اردو زبان و ادب کے ممتاز ادیب، نقاد اور دانشور ڈاکٹر جمیل جالبی کی دوسری برسی


تاریخ اردو ادب کی تخلیق سے اردو ادب کو جلا بخشنے والے ڈاکٹر جمیل جالبی کو بچھڑے آج پورے دو برس گزر گئے، اگرچہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی علمی و ادبی خدمات کا احاطہ ممکن نہیں تاہم قومی انگریزی اردو لغت اور مثنوی کدم راؤ پدم راؤ جیسے بے مثال کام نے انہیں اردو ادب کی تاریخ میں امر کر دیا ہے۔ انہوں نے صرف اردو لسان و ادب کے میدان میں ہی اپنی تفہیم و دانش کے جوہر نہیں بکھیرے بلکہ ہر ادارے میں اپنے نقوش ثبت کیے ہیں۔

پاکستان میں علم و حکمت، فکر و ثقافت اور زبان و ادب کے ممتاز ادیب، نقاد اور دانشور، جنہوں نے اپنی اعلیٰ سرکاری ذمہ داریوں کے علاوہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان اور اردو لغت بورڈ کے صدر نشین کی حیثیت میں مثالی علمی و تعلیمی اور انتظامی خدمات سرانجام دیں۔

افسوس جالبی صاحب کی شخصیت اور ان کے علمی وادبی اور انتظامی کارنامے جو اپنے اپنے دائرے میں تاریخ ساز بھی کہے جا سکتے ہیں، ان کے اب تک کماحقہ ستائش و اعتراف مظاہر علمی و تصنیفی لحاظ سے سامنے نہیں آئے یا اس جانب ابھی تک مصنفین و محققین اور نقادوں نے توجہ نہیں دی کہ جالبی صاحب مطالعات و تحقیقات کا موضوع اپنی حیثیت کے مطابق بنتے۔

یقیناً مختلف وقتوں میں مختلف نوعیتوں اور ضرورتوں کے تحت ان کی خدمات کے اعتراف و تعارف پر مضامین و مقالات لکھے گئے اور مختلف سطحوں کے چند سندی مقالات بھی جامعات میں ان کی خدمات پر لکھے اور پیش کیے گئے لیکن واقعتاً کسی طور پر بھی یہ سب ان کے شایان شان نہیں کہے جا سکتے۔ بس ایک کاوش ان کے فرزند ڈاکٹر خاور جمیل نے ضرور انجام دی اور ایک ضخیم مجموعہ مقالات بعنوان: ”کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا“ مرتب و شائع کی۔ جس میں جالبی صاحب کی متنوع خدمات کا ایک احاطہ مختلف لکھنے والوں کی جانب سے مضامین کی صورت میں کیا گیا ہے ۔

جمیل جالبی بیک وقت تاریخ دان بھی تھے، محقق بھی، ناقد بھی تھے، مترجم بھی، بچوں کے ادیب بھی تھے اور پاکستانی کلچر کے نباض بھی۔ انھوں نے اردو ادب کی جس صنف میں کام کیا اس کو بنیاد بنا کر ایک مشعل روشن کر دی۔ ان کی ہر تحریر اور ہر کتاب اردو ادب کے طالب علموں اور محققین کے لیے راہ ہدایت بھی ہے اور نسخہ کیمیا بھی۔

ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ، جو اپنی نوعیت کی حد تک اپنی مثال آپ ہے، وہ ان کی اردو زبان و ادب کی تاریخ نویسی یا ان کی انتہائی وقیع تصنیف ”تاریخ ادب اردو“ ہے، جو بدقسمتی سے اگرچہ چار ضخیم جلدوں میں لکھی گئی اور شائع بھی ہوئی لیکن نامکمل رہ گئی۔

لیکن جس حد تک بھی یہ لکھی جا چکی، یہ اردو زبان و ادب کی وہ بے مثال اور واحد تاریخ ہے۔ جالبی صاحب کی اولین تخلیق ’سکندر اور ڈاکو‘ تھی جو انہوں نے 12 سال کی عمر میں تحریر کی، اسکول کے زمانے میں اس کہانی کو تمثیل کی صورت میں اسٹیج پرپیش کیا گیا۔ ’جانورستان‘ ڈاکٹر جمیل جالبی کی شائع ہونے والی پہلی کتاب ہے جو کہ جارج آرویل کے ناول ”اینیمل فارم“ کا اردو ترجمہ ہے۔ ’ارسطو سے ایلیٹ تک‘ ، اور ’ایلیٹ کے مضامین‘ جیسی کتابیں ان کے مغربی علوم اورمغربی مفکرین کے دلدادہ ہونے کے نمایاں ثبوت ہیں۔

مثنوی نظامی دکنی (المعروف کدم راؤ پدم راؤ) راجا اور وزیر کی داستان ہندو دیومالا پر مبنی ہے جس کا پس منظر اساطیری ہے، یہ نسخہ دنیا بھر میں اس کتاب کا واحد نسخہ ہے۔ تاریخ کے ایک باب سمیت ( فخرالدین نظامی دکنی، بحوالہ بابائے اردو مولوی عبدالحق) مثنوی کے بے زبان تعارف کو ڈاکٹر جمیل جالبی نے قوت گویائی دے دی اور بابائے اردو کی دشوار ترین اور اہم وصیت کی تکمیل کی۔ چھ سو سال قبل تحریر کیا گیا یہ نسخہ اردو کی پہلی معلوم تصنیف ہے جسے 900 لغات پردیدہ ریزی و محنت کے بعد 11 سال کے طویل عرصے میں مکمل کیا گیا۔

گزشتہ صدی میں ترقی و تبدیلی سے اردو زبان کو ہم آہنگ کرنے کے لئے ایسی لغت کی ضرورت تھی جو علمی و سائنسی تقاضوں کی تکمیل کرے۔ ’قومی انگریزی اردو لغت‘ میں دنیا بھر سے اڑھائی لاکھ سے زائد انگریزی الفاظ و محاورات اور 200 سے زائد علوم و فنون کی اصطلاحات شامل کی گئی ہیں، قدیم و جدید معنی کے ساتھ طبی، سائنسی و تکنیکی الفاظ کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں کے بیشتر الفاظ جو اردو میں شامل ہوئے لغت میں بھی یکجا کیے گئے تاکہ لسانی، ثقافتی و فکری یکجہتی کو فروغ ملے، ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق یہ عمل قومی زبان کے مزاج کے عین مطابق ہے۔

ان کی دیگر اہم تصانیف میں ادبی تحقیق، فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ، پاکستان میں ذریعہ تعلیم کا مسئلہ، معاصر ادب، ہند و پاک میں اسلامی جدیدیت، برصغیر میں اسلامی کلچر، قومی زبان: یک جہتی، نفاذ اور قومی مسائل، برصغیر میں اسلامی جدیدیت، ادب، کلچر اور مسائل، نئی تنقید، بزم خوش نفساں، تنقید اور تجربہ، پاکستانی کلچر، محمد تقی میر، میرا جی۔ ایک مطالعہ، کلیات میرا جی جیسی کتابیں شامل ہیں۔

جالبی صاحب نے ایک ایم اے انگریزی میں کیا، دوسرا ایم اے اردو میں کیا، پی ایچ ڈی کیا اور ڈی لٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ملازمت کی ابتدا ہیڈ ماسٹری سے کی مگر جالبی صاحب کی منزل یہ نہیں تھی۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور پھر انکم ٹیکس میں کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ قدرت نے انھیں جس کام کے لیے منتخب کیا تھا وہ منزل اگرچہ دور نہیں تھی مگر اب بھی کچھ فاصلے پر تھی۔

جالبی صاحب نے جامعہ کراچی میں شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے سربراہ کی اسامی کے لیے درخواست دی کیونکہ علم و ادب کے شخص کے لیے انکم ٹیکس کمشنر کا عہدہ بھی کارآمد نہیں ہوتا بلکہ اسے اس میں بھی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ پھر سب نے دیکھا کہ جو شخص جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے سربراہ کے لیے قبول نہیں ہوا، وہ جامعہ کراچی کے سربراہ بن کر آ گئے۔ یہی عہدہ جالبی صاحب کے شایان شان تھا۔

ان کے دور میں جامعہ کراچی پہلی مرتبہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی، انتظامی اور مالی مشکلات پر اس طرح قابو پایا کہ جامعہ خسارے سے نکل کر فائدے میں آ گئی اور بالآخر اندر کے علاوہ باہر کے لوگوں نے بھی جالبی صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا مانا۔

ان کا ذاتی گھر بھی ”ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری“ قرار دیا جاسکتا تھا لیکن انہیں جامعہ کراچی سے دلی لگاؤ تھا اور وہ آئندہ نسلوں کو کتاب آشنا کرنا چاہتے تھے ۔ اس لئے اپنا سارا علمی ورثہ جامعہ کراچی میں ”تحقیقی کتب خانہ“ میں محققین، طلباء، اساتذہ کے لئے دے دیا۔ ”ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری“ کا سنگ بنیاد 14 اگست 2016ء کو انہیں کے ہاتھوں رکھا گیا لیکن 18 اپریل 2019ء کو وہ ڈاکٹر خاور جمیل کو یہ فرض سونپ کر راہی ملک عدم ہو گئے۔

لائبریری کی یہ خوبصورت عمارت اب مکمل ہے۔ کوشش یہ کی گئی ہے کہ یہ ڈاکٹر محمود حسین لائبریری سے مماثل رہے اور ایک ”گوشہ ڈاکٹر جمیل جالبی“ کی گنجائش رکھی گئی ہے جو ان کی تحقیق و تصانیف اور ان کے بارے میں علمی و ادبی مواد کا احاطہ کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments