آئی سی یو سے ایک درد ناک کہانی


”سر پلیز ایک بار پھر کوشش کر لیں آپ لوگ۔ ایک بار دوبارہ ٹیوب ڈال دیں پلیز آپ کو اللہ نبی کا واسطہ“

دکھ اور کرب کے مارے بچوں کی طرح بلکتے ہوئی اس التجا نے اس وقت مجھ سمیت پورے ماحول کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، رات بھر جاگنے کے بعد گزرتی شب کے اس آخری پہر میں نیند کا جو بوجھ میری آنکھوں پر حاوی تھا ، یکلخت غائب ہو گیا۔

وہ دوڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور میری کرسی کے ساتھ زمین پر آن کر گری تھی۔
اس کے ہاتھ کبھی میرے قدموں کی طرف جانے لگتے اور کبھی دونوں ہاتھوں کو جوڑ کرمیری منت کرنے لگتی۔
سلیقے سے اوڑھا ہوا دوپٹہ اس کی آنکھوں سے مسلسل بہنے والے آنسوؤں نے تر کر دیا تھا۔

اس کا بھائی اسے سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا لیکن وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر کرب سے چیخی۔ ”میں بات کر رہی ہوں ناں۔ پیچھے ہٹ جاؤ تم۔“

”سر آپ پلیز دوبارہ کوشش کریں ایک بار دوبارہ بابا کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیں۔ ہمارا کوئی بھی نہیں ہے ان کے سوا۔“

آپ لوگ پلیز باہر چلیں ہم دوبارہ دیکھ لیتے ہیں۔

اس لڑکی کی فریاد میں اس قدر شدت اور سچائی تھی کہ ایک لمحے کے لئے مجھے لگا کہ شاید عرش ہل جائے، ابھی معجزہ ہو اور اس کے والد اٹھ کر بیٹھ جائیں۔ بیٹی کو گلے لگائیں اور کہیں کہ بیٹا۔ رو مت میں آ گیا!

اس کی حالت دیکھ کر میرا جی چاہتا تھا کہ میں کسی طرح، کچھ بھی کر کے اس کے والد صاحب میں دوبارہ جان ڈال سکوں۔ لیکن یہ تو خدا کے کرنے کا کام ہے ہم انسان بھلا کر بھی کیا سکتے ہیں۔

میں ان دونوں بہن بھائی کو لے کر باہر آ گیا۔

وہاں ڈاکٹر سبیلہ کو دیکھ کر وہ ان کے قدموں میں بیٹھ کر گڑگڑانے لگی ”میڈم پلیز آپ تو کچھ کریں ناں۔ آپ بھی تو ایک بیٹی ہیں، کہہ دیں ناں میرے بابا کو کچھ نہیں ہوا۔ پلیز! آپ ایک بار پھر ٹیوب ڈال کر تو دیکھیں۔“ وہ بے بسی سے بار بار ایک ہی التجا کر رہی تھی۔

ڈاکٹر سبیلہ بھی چند لمحے کو تو ساکت ہو گئیں پھر انہوں نے خود کو سنبھالا، دونوں بانہوں سے تھام کر اسے کھڑا کیا اور گلے سے لگا لیا۔

اب آپ بس اپنے بابا کے لئے دعا کرو۔ اللہ ان کی اگلی منازل آسان کرے!

وہ مسلسل روئے جا رہی تھی اور سنبھالے نہ سنبھلتی تھی ، تمام مریضوں کے لواحقین اپنے مریضوں کی تکلیف بھول کر اس لڑکی کی حالت پر افسردہ ہو گئے تھے۔

اس کے والد چند دن پہلے ہی آئی سی یو میں انتہائی تشویشناک حالت میں لائے گئے تھے۔ اکھڑی سانس۔ خشک حلق۔ زبان سوکھ کر کانٹا ہو چکی تھی۔ جسم میں آکسیجن کی شدید کمی۔ ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا نیلا رنگ۔ ایکسرے دیکھا تو دونوں پھیپھڑے ستر فیصد تک متاثر تھے۔

فوری طور پر ان کو وینٹی لیٹر کے ذریعے آکسیجن کی فراہمی شروع کی گئی لیکن ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ کے مصداق ان کی حالت مسلسل بگڑتی گئی۔ چار دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد آخر کار دنیا سے رخصت ہو گئے۔

کورونا وائرس کی حقیقت جاننی ہو تو اس بیٹی سے جا کر پوچھ لیں کہ کورونا ہے یا نہیں۔ اس کی ہلاکت خیزی دیکھنی ہو تو آئیں اور ان مریضوں کی حالت دیکھیں جو چوبیس گھنٹے آکسیجن پر ہونے کے باوجود بھی تڑپ رہے ہیں۔

اپنے لیے نہ سہی تو اپنے گھر والوں کے لئے ہی سہی۔
احتیاط کریں!
ماسک پہنیں، سماجی دوری اپنائیں، ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھوئیں۔ ورنہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments