ذہنی و جسمانی صحت کا حصول کیسے ممکن بنائیں؟


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج کا انسان بہت مصروف ہو گیا ہے اور ستم یہ کہ اس مصروفیت نے اس کی ترجیحات بھی بدل دی ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو پرانے وقتوں میں لوگوں کو خوشیاں تلاش کرنے کے لیے پیسے نہیں خرچ کرنے پڑتے تھے، سکون حاصل کرنے کے لیے سکون آور گولیاں نہیں کھانی پڑتی تھی اور صحت و تندرستی کے لیے جم نہیں جانا پڑتا تھا۔ ان لوگوں کا طرز زندگی اس طرح کا تھا کہ یہ سب چیزیں ان کو بکثرت دستیاب تھیں مگر چونکہ موجودہ دور میں انسانی ترجیحات بدل چکی ہیں لہٰذا صحت، خوشیاں اور سکون سے زیادہ اہمیت پیسہ کمانے کو مل گئی ہے۔

پیسے کمانے کی خواہش بے کراں نے انسانی زندگی کو کچھ ایسا مصروف کر دیا ہے کہ چھٹی والے دن بھی ”پیسہ ڈبل“ کرنے کی جستجو بے چین رکھتی ہے اسی وجہ سے رقم کمانے کے چکر میں ہم کھانا، ورزش اور آرام کو تقریباً بھول چکے ہیں جبکہ دوسری طرف ٹیکنالوجی کی دنیا میں آنے والی روز بروز نئی چیزوں نے ہماری زندگی سہل بنا دی ہے جس کے نتیجے میں بظاہر ہماری زندگی آسان اور آرام دہ ہو گئی ہے مگر ان سہولتوں کا سب سے زیادہ شکار ہماری صحت ہوئی ہے جہاں پہلے وقتوں میں لوگ اپنے تمام کام اپنے ہاتھ اور پاؤں سے کرتے تھے اور جسمانی مشقت کے بعد ہی زندگی میں آرام آتا تھا وہاں موجودہ وقت میں پاتھ اور پاؤں ہلائے بغیر انسانی زندگیوں میں سکون و آرام داخل ہو چکا ہے۔

چنانچہ نفسانی خواہشات کے سیلاب، جدید ایجادات اور ممکنات کے اسباب کے نتیجے میں انسانی طبیعت میں چڑچڑا پن اور غصیلاپن کا عنصر غالب آ چکا ہے چنانچہ اس رویہ کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر انسانی صحت ہوئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ”صحت کے تین بنیادی ستون ہیں غذا، ہوا اور پانی“ ۔ یہ سچ ہے کہ موسمی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی نے ان تینوں عناصر کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ اچھی صحت مند زندگی کے لیے صحت مند ماحول اولین شرط ہے کیونکہ ایک آلودہ ماحول انسانی صحت کو کئی طریقوں سے متاثر کرتا اور بہت سے نئے امراض پیدا کرتا ہے۔

ہمارے اردگرد کا ماحول اوزون کی تہہ میں سوراخ ہونے سے بھی بدل رہا ہے جبکہ مختلف کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا زیریلا دھواں ماحول کو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ صفائی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بھی جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ماحول میں کثافت کا باعث بن رہے ہیں۔ سڑکوں پر فراٹے بھرتی گاڑیاں بھی ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کا بڑا سبب ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے جلد، سانس اور کینسر، ہیپاٹائٹس، ٹی بی، فلو، اسہال، پھیپڑوں کے امراض اور دل کے امراض میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ماحول کے ساتھ جڑی دوسری اہم چیز متوازن غذا کا استعمال ہے۔ متوازن غذا سے یہ مراد ہے کہ ہم ہر صحت بخش چیز کھا سکتے ہیں مگر اعتدال کے ساتھ۔ عمومی طور پر ہم سبزیوں، گوشت، زرعی اجناس، پھلوں اور مشروبات سے اپنی غذائی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور ہمارا جسم ان غذاؤں سے وٹامن، پروٹین، نمکیات اور معدنیات حاصل کرتا ہے۔

افسوس موجودہ دور میں قدرتی اور فطرتی غذا کی جگہ فاسٹ فوڈ لے چکا ہے۔ ہمارے بزرگ سادہ غذا کھاتے تھے اورکھانے میں سبزیوں کا زیادہ استعمال کیا جاتا تھا، دودھ، دہی اور مکھن کا باقاعدہ استعمال کیا جاتا تھا جبکہ آج کی نسل ان اشیاء سے دور بھاگتی ہے اور اب نئی نسل کھانے میں برگر، شوارما، پیزا، سینڈوچ، تلی ہوئی، مصالحہ دار، مرغن اور چٹ پٹی اشیاء مانگتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی اشیاء اکثر جگہوں پر حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کیے بغیر تیار کی جا رہی ہیں۔

غذا اور ہوا کے بعد پانی کی باری آتی ہے۔ بدقسمتی سے پرانے وقتوں میں ٖفضائی آلودگی نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ ہر بندہ قدرتی غذا کھا رہا تھا۔ اوزون کی تہہ بھی متاثر نہ ہوئی تھی یعنی انسان کو زمین پر رہنے کے لیے سازگار ماحول دستیاب تھا۔ سمندر، دریا، نہریں، جھیلیں اور چشموں میں صاف پانی تھا مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا، زمینی اور فضائی آلودگی نے زمین میں موجود پانی کو بھی متاثر کر دیا۔ پانی زیرزمین مزید نیچے چلا گیا نیز زہریلے عناصر کی شمولیت نے انسانوں کے لیے صاف پانی کی دستیابی بھی مشکل بنا دی۔

سائنس کی تیز رفتاری نے جہاں انسان کی زندگی میں جدت کو شامل کر دیا ہے وہاں کئی چیزوں کو اس کی زندگی سے بھی نکال دیا ہے۔ آج کائنات میں جو چیز سب سے زیادہ خطرے میں ہے وہ خود انسان ہے کیونکہ اس نے اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کا سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ آسائش کے بارے میں ضرور سوچا جا رہا ہے اور روز نت نئی چیزیں انسان کو آرام پہنچانے کی مارکیٹ میں آ رہی ہیں۔ آج اگر ہم غور کریں تو انسان زندگی کو بہتر بنانے کے جتنے بھی جتن کر رہا ہے ان میں صحت شامل نظر نہیں آتی۔

اگر موجودہ انسان اس زمین کو ایک بار پھر سے جنت بنانے میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے ماحول کو پاکیزہ اور صاف بنانے کے لیے درختوں کے نئے جنگلات لگانے پڑیں گے تاکہ ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ کیا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ ذاتی صفائی، دانتوں اور ناخنوں کی صفائی پر سختی سے عمل کرنا ہو گا نیز ماحولیاتی صفائی پر بھی بھرپور توجہ دینا ہو گی اور کوشش کرنا ہوگی کہ ہمارے اردگرد گندگی کے ڈھیر زیادہ دیر تک پڑے نہ رہیں۔

گاڑیاں بوقت ضرورت استعمال کریں ورنہ عام حالات میں سائیکل یا پیدل کام کاج پر جائیں۔ ورزش کو اپنی زندگی کا باقاعدہ حصہ بنا لیں۔ اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر متوازن غذا کا استعمال اور صاف پانی کی دستیابی کو ممکن بنانا ہو گا۔ شکر، نمک اور چکنائی کا محدود استعمال کرنا ہو گا، ریشہ دار غذاؤں، پھلوں اور سبزیوں کو اپنی غذا کا لازمی جزو بنانا ہو گا، بازاری فاسٹ فوڈ اور چٹ پٹے کھانوں سے پرہیز کرنا ہو گا۔ اے سی اور فریج کا کم سے کم استعمال کریں، تازہ ہوا، کھلی جگہ اور قدرتی روشنی میں کام کرنے کی عادت ڈالیں، بند کمروں اور کم روشنی والی جگہوں پر بیٹھنے سے گریز کریں۔ کھانا وقت پر اوربھوک رکھ کر کھائیں جیسا کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا ارشاد پاک ہے ”جب کچھ بھوک باقی ہو تو کھانا چھوڑ دو“ ۔

یاد رکھیں! تندرستی ہزار نعمت ہے، بیمار آدمی کی کوئی زندگی نہیں ہوتی، نہ وہ کسی کو سنوار سکتا ہے اور نہ اپنے لیے بہتر کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments