وادی لولاب کا دکھ


سرسبز اونچے حسین کوہساروں کے درمیان حسین ندیوں سے مزین مرغزاروں کا حسن لکھیں یا دکھ لکھیں۔ وہ فلک جو برسوں سے اس وادی لولاب کی قسمت کا چشم دید گواہ ہے ، اس وادی پہ اس کی مہربانیوں پہ کبھی کمی نہیں آئی۔ شاید یہ ایک ادنیٰ سی کوشش ہے اس کی کہ وہ زمین کے ظالم باسیوں کے اس جنت نظیر وادی کو دیے جانے والے گہرے زخموں پہ اپنی مہربانیوں کا مرہم رکھ کر اسے دکھ سے آزاد رکھنے کی کوشش کرے۔ لیکن دکھ تو اس وادی کی روح میں پیوست ہو چکے ہیں، روح میں جو چیز سرایت کر جائے وہ کبھی نکالے نہیں نکلتی اور دکھ تو پھر بھی دکھ ہیں، وہ صرف روح میں اترتے ہی نہیں بلکہ اسے گہرے زخم بھی عطا کر دیتے ہیں۔

جس وادی کی سرسبز و شاداب میدانوں پہ جوان لہو بہتا ہو، جس کی آغوش میں روز اس کے کئی باسی اس کی محبت اور آزادی کی خاطر سینے پہ اس کے عشق کا داغ لیے آ کر پناہ لے لیتے ہوں ، اس کے کرب کا اندازہ صرف وہی ماں لگا سکتی ہے جس نے اپنی جوان اولاد کو اپنے سامنے لہو میں تڑپتے، جان سے جاتے دیکھا ہو۔

آہ! مگر کشمیر جنت نظیر کی کئی مائیں اس کرب سے گزر چکی ہیں۔ مگر آفرین ہے ان ماؤں پہ جو اپنی ساری اولاد اپنے سامنے لٹا کر بھی اپنے استقلال میں کوئی کمی نہیں آنے دیتیں۔ ان کے صدائیں آزادی کے نعروں کے ساتھ مزید بلند سے بلند ہونے لگتی ہیں۔ ان کا ہر اشک امید کے موتی کی طرح وادی لولاب کے سینے میں اترتا چلا جاتا ہے۔ ظلمتوں کے سائے میں بسنے والے امید سحر کا دامن کسی صورت ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ صبح آزادی کی تمنا ان کی آنکھوں میں ستاروں کی مانند جگمگاتی ہے۔

صدیوں پہلے قابض جابر حکمرانوں نے 75 لاکھ میں اس جنت کا سودا یہ سوچ کر کیا تھا کہ وہ اس جنت اور اس کے باسیوں کو غلامی کی زنجیریں پہنا کر ان پہ ایک خدا بٹھا رہے ہیں مگر انہیں کہاں معلوم تھا آزاد روحوں کو قید کرنا صرف مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اگر آزادی کی کوئی قیمت نہیں تو آزاد ذہن بھی انمول ہیں۔ انہیں فروخت کرنا ناممکن ہے۔

اس قید میں ان آزاد روحوں پہ ہر طرح کے ظلم ڈھائے گئے۔ مگر جب ذہن آزاد ہوں تو انہیں قید نہیں کیا جا سکتا اور اگر ذہن ہی غلامی پہ مائل ہوں تو ان کی آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سو ان آزاد ذہنوں نے غلامی کی صداؤں پہ لبیک کہنے کے بجائے علم بغاوت بلند کر ڈالا۔ وادی لولاب بہت خوش تھی کہ اس پہ بسنے والے کوئی عام لوگ نہیں بلکہ اعلیٰ سوچ کے آزاد لوگ ہیں۔ جنہیں آزادی اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ جن کے لیے آزادی کی کوئی قیمت نہیں۔

وقت بدلا جابر بھی بدلے۔ ظلم کی شدت بڑھتی چلی گئی۔ اب جو جابر آیا وہ صرف جابر ہی نہیں مکار قابض بھی تھا۔ جو دنیا کے مسیحاؤں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ظلم و ستم کی تمام حدود پار کرنے پہ تل چکا تھا۔ اس کے ظلم کی داستانیں سن کر پہاڑ بھی لرز اٹھتے تھے۔ کبھی معصوم کلیوں سے گھنے پیڑوں کی مانند سایہ چھین لیا گیا ، کبھی بوڑھوں سے ان کا سہارا لوٹ لیا گیا۔ کبھی ماؤں سے ان کے جگر گوشے چھینے گئے تو کبھی اس مقدس وادی کی بیٹیوں کا تقدس پامال کیا گیا۔ تو کبھی جنت نظیر وادی پہ گمنام قبروں کی دریافت نے وادی کے ہر شخص کی روح کو جھنجھوڑ ڈالا۔ اس بدنصیب خطے نے شاید ہی کوئی دکھ ہو جو نہ دیکھا ہو۔

فلک پہ ہر شام لہو کی سرخی شام غریباں کا پیام بن کر ماتم کے کئی نئے در کھول جاتی ہے۔ کہیں خون کی برسات گھروں کے گھر بہا لے جاتی ہے۔ کہیں ظلم و جبر کے دیوتا قہر بن کر معصوم خلق پہ نازل ہو جاتے ہیں تو کہیں کوئی وحشی جانور امن کے پرندوں کے پر نوچ ڈالتا ہے۔ گلشن پرافتاد کے اشجار آندھیوں کے تھپیڑے سہہ سہہ کر اپنے وجود کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پھول ڈرے سہمے ہیں کہ جانے کب کون آ کر انہیں بے دردی سے مسل دے۔ مگر مسیحا ہیں کہ خاموش۔ منصف ہیں تو چپ۔ غمخوار ہیں کہ تماش بین۔

چناروں کی یہ زمین غلامی کی پت جھڑ کے خلاف اپنے جوانوں کو خزاں رسیدہ پتوں کی طرح برسوں سے قربان کر رہی ہے لیکن اس کا بین سننے کے لیے دنیا کے مسیحاؤں کے کان بہرے، آنکھیں اندھی اور زبان گونگی ہو چکی ہے۔ خطہ کشمیر کے در و دیوار چلا چلا کر اقوام عالم کے مصنفوں سے انصاف کی التجا کر رہے ہیں مگر شاید اس خطہ کشمیر کو نہ انصاف کا حق ہے نہ بولنے کا اور نہ ہی جینے کا۔ جو لوگ آگ کے بلند ہوتے شعلے دیکھ کر آج اپنے دامن بچا رہے ہیں انہیں کیا معلوم آگ جب ایک آشیانے میں لگتی ہے تو ارد گرد کی ہر شے کو بھی جھلسا کر راکھ کر دیتی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس نہ یہ بات آگ لگانے والے جانتے ہیں اور نہ ہی تماشا دیکھنے والے۔

حسین وادی اب بھی پرامید ہے کہ وہ بے بسی کے جس الاؤ میں سلگ رہی اس کی تپش کبھی نہ کبھی اہل دنیا کی بے حسی کو موم کرے گی۔ اداس وادی کے پنچھی اس بات کے متقاضی ہیں اس خطے کے رنگ انہیں پھر سے لوٹا دیے جائیں۔ خونی رنگ تو برسوں سے معصوم پنچھیوں کی سفیدی کو داغدار کر رہا ہے لیکن ان کی آنکھیں اب اس وادی کو اس کے حقیقی رنگ میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ سبز رنگ جو اس وادی کے حسن اور زرخیزی کی علامت ہے۔

وادی لولاب کے دکھوں پہ صفحات کے صفحات بھی لکھ دیے جائیں تو بھی ان دکھوں کا ازالہ ناممکن ہے ،لیکن ایک دکھ وادی کے ہر دکھ پہ حاوی ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ اس وادی کا جوان لہو جب اپنی جان کی پروا کیے بنا اپنی دھرتی کے دفاع میں قلم چھوڑ کر ہتھیار اٹھا لیتا ہے تو معصوم جانوں پہ ظلم ڈھانے والے اس پہ دہشت گردی کا لیبل لگا دیتے ہیں۔

جب اس وادی کے انسانوں کو باقی دنیا کے انسانوں کی مانند نہ جینے کا حق ملے گا، نہ بولنے کا اور نہ ہی آزادی کا۔ جب بنیادی انسانی حقوق کو اس خطے پہ لاگو ہی نہ کیا جائے جب اپنی مسیحائی پہ فخر کرنے والے اس کے زخموں پہ مرہم نہ رکھ سکیں۔ جب دنیا کی منصفی کے دعوے دار اس خطے کے انسانوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو جائیں، وہاں کی نوجوان نسل کیا بندوق اٹھانے کے بجائے اپنے جابروں کی راہوں میں پھول پچھائے گی؟

آزادی مانگنا کوئی جرم نہیں، حق ہے اور حق جب آسانی سے نہیں مل پاتے تو چھین لیے جاتے ہیں۔ دنیا کے گونگے پن کا جواب اس خطے کے جوان اپنی صداؤں کی بلندی سے دیتے ہیں۔ اپنے سینے پہ بندوق کی گولی سجا کر دنیا کی بزدلی کو للکارتے ہیں۔ جب ظالم خواب دیکھنے والی آنکھیں چھین لیتے ہیں تو یہاں کے نوجوان سراپا خواب بن کر اپنی آزادی کے نعرے بلند کرتے ہیں۔

ظمتوں کے سفیر کب پسند کرتے ہیں یہاں روشن آنکھوں والے امید کی روشنی ہر دم اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہیں۔ بزدل کا ہتھیار اس کی ظلمت ہوتی ہے سو وہ روشنی کے سفیروں سے روشنیاں چھیننے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں کیا معلوم روشنی کو ظلمتوں سے للکارنا ناممکن ہے۔

وادی لولاب بے بسی کی تصویر بنے اہل دنیا سے، اپنے مسیحاؤں سے، چارہ گروں سے، منصفوں سے سوال کر رہی ہے کہ کب تک امن کے پنچھی اس خطہ زمین سے یوں ہی روٹھے رہیں گے۔ کب تک سحر خونی سویروں کا استقبال کرتی رہے گی۔ کب تک یہ زمین شام غریباں کا کرب سہتی رہے گی۔ حسینیت کا پرچم تھامے اس خطے کے لوگ کب تک کرب و بلا کے اس دور سے گزرتے رہیں گے۔ ظلم و جبر کی اس آگ میں کب تک یہ چنار سلگتے رہیں گے۔

کب تک نسل کشی کے لیے قتل عام سے اس دھرتی کو داغدار کیا جاتا رہے گا۔ کب تک چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا جاتا رہے گا۔ وادی لولاب تو ظلم سہتے سہتے سراپا سوال بن چکی ہے۔ لیکن دنیا کے ہونٹوں کی چپ اگر اب بھی ختم نہ ہوئی تو اس خاموشی کا خمیازہ سب کو ہی بھگتنا ہو گا۔ چپ کی یہ لہر آرام پسند دنیا کا سکھ چین بھی اپنے ساتھ بہا لے جائے گی۔ پھر افسوس سے ہاتھ ملنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

اب بھی وقت ہے کہ ان امن پسند صداؤں پہ لبیک کہا جائے۔ وادی لولاب کے دکھوں پہ مرہم رکھ کر اسے آزادی کا اہم اور بنیادی ترین حق دلوایا جائے تاکہ یہ دنیا امن و محبت کا گہوارہ بن سکے اور وادی کی آغوش میں سوئے جوانوں کو چین مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments