بابر اعظم کی 'بادشاہت' کا جشن

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


کرکٹ

تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ جب تک دوسرا رخ نہ دیکھ لیا جائے، تب تک پہلے کے بارے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے ورنہ تخمینے گڑبڑا جاتے ہیں۔

میچ کی پہلی اننگز میں ہمیں تواتر سے یہ احساس ہوا کہ شاید پاکستانی بولر اپنا ردھم بھلا بیٹھے ہیں۔ کیونکہ لینتھ آگے پیچھے کرنے سے بھی نتائج پہ کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑ رہا تھا، ہر تیسری گیند باؤنڈری کی سیر کو جا رہی تھی۔

شاہین شاہ آفریدی کی بولنگ دیکھ کر تو یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ پاکستانی بولنگ اٹیک کے سرخیل ہیں۔ جس طرح سے یانیمن میلان اور مارکرم مار دھاڑ کر رہے تھے، 225 کا مجموعہ یقینی نظر آ رہا تھا۔

ایک بار تو یوں بھی لگا کہ ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کہیں بابر اعظم کے گلے ہی نہ پڑ جائے۔ کیونکہ اس ناتجربہ کار جنوبی افریقی بیٹنگ آرڈر کو یہاں پہ وان ڈر ڈوسن کی خدمات بھی مہیا ہو چلی تھیں جو پچھلے دو میچز انجری کے سبب باہر بیٹھے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

تیسرے ٹی 20 میں پاکستان فاتح، ’14 اپریل کو بابر اعظم ڈے قرار دیا جائے‘

’ہیلو ڈی کوک، ملر، ربادا ہم تمہارے بغیر بھی پاکستان کو ہرا سکتے ہیں‘

سمیع چوہدری کا کالم: اگر ذرا سا بھی ڈرامہ نہ ہو تو جیت کا کیا مزا؟

ٹی ٹونٹی ویسے ہی اتنے مختصر دورانیے کی گیم ہوتی ہے کہ اگر اوپنرز ہی دس اوور کھیل جائیں تو مڈل آرڈر میں سلوگنگ اور پاور ہٹنگ کا اعتماد خود بخود در آتا ہے۔ ایسے میں ضروری صرف یہ ہوتا ہے کہ ڈیتھ اوورز میں رن ریٹ کو متاثر کیا جائے تا کہ وکٹیں گرنے کی گنجائش پیدا ہو۔

پاکستان کے لیے یہ کام محمد نواز اور فہیم اشرف نے کیا۔ گیند سے رفتار ہٹائی اور بلے بازوں کی ٹائمنگ کو متاثر کر کے وکٹوں کی گنجائش پیدا کی۔ اس سے رن ریٹ گھٹنے لگا اور پاکستان ایک خطیر ہدف کے تعاقب کے خدشے سے باہر آ گیا۔

ڈیتھ اوورز میں حارث رؤف نے بھی اچھی بولنگ کی اور ڈوسن کی برق رفتاری کے باوجود شاہین شاہ آفریدی نے آخری اوور میں نقصان ایک حد سے بڑھنے نہیں دیا۔

اس کے باوجود 204 کا ہدف پاکستان کے لیے بہت بڑا تھا۔ پاکستان نے اس سے پہلے کبھی اتنے بڑے ہدف کے تعاقب میں میچ جیتا ہی نہیں تھا۔ اور پچھلے میچ میں پاکستانی بیٹنگ لائن کی شکست و ریخت کے بعد اعتماد ویسے ہی ڈانواں ڈول تھا۔

مگر بابر اعظم کا یہ خاص دن تھا۔ یہی وہ موقع تھا کہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں چوتھی بار کوئی بلے باز آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں پہلے نمبر پہ آیا۔ خاص بات یہ تھی کہ بابر اعظم نے نمبر ون پوزیشن پہ وراٹ کوہلی کی ساڑھے تین سالہ اجارہ داری ختم کی۔

ہینرخ کلاسن کو یقیناً اپنے بولنگ اٹیک پہ اعتماد رہا ہو گا کہ اسی اٹیک نے تو دو روز پہلے پاکستان کو 150 بھی نہیں کرنے دیا تھا۔ ایسا کیسے ممکن تھا کہ پاکستان جیسی ناقابلِ اعتبار بیٹنگ لائن ایسے مارجن کا میچ ان کے منہ سے کھینچ کر لے جاتی؟

مگر یہاں کلاسن کا فارمولہ پٹ گیا۔ کیونکہ بابر اعظم تو رہے ایک طرف، رضوان کی جارحیت ہی جنوبی افریقی بولرز کے اوسان لے اڑی۔ رضوان جس طرح کی فارم لے کر چل رہے ہیں، بہت جلد دنیا کے چند بڑے بلے بازوں میں شمار ہونے لگیں گے۔

بابر اعظم کی بیٹنگ کا خاصہ یہ ہے کہ وہ مشکل سے مشکل شاٹس کو بھی بہت خوبصورتی اور سہولت سے کھیل جاتے ہیں۔ فیلڈرز جس قدر بھی گھیرا تنگ کر لیں، وہ گیند کو دائرے سے باہر نکالنا جانتے ہیں۔

کرکٹ

سینچورین کی پچ ویسے بھی پاکستان کے لیے بہت لکی رہی ہے اور اس میچ کے لیے تیار کی گئی وکٹ میں تو ٹینس بال کا سا باؤنس تھا۔ گیند بہت خوبصورتی سے بلے پہ آ رہا تھا اور بابر کا اعتماد تو اس نہج پہ تھا کہ انہوں نے سپن کے خلاف سویپ شاٹس بھی کھل کر کھیلے جو وہ عموماً نہیں کھیلتے۔

ایک لحاظ سے پاکستان کے لیے یہ جیت نہایت ضروری تھی کیونکہ اس کے بغیر سیریز جیتنے کا کوئی امکان باقی نہ رہتا۔ اور بابر اعظم نے اپنی ‘بادشاہت’ کا جشن ایسا منایا کہ نہ صرف جیت پاکستان کی جھولی میں ڈال دی بلکہ فتح کا مارجن بھی ایسا کر دیا کہ پچھلے میچ کے تمام شکوے گلے دُھل گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp