اللہ یہ اس وائرس کا علاج بھی جلد یا بدیر دریافت کر ہی لیں گے لہٰذا مذہبی طبقات کی طرف سے ان کر طعنے دینا کسی طرح سے ایک مناسب، مہذب طریقہ نہیں بلکہ وہ اس طرح اپنی کمتر اخلاقی حیثیت کو ایکسپوز کر رہے ہیں۔

قرآن اور دیگر الہامی کتابوں کا دنیاوی علوم سے موازنہ کرنے سے زیادہ جاہلانہ بات کوئی دوسری ہو ہی نہیں سکتی، قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی تصنیف ہے ، اس پر عقیدہ اور یقین رکھنا ہے، جو اسلام کے لیے ضروری ہے۔ اس پر سوال اٹھانا ممنوع ہے، اس پر بس غیر مشروط ایمان لانا ہوتا ہے، جبکہ سائنس انسانی تجربات، مشاہدات اور ان سے اخذ شدہ علم پر مشتمل ہے، چھوٹی سی مثال دوں گا کہ آپ نے ایک میز بنوانی ہو تو آپ بلا تخصیص مذہب لکڑی کا ایک اچھا کاریگر ڈھونڈیں گے، یا کہ ایسا مسلمان جس کی مہارت کم ہو؟

لہٰذا دنیا کے مادی مسائل کے حل کے لیے ہمیں اپنے اور نسل انسانی کے مشترکہ تجربات، مشاہدات پر ہی مبنی علم کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ زمین سے غلہ اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے لیکن کیا اس گندم کو ہم اسی صورت میں کھا سکتے ہیں اس کو کاٹنا، اور صاف کرنا ہوتا ہے، لاد کر لانا ہوتا ہے ، پھر اس کو پیس کر آٹا بنانا پڑتا ہے ، پھر اس کو گوندھنا پڑتا ہے،  پھر آگ پر اس کو پکانا پڑتا ہے تب جا کر ہم اس خدائی تحفے کو کھانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

سائنس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہر مثبت تنقید کا ہمیشہ خیر مقدم کرتی ہے اور اگر اس کی کوئی غلطی، ثابت کر دی جائے تو کبھی کفر کا یا مرتد ہونے کا فتویٰ نہیں لگاتی بلکہ اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اس سے آگے کا سفر شروع کرتی ہے اور یہی رویہ سائنس کی روز افزوں ترقی کی بنیادی وجہ ہے۔ جبکہ مذہب پر اور قرآن پر کوئی سوال اٹھانا منع ہوتا ہے اس پر یقین اور ایمان لانا پڑتا ہے لیکن جب آپ سائنس کے ڈومین میں قرآن کا حوالہ دیں گے تو وہ علوم کیونکہ بلا تخصیص مذہب تمام بنی نوع انسانی کا ورثہ ہیں تو وہاں پھر آپ کو عملی ثبوت اور تجربہ کر کے بتانا پڑے گا، ایمان، اعتقاد اور الہام کی دلیل ہم مسلمانوں کے لیے ہے، سائنس میں یہ دلیل نہیں چلتی ، وہاں واضح مثال اور تجربہ جس کے نتائج ہمیشہ ایک جیسے ہوں، کر کے اور ثابت کر کے دکھانا پڑتا ہے اس لیے سائنس کے معاملات میں مذہبی تنقید کبھی کامیاب نہیں ہو سکی۔

عیسائی چرچ نے صدیوں تک ہر ظلم روا رکھتے ہوئے یہ ناکام کوشش کر کے دیکھ لی ہے، نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو بیسویں صدی میں آ کر فوت شدہ گلیلیو اور کوپر نیکس سے سرعام معافی مانگنی پڑی۔ امید ہے آپ، اب مذہب کی ڈومین اور سائنس کی ڈومین کا فرق سمجھ گئے ہوں گے۔ مذہب کو اپنے روحانی اور اخلاقی معاملات بلکہ سماجی معاملات کے لیے بنیادی پروٹوکول کے طور پر استعمال کرنا ہے، لیکن میز کیسے بنانی ہے، چولہے میں کیا جلانا ہے، ہسپتال میں علاج کیسے کرنا ہے ، شاہراہیں کیسے بنانی ہیں، اوزار جو آسانی پیدا کریں کیسے بنانے ہیں، یہ افعال بلا تخصیص مذہب دستیاب انسانی تجربات ، مشاہدات اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے علم کے ذریعے ہی حل کرنے ہیں۔

بصورت دیگر کورونا وائرس کا علاج روحانی طور پر دریافت فرمائیں، دنیا سلام پیش کرے گی۔ ورنہ انتظار فرمائیں کہ علم اور سائنس کب دوسرے امراض کے علاج کی طرح اس کا علاج بھی دریافت کرے۔ اسلام کی تعلیمات دائمی ہیں جبکہ سائنس ہر گزرتے دن کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے یعنی آگے بڑھ رہی ہے ۔ آج اگر اس کے کسی نظریہ کو اسلام کا غلاف پہنانے کی کوشش کریں گے اور کل جب سائنس اپنی سابقہ تھیوری کو مسترد کر کے مزید آگے چلی جائے گی تو پھر سابقہ تھیوری کی جو اسلامی توجیہہ و تشریح کی گئی تھی اس کا کیا بنے گا؟

ذرا غور فرمائیں۔ سائنس کبھی مذہب کے ڈومین میں دخل نہیں دیتی ۔ سائنس نے کبھی خدا، روح، جنت، ۔ دوزخ جیسے اعتقادات کا انکار کیا ہے اور نہ ہی ان کو چیلینج کیا ہے، بلکہ یہاں اپنی لاعلمی کا اعتراف کیا ہے جبکہ اہل مذہب نے ضرور سائنس کی ہر مادی اور دنیاوی ایجاد اور نظریہ میں ایمان، اعتقاد، الہام کے ہتھیار لے کر دخل اندازی کرنی ہے، بلکہ دعویٔ ملکیت بھی کر گزرنا ہے، لیکن سائنس کی دنیا میں یہ سکے ایمان، اعتقاد، الہام وغیرہ نہیں چلتے۔ وہاں کسی بات کو ایسے تجربے سے جو بار بار دھرانے پر ایک جیسا نتیجہ دے ، سے ہی مانا جاتا ہے۔

آپ کسی عالمی سائنسی فورم پر جا کر مختلف مذاہب بلکہ لامذہب سائنس دانوں کے اجتماع کے سامنے یہ فرمائیں کہ یہ بات قرآن میں لکھی ہے تو یہی درست ہو گی، تو کیا وہ اس طرح آپ کی بات مان لیں گے؟ اس لیے درخواست ہے کہ ایک متغیر علم کو ایک مستقل عقیدے کے ساتھ ملانے کی کوشش نہ فرمائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments