پولیس فورس کو عزت دو


بچپن میں انڈین فلموں میں دیکھتے تھے کہ کس طرح ریاست پہلے غنڈے پالتی، ان کا استعمال کرتی اور پھر ان کا صفایا کر دیتی تھی، تھوڑا شعور آیا تو پتہ چلا کہ ہمارے ہاں تو یہ عملی طور پر ہو رہا ہے۔

اب پتا نہیں برصغیر کے حالات ایسے ہیں یا ہمارے سکرپٹ رائٹر بالی ووڈ کی فلموں سے متاثر ہیں، ایم کیو ایم کی تشکیل ہو یا پھر تحریک طالبان، لشکر جھنگوی ہو یا پھر جماعت الدعوۃ کی چھتری تلے مختلف تنظیمیں پروان چڑھانا ہو اور اپنے مقاصد کے حصول کے بعد ان تنظیموں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لینا ہو ، یہ سب کسی ہالی ووڈ یا بالی ووڈ کی فلم کا سکرپٹ ہی لگتا ہے۔

اس سب کا نتیجہ پاکستانی عوام اور سویلین اداروں کو زیادہ بھگتنا پڑتا ہے اور پڑ رہا ہے، کراچی میں ایم کیو ایم کی تشکیل کے بعد جو خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی ، اس میں سب سے زیادہ جانیں پولیس اور عوام کی گئیں، اسی طرح تحریک طالبان کے بم دھماکوں میں بھی پچاس ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جن میں زیادہ تعداد عوام، پولیس اہلکاروں کی تھی۔

یہ سب لکھنے کا مقصد خوانخواستہ ہمارے پاک افواج کی قربانیوں سے انکار نہیں ہے، بلاشبہ ہماری افواج کے بہادر جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر اس ملک میں امن لایا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسی نوبت ہی کیوں آئے کہ کسی کو اپنی جان قربان کرنی پڑے، چاہے وہ سویلین ہو یا کوئی پولیس اہلکار یا کوئی جوان۔

گزشتہ دنوں ڈیرہ غازی خان کے غازی گھاٹ پل کی ایک فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں تشدد کے شکار پولیس انسپکٹر کو تحریک لبیک کے ورکرز گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے ہیں اور ساتھ میں گالیاں نکالتے ہوئے یہودیوں کا ایجنٹ اور کافر قرار دے رہے ہیں، اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب یہ پولیس انسپکٹر لائن حاضر تھے ، انہیں احتجاجی مظاہرین سے غازی گھاٹ کا پل کلیئر کروانے کے لئے بھیجا گیا، انہی انسپکٹر کے بارے میں میرے کلاس فیلو جو خود ایس ایچ او رہے ہیں کے الفاظ تھے کہ ”یہ ایک انسپکٹر صاحب ہیں جن کو یہ خودساختہ عاشقان رسول یہودی کہہ رہے ہیں ، میں ذاتی طور پر جانتا ہوں ، انتہائی دیانت دار پولیس افسر اور سچے مسلمان ہیں۔ یہ ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں بزرگ آدمی ہیں۔ ریاست کی طرف سے ڈیوٹی کرنے گئے تھے۔ ان کی اولاد جوان ہے۔ ان کے دل پر کیا گزری ہو گی یہ ویڈیو دیکھ کر، ہم ایک بے ہنگم اور جاہل معاشرہ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پولیس پڑھی لکھی، خوش اخلاق، دیانت دار اور 24 گھنٹے ہمارے لیے کام کرے“

اسی طرح سے لاہور میں بھی دو کانسٹیبل مظاہرین کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس افسران اور حکومتی ذمہ داروں کی جانب سے مذمتی بیان آئے، مگر مختلف صحافتی اداروں میں کام کرتے ہوئے ایک افسوسناک حقیقت سامنے آئی کہ اگر پولیس اہلکار ریاست پر قربان ہو جائے تو جاں بحق اور ہمارے فوجی جوان شہید قرار دیے جاتے ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس پر لب کشائی کرتے ہوئے دشمن ملک کا ایجنٹ، سازشی جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حقیقت دیکھی جائے تو ہماری پولیس فورس کو معاشرے کی دھتکار کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، 30 ہزار روپے تنخواہ میں بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے، سردی ہو یا گرمی نامساعد حالات میں ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے، میرے ہاسٹل میں ایک پولیس اہلکار ڈیوٹی کر رہے ہیں، پی ایس ایل کا انعقاد ہوا تو وہ اپنی بائیک پر سکیورٹی ڈیوٹی کے لئے جاتے تھے ، میں نے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ایسی کسی بھی ڈیوٹی پر جانے کی ذمہ داری پولیس اہلکار کی ہوتی ہے اور آنے جانے کا پیٹرول پولیس اہلکار کو اپنی جیب سے لگانا پڑتا ہے، اسی طرح پینے کا پانی تک بھی نہیں دیا جاتا جو اہلکار کو اپنی جیب سے خریدنا پڑتاہے، ڈیوٹی کے اوقات کار بھی کوئی نہیں ہوتے۔

اب کل ہی کہ بات ہے کہ تحریک لبیک کے دھرنے کی ڈیوٹی کر کے تھکا ہارا آیا اور آدھے گھنٹے بعد پھر سے آپریشن کے لئے بلا لیا گیا، ظلم تو یہ ہے کہ شہید ہونے والے اہلکاروں کے جنازے میں چند افسران شرکت کرتے ہیں اور اس کے بعد اس شہید کو کوئی یاد نہیں کرتا اور اہلخانہ کو پنشن اور واجبات کے حصول کے لئے سرکاری دفاتر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، میرے سامنے کئی ایسے کیسز آئے کہ شہید پولیس اہلکاروں کی بیواؤں کو پنشن کے لئے رشوت تک دینی پڑی۔

بہرکیف اس وقت ملک میں جاری دھرنوں کو ہمارے پولیس کے جوانوں نے اپنا خون دے کر ختم کروا دیا ہے اور ملک کے بیشتر حصوں میں ٹریفک بھی بحال کروا دی گئی ہے، جس کی سوشل میڈیا پر مدح سرائی بھی کی گئی ہے مگر بحیثیت ایک شہری میرا مقتدر اداروں سے سوال ہے کہ آپ کے بلنڈرز کا خمیازہ عوام کو کیوں بھگتنا پڑتا ہے؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ ایک پولیس افسر، اہلکار کو لاٹھیاں پڑیں اور آپ کے اہلکاروں کے ہاتھ چومے جاتے رہیں؟ اور ہماری حکومت، سویلین اداروں سے گزارش ہے کہ ہماری پولیس فورس کو عزت دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments