مقصودگل کا نونہالوں کے لئے کہانیوں کا سندھی مجموعہ: ”ہٹھیلی ہرنڑی“ (مغرور ہرنی)۔


سندھی ادب کے ماضی قریب میں مقصودگل کا نام اور ادبی مقام کسی بھی رسمی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ شاعر ابن شاعر، ابن شاعر کی حیثیت سے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو کے قادرالکلام اور صاحب طرز سخنور کی حیثیت سے تو اپنی پہچان رکھتے ہی ہیں، مگر ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے مترجم، محقق، صحافی، مدیر، کالم نویس، افسانہ نویس، حضرت سچل سرمستؒ کے شارح اور بچوں کے ادیب کی حیثیت سے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔

آپ 15 اپریل 1950ء کو ضلع لاڑکانہ کے تاریخی قصبے ”رتوڈیرو“ میں پیدا ہوئے، جبکہ 14 فروری 2015ء کو کراچی میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ قلمی کارناموں کے حوالے سے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے قارئین کو 10 عدد کتب دیں، جن میں 2 شعری مجموعے، 3 تراجم، ایک تاریخ، 2 تالیفیات، جبکہ 2 بچوں کے ادب پر مشتمل کتابیں شامل ہیں۔ ان دس کتب میں سے ان کی 8 کتابیں سندھی میں، جبکہ دو اردو میں ہیں۔

”ہٹھیلی ہرنڑی“ (مغرور ہرنی) مجموعی ترتیب کے لحاظ سے مقصود گل کی پانچویں، جبکہ بچوں کی دوسری کتاب ہے۔ اس سے پہلے ان کی نونہالوں کے لئے شاعری کی کتاب ”کرنڑا کرنڑا“ (کرنیں کرنیں ) شائع ہو کر مقبولیت پا چکی تھی اور بچوں کے لئے ”ہٹھیلی ہرنڑی“ ان کی نثر کی پہلی کتاب تھی۔

مقصود گل کے اس کہانیوں کے مجموعے میں کل نو کہانیاں شامل ہیں، جن کے عنوانات بالترتیب، ”کانون جی سازش“ (کوؤں کی سازش) ، ٹائٹل اسٹوری ”ہٹھیلی ہرنڑی“ (مغرور ہرنی) ، ”غدار ڈیڈر“ (غدار مینڈک) ، ”ایمانداری“ (ایمانداری) ، ”کارو چنڈر“ (سیاہ چاند) ، ”گاڑھو بھت“ (لال چاول) ، ”شہید جو موت“ (شہید کی موت) ، ”اٹل فیصلو“ (اٹل فیصلہ) اور ”اللہ سائیں ء جی گولا“ (اللہ تعالیٰ کی تلاش) شامل ہیں۔

ان تمام کہانیوں میں بشمول کردار نگاری، منظر نگاری، مکالمہ نگاری وغیرہ، ایک روایتی افسانے کی تمام تر خوبیاں نہ صرف بدرجۂ اتم موجود ہیں، بلکہ ان میں بلا کا توازن بھی رکھا گیا ہے کہ قاری کا توجہ ان کو پڑھتے ہوئے، بٹتا اور ہٹتا نہیں۔

”ہٹھیلی ہرنڑی“ میں شامل بچوں کی یہ کہانیاں، اس لئے بھی منفرد اور قابل قدر ہیں کہ ان میں سے بیشتر کہانیوں کے ظاہری اظہار کے پیچھے، کوئی نہ کوئی مقامی و قومی المیہ پینٹ کیا گیا ہے۔ جانوروں یا نونہالوں کے کرداروں کے پیچھے ہمارے سماج و سیاست کے وہ مشہور کردار چھپے ہیں، جو مثبت، خواہ منفی، کسی نہ کسی حوالے سے تاریخ میں اہم رہے ہیں۔ اس امر کی وجہ سے یہ کہانیاں نہ صرف بچوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں، بلکہ بہ یک وقت، ایک بالغ قاری بھی ان افسانوں کو پڑھ کر حظ حاصل کر سکتا ہے۔

اس لحاظ سے یہ کتاب ہر عمر سے متعلق فرد کے لئے دلچسپی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ، اپنے دور کی تاریخ کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ ساتھ ساتھ ہر کہانی کے کلائمکس پر بچوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سکھانے والا سبق بھی ہے، جو کہانی کی افادیت کو دوگنا کر دیتا ہے۔ ان کے ایک افسانے ”غدار ڈیڈر“ (غدار مینڈک) کا ’پری۔ کلائمیکس‘ پڑھ کے دیکھیں:

”آخرکار ایک دن ایسا بھی آیا کہ سارا تالاب مینڈکوں سے خالی ہو گیا۔ اور بس باقی ایک غدار مینڈک ہی جا بچا۔ رات کو حسب معمول سانپ پیڑ سے اترا۔ اور سیدھا تالاب کے کنارے پر پہنچا۔ خوشامدی مینڈک نے جو اپنے آقا کو تالاب کی جانب آتے ہوئے دیکھا، تو حسب عادت، دوڑ لگائی، اور جاکر اس کا استقبال کرتے ہوئے سلام کیا۔

سانپ نے کہا: ”مینڈک خان! کیا خبر ہے! ؟ کیسے مزاج ہیں؟“

”سرکار، آپ کی دعائیں ہیں۔ آپ کی حکومت میں ہمارا وقت اچھا گزر رہا ہے۔“ مینڈک اپنے خوشامد آلود لہجے میں جواباً گویا ہوا۔

”سارا دن بھوکا گزارا ہے۔ ہے کوئی شکار! ؟“ سانپ نے براہ راست اپنا مطلب بیان کرتے ہوئے کہا۔
”مگر سرکار، سارے تالاب کے مینڈک تو آپ کی۔ خوراک بن گئے۔“ مینڈک نے خوفزدہ لہجے میں جواب دیا۔

”مگر اب بھوک کی آگ تو بجھانی ہے۔ پیٹ تو بھرنا ہے۔ تم ہی تیار ہو جاؤ۔ آج تمہارا گوشت کھانے کا دل کر رہا ہے۔ بہت لذیذ اور مزیدار ہو گا۔“ سانپ نے زبان پھیرتے ہوئے کہا۔

”مگر سرکار، میں تو آپ کا وفادار غلام ہوں۔“ مینڈک نے منت و سماجت کرتے ہوئے کہا۔
”تو کیا ہوا۔“ سانپ نے بے قرار ہوتے ہوئے کہا۔
”سرکار، اپنے فرمانبردار غلام پر رحم فرمائیے۔ رحم کیجیے سرکار۔“ مینڈک نے گڑگڑا کر کہا۔

”تم اپنی قوم کے دشمن ہو۔ اپنی قوم کا دشمن کسی کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہو سکتا۔ تمہیں اس کی سزا ضرور ملے گی۔“

یہ کہہ کر سانپ نے اپنا بڑا منہ کھولا اور غدار مینڈک کو خوراک یک لقمہ بنا ڈالا۔ ”

اس کتاب کو مقصود گل نے، ان دنوں لاڑکانے میں قتل ہونے والے ”راجیش“ نامی ایک مظلوم نونہال کے نام منسوب کرتے ہوئے، صفحۂ انتساب پر تحریر کیا ہے :

”راجیش اور راجیش جیسے دنیا کے مظلوم بچوں کے نام، جو اپنی زندگی کی بہار نہ پا سکے۔“

کتاب کا سر ورق، ملک کے معروف مصور فتاح ہالیپوٹو نے ڈیزائن کیا ہے، جبکہ ہر کہانی کے ساتھ ایک عدد خوبصورت اسکیچ، نامور مصور قاضی اختر حیات نے ڈیزائن کیا ہے، جو ہر کہانی کے ساتھ بچوں کی دلچسپی کے اضافے کا باعث ہے۔

اس کتاب ”ہٹھیلی ہرنڑی“ کے صفحۂ آخر (بیک ٹائٹل) پر مصنف کا تعارف، امام راشدی نے تحریر کیا ہے۔ کتاب ہٰذا کو ”سرہان پبلیکیشن، سیہون“ کی جانب سے، پروانو سیوہانڑی نے 1993 ء میں شائع کیا گیا تھا، جس کی اشاعت دوم کی اشد ضرورت ہے۔

مقصود گل کی ادبی خدمات کی نشرواشاعت کے لئے قائم شدہ، مقصود گل اکیڈمی سندھ کی جانب سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرایا گیا ہے، جو عنقریب شائع ہو کر کتابی صورت میں اردو پڑھنے والے بچوں کے ہاتھوں تک پہنچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments