اگلا ’سعد رضوی‘ کون بنے گا؟


وزیر داخلہ شیخ رشید نے بتایا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت پنجاب کی تجویز پر وزارت داخلہ اس بارے میں سمری حتمی فیصلہ کے لئے وفاقی کابینہ کو روانہ کررہی ہے۔ وزیر داخلہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ شہری زندگی متاثر کرنے اور ہسپتالوں کو آکسیجن کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

کسی تنظیم پر پابندی لگانے سے حکومت اس بینر تلے متحرک ایک گروہ اور اس کے لیڈروں کے خلاف زیادہ مؤثر کارروائی کرسکےگی لیکن اس سے وہ مذہبی جنون ختم نہیں ہوگا جو تحریک لبیک جیسی تنظیموں کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ بدقسمتی سے وزیر اعظم عمران خان سمیت حکمران جماعت تحریک انصاف کے متعد د لیڈر خود عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے اور انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایک انتہا پسند گروہ کے خلاف پابندی لگانے جیسا انتہائی اقدام کرنے والی حکومت کو پہلے اپنے اعمال نامے پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہئے۔ اگر قول و فعل کا یہ تضاد برقرار رہے گا تو حکومت کا کوئی بھی فیصلہ مطلوبہ نتائج دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ کچھ عرصہ میں متعدد مواقع پر مذہبی عقائد کو اپنی سیاسی کامیابی یا حکومتی حکمت عملی کے طور پر پیش کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ اسی رجحان کو تقویت دینے سے دلیل اور جواز کے بغیر مذہب کے نام پر نعرے بازی ہوتی ہے اور متفرق گروہ انتہائی اقدام پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ ویک اینڈ پر ملک میں جنسی زیادتی کے مجرموں کے خلاف حکومتی اقدامات کے بارے میں ایک شہری کے سوال پر وزیر اعظم نے فحاشی کو ریپ کی بنیادی وجہ قرار دیا تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے اسلامی تعلیمات اور پردے کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھا تھا۔ ان کی باتوں سے صرف ایک ہی بات سمجھی جاسکتی تھی کہ اگر ساری پاکستانی خواتین پردہ کرنا شروع کردیں تو تحریک انصاف کی حکومت ریپ کے واقعات پر قابو پالے گی۔ وزیر اعظم کا یہ طریقہ گفتار نہایت سطحی اور افسوسناک تھا جو حقائق کے برعکس ہونے کے علاوہ شہریوں کے بنیادی حقوق سے بھی متصادم ہے۔

وزیر اعظم کے اس بیان پر شدید تنقید کے باوجود عمران خان نے اسے واپس لینے کی تکلیف گوارا نہیں کی ۔ بلکہ گزشتہ روز تحریک لبیک کے احتجاج اور تشدد کی کارروائیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی نے حکومت کی مذہبی شیفتگی ثابت کرنے کے لئے ریپ کے بارے میں وزیر اعظم کے ارشادات عالیہ کا حوالہ دینا بھی ضروری سمجھا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کی مذہبی جماعتوں نے اس حوالے سے وزیر اعظم کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ انہوں نے حکومت کو اسلامی اقدار کا محافظ قرار دیتے ہوئے تحریک لبیک سے احتجاج ختم کرکے بات چیت کا تقاضہ کیا۔ یوں مذہبی بنیاد پر ملک میں شروع کئے گئے تشدد کے خاتمہ کے لئے حکومت نے خود کو مظاہرین سے زیادہ وفادار مذہب پرست ثابت کرکے دراصل اپنی انتظامی ناکامیوں کو سیاسی سرخروئی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔

اسی طرح سرکاری لنگر کے ایک منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم کا دعویٰ تھا کہ اگر حکومت بھوکوں کو کھانا کھلائے گی تو اللہ کی رحمت نازل ہوگی۔ یہ طریقہ دراصل سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو استعمال کرنے اور اپنی ناکامیوں کو اللہ کی رحمت یا ناراضی سے جوڑنے کی بھونڈی کوشش تھی۔ ہر مسلمان اللہ سے خیر کی امید کرتا ہے اور اس کے لئے دعا گو رہتا ہے لیکن وہ غریبوں کو کھانا کھلا کر خود من و سلویٰ کا انتظار نہیں کرتا بلکہ وسائل پیدا کرنے کے لئے عملی جد و جہد کرتا ہے، اپنے کام پر توجہ دیتا ہے یا کاروبارمنظم کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ اس کے برعکس جب حکومت کا سربراہ سرکاری ذمہ داری پورا کرنے کے لئے اپنی کارکردگی دکھانے کی بجائے یہ کہے گا کہ وہ اللہ کی رحمت کا منتظر ہے تو اسے شکست خوردگی کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ عمران خان اور حکومت کو ملک میں مذہب کے نام پر مروج شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی ایک تنظیم پر پابندی لگانے کی بجائے خود اپنے سیاسی ہتھکنڈوں پر غور کرنا چاہئے۔ عوام کو مذہب کا چورن بیچنے کی بجائے، ان کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں اور تعلیم عام کی جائے۔

تحریک لبیک کی طاقت ایک طرف مذہب کی مسخ شدہ تفہیم، جہالت اور غیر ضروری جذباتیت ہے تو دوسری طرف نوجوانوں میں بیروزگاری اور خوشحال مستقبل کے بارے میں مایوسی نے بھی انہیں ایسی تنظیموں کی طرف مائل کیا ہے جو نعروں کے ذریعے وقتی راحت اور تسکین فراہم کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ عمران خان کی باتیں بھی اسی مزاج کی نمائیندہ ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر پیدا ہونے والے جذبات صرف ان کی سیاست کو مستحکم کرنے کا سبب بنیں۔ مذہب فروشی میں کوئی سیاسی لیڈر پیشہ ور مذہبی رہنماؤں کا مقابلہ نہیں کرسکتا کیوں کہ انہیں کئی دہائیوں سے اسی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔ ملک میں اگر نوجوانوں کو تعلیم، بہتر زندگی اور روزگار کے مواقع میسر ہوں گے اور موجودہ فرسودہ و بوسیدہ نظام میں انہیں سماج کے محروم ترین طبقہ میں تبدیل نہیں کیا جائے گا تو کسی مولوی یا سیاست دان کے لئے نعروں کی بنیاد پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا آسان نہیں رہےگا۔ ملک سے انتہا پسندی اور اس کے بطن سے جنم لینے والی دہشت گردی ختم کرنے کے لئے سماجی تربیت کے علاوہ معاشی بہبود کے منصوبوں کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان کی حکومت خیرات کو معاشی فلاح کا راستہ سمجھنے لگی ہے۔ ایسی سیاسی سوچ کے ساتھ انتشار کم نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں اضافہ ہوگا۔

وزیر داخلہ نے ملک میں تین روز تک جاری تشدد کے واقعات اور شہری زندگی معطل ہونے کے بعد یہ فرمایا ہے کہ لبیک تحریک پر پابندی لگانے کی سمری بھیجی جارہی ہے۔ اس بیان سے یہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے کہ پابندی لگا دی گئی ہے ۔ ممکن ہے یہ بھی وزیر خزانہ حماد اظہر کے بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے والے بیان جیسا دھوکہ ثابت ہو۔ ہوسکتا ہے کابینہ میں ’عقابی نگاہ‘ رکھنے والے عناصر ایک وزیر کے فیصلہ و اعلان کو ملکی مفاد کے خلاف سمجھتے ہوئے مسترد کردیں۔ امن و مان کی سنگین صورت حال میں حکومت کو دوٹوک بات کرنے اور ٹھوس اقدامات کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس آج شیخ رشید کے علاوہ  سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے بھی صورت حال کے حوالے سے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یہ سکہ بند فقرہ دہرایا کہ ’سب ٹھیک ہوجائے گا‘۔ اس قسم کا غیر واضح بیان بحران میں گھرے عوام کو مزید بے یقینی کا شکار کرتا ہے۔ اس وقت ملک کے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت چوکس ہے اور انہیں ایک چھوٹے سے مذہبی گروہ کی تشدد پسندی سے بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یوں تو کسی گروہ پر پابندی لگانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ یورپ و امریکہ میں اس بنیاد پر انتہا پسند گروہوں پر پابندی لگانے کی بجائے ان کاسیاسی طور سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اور اگر ایسے عناصر قانون توڑنے کی کوشش کریں تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ پھر کوئی وزیر یہ اعلان نہیں کرتا کہ یہ لوگ آکر ہم سے بات چیت کرلیں، نہ ہی کوئی حکومت قانون شکنوں کو معاف کرنے اور ان کے خلاف مقدمے واپس لینے کا اقدام کرتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے الزام میں پہلے بھی متعدد گروہوں پر پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن پھر وہی لوگ کسی نئے نام سے پرانا دھندا کرنے لگتے ہیں۔ تحریک لبیک کے خلاف پابندی لگانے کا مقصد اگر صرف لوگوں کو ’مطمئن ‘ کرنا ہے تو حکومت کو اس گمان میں نہیں رہنا چاہئے کہ اس طرح لوگ خوش ہوجائیں گے۔ جن گھروں کے چراغ گل ہوئے ہیں یا جو بے گناہ لوگ گزشتہ تین دنوں کے دوران طبی سہولت ، دوا یا آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں، ان کے پسماندگان کبھی حکومت کی لاچاری کو معاف نہیں کریں گے۔

ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ انہیں ایک شخص کو گرفتار کرنے یا ایک تنظیم پر پابندی لگانے سے کمزور نہیں کیا جاسکتا بلکہ حکومت کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ کسی بھی قسم کی انتہا پسندی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔ اس مقصد کے لئے پابندی لگانے کا اعلان کرنے کی بجائے یہ بتایا جائے کہ قانون شکنی، انسانوں کی ہلاکت اور شہری زندگی کو متاثر کرنے والوں کے خلاف کیا اقدامات کئے جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے وزیر داخلہ نے ملک میں فساد شروع ہونے کے تین روز بعد مختصر طور سے اس مسئلہ بات کی ہے اور اب بھی حکومت کی اصل حکمت عملی واضح نہیں ہے۔ ان حالات میں سعد رضوی کو حراست میں رکھنا اور تحریک لبیک پر پابندی لگانا بے معنی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت اور ریاستی اداروں کو بروقت ضرورت مذہب اور مذہبی گروہوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی سے تائب ہونا پڑے گا۔

آخر نومبر 2017 سے پہلے کون علامہ خادم حسین رضوی یا تحریک لبیک کے نام سے واقف تھا۔ اسی سال فیض آباد دھرنا کی شکل میں کسی جواز کے بغیر حکومت وقت کو عاجز و بے بس کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا تھا۔ اب اس کی بہت سی پرتیں کھل چکی ہیں اور خادم رضوی کو قومی اسٹیج پر اہم کردار بنانے والے کردار سایے میں ہونے کے باوجود پہنچانے جاچکے ہیں۔ اب تو اس مقدمہ میں دبنگ فیصلہ دینے والا سپریم کورٹ کا جج خود عدالت عظمی سے اپنے لئے انصاف مانگ رہا ہے۔

 اسی طرح گزشتہ سال 16 نومبر کو علامہ خادم رضوی کی اچانک رحلت سے پہلے ملک میں کون ان کے صاحبزادے سعد حسین رضوی کا نام جانتا تھا؟ اب اسی سعد رضوی کے نام پر ملک بھر کی سڑکوں پر خوں ریز کھیل جاری ہے۔ ملک میں یہ رویے اور حالات برقرار رہیں گے تو یہاں سعد رضوی پیدا ہوتے دیر نہیں لگتی۔ بلکہ ہر نوجوان کے دل میں ’سعد رضوی‘ بننے کی امنگ پلتی رہے گی۔ یہ عفریت کسی نئے نام سے لوگوں کا سکون برباد کرنے کے لئے موجود رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments