استنبول میں افغان امن کانفرنس،افغان طالبان کا شرکت سے انکار
افغانستان میں قیام امن کے لئے ترکی کی میزبانی میں دس روزہ کانفرنس 24 اپریل تا 04 مئی تک منعقد کرنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے لیکن افغان طالبان نے دوحہ معاہدے کے مطابق امریکہ کی جانب سے عمل درآمد نہ کیے جانے پر کسی بھی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ استنبول پراسس کے تحت افغان طالبان کا کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان اس امر سے مشروط کیا گیا ہے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق امریکی افواج کو افغانستان سے یکم مئی تک مکمل انخلاء کرنا تھا، تاہم امریکی صدر نے معاہدے کے مطابق عمل نہ کرتے ہوئے، اپنی افواج کو مزید چار مہینے کے لئے افغانستان میں رہنے کا منصوبہ ظاہر کیا ہے۔
جب کہ نیٹو نے امریکی پیروی کے مطابق افواج کے انخلاء کا اعلان کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق صدر جوبائیڈن نائن الیون واقعے کی یادگار پر اپنے خطاب میں ستمبر 2021 کو مکمل انخلاء کا اعلان کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق امریکی صدر کی کوشش ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی تقلید کرتے ہوئے نائن الیون کے تاریخی دن پر افغان طالبان کے ساتھ مل کر اعلان کریں، واضح رہے کہ سابق صدر ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ طرز پر افغان طالبان، غنی حکومت کا ثالث بن کر معاہدے کا اعلان کرنا تھا، لیکن افغان طالبان نے نائن الیون واقعے کی ذمے داری و معافی مانگنے کی شرط سے انکار کرتے ہوئے، امریکی صدر کے منصوبے پر آنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد صدر ٹرمپ نے معاہدہ کو معطل کر دیا، اور دوحہ معاہدے پر عین وقت پر امیدوں کے برخلاف دستخط نہ ہو سکے۔
افغان طالبان نے امریکہ کی جانب سے معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد سفارتی محاذ پر صدر ٹرمپ کے عزائم و مقاصد سے عالمی برادری کو آگاہ کرنے کے لئے فوری طور پر سب سے پہلے روس کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ دوحہ معاہدے کی تمام شقوں پر اتفاق رائے پیدا ہو چکا تھا، تاہم زلمے خلیل زاد کی جانب سے جب اشرف غنی کو معاہدہ کو تسلیم کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا، نیز اطلاعات کے مطابق صدر غنی نے امریکہ پر دباؤ ڈالا کہ اگر معاہدے میں انہیں شریک نہیں کیا گیا تو وہ افغانستان میں امریکی مفادات کا دفاع نہیں کریں گے۔
صدر ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ طرز پر افغان طالبان و غنی انتظامیہ کو واشنگٹن بلایا، تاہم افغان طالبان نے سابق صدر کے منصوبے کا ادراک کیا کہ امریکی صدر اپنے الیکشن کی کامیابی کے لئے انہیں نائن الیون کی آڑ میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یادگار نائن الیون واقعہ کے موقع پر غنی انتظامیہ و افغان طالبان کے وفود کے ہمراہ اگر صدر ٹرمپ اعلان کرتے تو اس سے افغان طالبان کی عالمی بنیادوں پر پوزیشن کمزور ہو جاتی، نیز انہیں اپنے مسلح مزاحمت کاروں کی جانب سے شدید خفقان کا سامنا بھی کرنا پڑتا، جو ان کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کا باعث بن سکتا تھا، لہٰذا اس امر کا ادراک کرتے ہوئے کہ اگر انہوں نے رسمی طور پر بھی اپنی پشیمانی کا اظہار امریکی دورے میں کر دیا اور غنی حکومت سے مفاہمت کر لی تو ان کی تمام جدوجہد کو نقصان پہنچے گا، لہٰذا ذرائع کے مطابق امریکہ کے منصوبے پر عمل نہ کرنے پر اشرف غنی کو عین موقع پر امریکہ آنے سے روک دیا گیا، جس کی وجہ سے صدر غنی کو شدید دھچکا پہنچا اور انہوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
روس کی میزبانی میں دوسری امن کانفرنس کے موقع پر افغان طالبان اپنے ٹھوس موقف پر قائم رہے کہ امریکہ دوحہ معاہدے کے مطابق عمل کرے، بصورت دیگر افغان طالبان اپنا ردعمل دینے میں آزاد ہوں گے، گزشتہ دنوں افغان طالبان نے اپنی عسکری قوت کا بھرپور مظاہرہ کر کے عندیہ دیا کہ اگر امریکی افواج نے مکمل انخلاء طے شدہ اوقات کے مطابق نہیں کیا تو انہیں نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن کو پینٹاگون اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے باور کرایا جا چکا تھا کہ اگر کسی مربوط منصوبے کی یقین دہانی کے بغیر امریکی افواج کو بلایا گیا تو مختصر عرصے میں افغان طالبان، افغانستان کا نظم و نسق سنبھال لیں گے اور باقی ماندہ علاقے پر بھی قابض ہو جائیں گے، صدر بائیڈن نے انہیں خدشات کے تحت منصوبہ بنایا کہ غنی انتظامیہ کو عبوری حکومت کے قیام کے لئے رضامند کیا جائے، نیز افغان طالبان کو عبوری حکومت میں شریک کر کے فائر بندی کا اعلان کرا دیا جائے، جس کے بعد امریکہ کے لئے افغانستان سے ”سرخرو“ ہو کر جانا سہل ہو جائے گا۔
لیکن امریکی منصوبے پر اشرف غنی نے عدم اعتماد کرتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا اور ترکی پراسس میں کانفرنس کے موقع پر تین مراحل پر مشتمل منصوبہ تجویز کر کے پیش کرنے کا اظہار کیا، جس میں افغان طالبان کو الیکشن میں حصہ لے کر اقتدار کے حصول پر راضی کرنا تھا، تاہم یہاں انہوں نے زمینی حقائق کو نظرانداز کیا کہ افغان طالبان کے سامنے چار مرتبہ جمہوری بنیادوں پر صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے اثر رسوخ رکھنے کے باوجود حصہ نہیں لیا، اب موجودہ صورت حال میں کہ امریکہ جیسی عالمی طاقت ان سے دوحہ میں مفاہمتی معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی تو وہ صدارتی انتخابات و ووٹ کے ذریعے اقتدار کے لئے کس طور راضی ہوسکتے ہیں۔
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان اصولی بنیادوں پر گزشتہ برس معاہدہ ہو چکا ہے، جس کے مطابق امریکہ کو اپنی افواج کو یکم مئی 2021 میں افغانستان سے نکالنا ہے، اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کر کے افغان طالبان کے رہنماؤں کو بلیک لسٹ و سفری پابندی کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنا ہے، جب کہ افغان طالبان نے معاہدے کے مطابق غیر ملکی افواج پر حملے نہ کرنے پر عمل درآمد کیا، جس کی تصدیق خود امریکی حکام کر چکے ہیں، تاہم تشدد کے بڑھتے واقعات میں داعش جیسی انتہا پسند تنظیم کی جانب سے عوام کو نشانہ بنانے کی روش نے افغانستان کا امن مخدوش رکھا ہوا ہے، کیونکہ جب تک ریاست مضبوط نہیں ہو گی، کوئی بھی گروپ، تنظیم و جماعت مکمل امن قائم نہیں کر سکتی۔
افغان طالبان کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ روس اور ایران کے تعاون سے مشترکہ دشمن داعش (خراساں شاخ) کے خلاف ٹھوس کارروائی کر سکے، دوسری جانب پاکستان، انتہا پسندوں و دہشت گرد گروپوں کو واپس پاکستان میں داخل ہونے سے روکے گا، ماضی کے بانسبت پاکستان کی ریاستی اداروں نے افغان سرزمین پر چھپے ہوئے ملک دشمن عناصر کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنائی اور مختلف آپریشن کر کے دہشت گردی کے بڑے واقعات کو روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے، اس کے علاوہ چین کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ میں بڑے شراکت دار ہونے کی حیثیت سے افغانستان میں مستحکم و پائیدار امن پاکستان کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے، ان حالات میں اتفاق رائے سے افغانستان میں بننے والی نئی انتظامیہ کے ساتھ دونوں ممالک انتہا پسندوں کے خلاف مل کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
استنبول پراسس کی کانفرنس میں افغان طالبان کی عدم شرکت سے افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا، کیونکہ افغان طالبان ہی وہ اہم فریق ہے، جنہیں افغانستان کے نئے نظام و انصرام کے لئے دیگر افغان اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنا ہے تاکہ فائر بندی ممکن ہو سکے، اگر افغان طالبان شرکت نہیں کرتے تو دس روزہ کانفرنس میں ہونے والی مشق یک طرفہ کہلائے جائے گی، اہم امر یہ بھی سامنے ٓٓآ چکا کہ امریکہ معاہدے کے برخلاف افغانستان میں فوجی انخلاء نہیں کررہا، اسی مہینے میں کانفرنس کے ذریعے افغان طالبان سے حتمی تاریخ میں توسیع کی توقع بھی کیا جا رہی تھی، اگر 24 اپریل تک افغان طالبان کو کانفرنس میں شریک ہونے پر رضا مند نہیں کیا جا سکا تو خدشات ہیں کہ افغان طالبان، امریکی افواج پر ایک بڑا حملہ براہ راست کر سکتے ہیں، ان حالات میں غیر ملکی افواج کا انخلاء کھٹائی میں پڑ سکتا ہے اور امریکہ افغان طالبان کے ردعمل پر دوبارہ معاہدے پر نظرثانی کرتے ہوئے تمام امن پراسس معطل کر سکتا ہے۔
جو بائیڈن ستمبر 2021 میں افواج کے انخلاء کا اعلان کر کے افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ کر بھی جا سکتے ہیں، اس ضمن میں امریکہ کے لئے یہ کہنا آسان ہو گا کہ انہوں نے فریقین کو مواقع دیے، لیکن اس کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا، لہٰذا افغانستان میں مزید قیام کے لئے وہ تیار نہیں، اس صورت میں غنی انتظامیہ پر براہ راست دباؤ آئے گا، کیونکہ امریکہ ان کی معاونت کے لئے ساتھ نہیں دے گا، نیز ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ انخلاء کے بعد افغانستان کو انفرا اسٹرکچر و دیگر جاری منصوبوں کے کتنی و کب تک امداد دے گا۔
عالمی طاقتیں، استنبول پراسس کی کانفرنس پر نظر جمائے بیٹھی ہیں کہ طویل کانفرنس میں افغانستان میں امن کا روڈ میپ واضح ہو سکے گا، تاہم افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے میں تمام امور طے کیے جا چکے ہیں، صرف امریکہ کی جانب سے اس پر عمل درآمد ہونا ہی افغانستان میں امن کی ضمانت دے سکتا ہے، غنی انتظامیہ کی فوجی امداد جاری رکھنے کا فیصلہ پینٹاگون ہی کرے گا، لیکن یہ امر قابل غور ہے کہ امریکہ و نیٹو کی موجودگی و جدید ترین بھاری ہتھیاروں کے باوجود افغان طالبان کو زیر نہیں کیا جا سکا تو امریکہ کی جانب سے اپنے مفادات پورے ہونے کے بعد کس طور ممکن ہے کہ کابل انتظامیہ افغان طالبان کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے، یقینی طور پر غنی انتظامیہ کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا ہو گا، اس حوالے سے کابل انتظامیہ، افغان طالبان مخالف جنگجوؤں کے ہمراہ ایک خانہ جنگی کی فضا پیدا کر سکتی ہے، لیکن اس حوالے سے عالمی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کا افغانستان سے قدم اٹھانا، غنی انتظامیہ کی حکومت کے خاتمے کی جانب گامزن ہونا، پہلا دن شمار ہو گا۔
افغان اسٹیک ہولڈرز کو افغانستان میں امن کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے، یہاں یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ جانتا ہے کہ افغان طالبان کو وہ سیاسی و سفارتی محاذ پر بھی دباؤ میں نہیں لا سکا، اس لئے اس نے روس و ترکی کو جنگ بندی سمیت دیگر معاملات پر آگے آنے کی درخواست کی، اقوام متحدہ کی منظوری سے اہم امن کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے اہم نکتہ امریکہ کا اپنے وعدوں پر عمل کرنا ضروری خیال کیا جا رہا ہے، افغانستان کے حل کے لئے اب تک کی تمام کوششوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، کیونکہ اس سے صرف افغانستان ہی متاثر نہیں ہو رہا بلکہ پورا خطہ مسلسل جنگ و بے یقینی کا شکار ہے، جسے ختم کرنے کے لئے دونوں فریقین کا دوحہ معاہدے کے مطابق وعدوں پر عمل درآمد سب کے حق میں بہتر ہے۔
- اسرائیل اور فلسطین کے اندر داخلی مسائل - 16/03/2024
- حکمران اتحاد و حزب اختلاف کو پریشان کن چیلنج درپیش - 10/03/2024
- معلق پارلیمنٹ کا ظہور، بے اطمینانی - 22/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).