قرآن کے دو مرکزی مضامین


کیا قرآن مجید سے بڑھ کر امید جگانے والی اور کمزوروں کے لیے کھڑی ہونے والی دنیا میں کوئی اور کتاب ہے؟ یقیناً نہیں، اس سوال کا جواب ہر حال میں اور ہر زمانے میں نفی میں ہی ہو گا۔ قرآن بے شک کتاب ہدایت ہے۔ اور ’کتاب ہدایت‘ ہونا قرآن مجید کا سب سے اہم اور مرکزی تعارف بھی ہے۔ تاہم قرآن کے اور بھی اہم پہلو ہیں، اور بھی بہت سی جہتیں ہیں، نیز اور بھی کئی تعارف ہیں۔

قرآن کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ قرآن دنیا کے تمام لٹریچر میں سب سے بڑھ کر امید جگانے والی کتاب ہے۔ اور ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ کمزوروں اور ضعیفوں کے حق کے لیے کھڑی ہونے والی کتاب ہے۔

قرآن میں مذکور کسی بھی واقعے کو پڑھ لیں، قرآن کی اخلاقیات کو پڑھ لیں اور اس کے قوانین کا مطالعہ کر لیں، آپ دیکھیں گے کہ قرآن کے قوانین میں اور اس کی اخلاقیات میں مذکورہ دونوں عناصر پوری شدت کے ساتھ جمع ہیں، اسی طرح قرآن کے ہر واقعے میں امید کی جوت جگانے والی روشنی ہے، میسیج ہے اور دعوت ہے، اس کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کا جو مرکزی کردار ہے وہ اپنے وقت کے طاقتور افراد کے سامنے کمزوروں اور ضعیفوں کے حق کے لیے کھڑا ہو گیا ہے ، اپنی کمزوری کو دیکھے بغیر اور انجام کی پروا کیے بغیر۔

موسیٰ علیہ السلام اور یوسف علیہما السلام کے واقعات میں دیکھیں، کیا کوئی نوجوان یوسف علیہ السلام سے بڑھ کر بھی لاچار ہو سکتا ہے اور موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر بھی کوئی انسان کمزور و بے بس ہو سکتا ہے؟ یوسفؑ کنویں کی تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں اور موسیٰؑ دریا کی طغیانیوں کے رحم و کرم پر ہیں، اس سے بڑی لاچاری اور کیا ہو سکتی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام تو ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جب فرعون نے قبطی بچوں کی پیدائش پر ہی روک لگا رکھی تھی۔ ایسا سخت زمانہ تو شاید ہی کبھی آیا ہو اور شاید ہی کسی قوم نے ایسا زمانہ اور ایسا برا وقت دیکھا اور جھیلا ہو۔

مگر اللہ نے یوسف علیہ السلام کو کنویں کی تاریکی سے نکال کر ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بٹھا دیا اور موسیٰ علیہ السلام نے بالآخر اپنے وقت کے فرعون کو اپنے پروردگار کی مدد سے دریا برد کر دیا۔ دیکھیے ان واقعات کی ابتدا کیا ہے؟ اور انتہا کیا ہے؟ ابتدا انتہائی لاچاری اور مظلومیت والی ہے اور اختتام انتہائی امیدا افزا اور حوصلہ بڑھانے والا ہے۔ کیا ان واقعات کو پڑھنے والا کبھی بھی اور کیسے بھی حالات میں نا امید ی کا شکار ہو سکتا ہے؟ ان واقعات سے سبق لینے والا کبھی مایوسی کی اندھیری غار میں گرسکتا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔

قرآن میں جن انبیاء کرام کا تذکرہ ہے، ان سب کا حال یہی رہا ہے کہ وہ اپنے وقت کی بڑی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر رہے ہیں اور کمزوروں اور ضعیفوں کی آواز بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی اور اللہ سے تعلق پیدا کرنے کے طور طریقے سکھلائے، عبادات اور دعا و مناجات کے الفاظ سکھائے بلکہ اس سے بہت آگے بڑھ کر انہوں نے یہ بھی کیا کہ وہ ظالموں کے مقابلے میں کمزوروں کی آواز بن گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments