انڈیا میں مسلمان خواتین اب عدالت جائے بغیر طلاق دے سکتی ہیں

دویا آریہ - بی بی سی نامہ نگار


مسلمان خواتین

ایک مسلمان خاتون اگر اپنے شوہر کو طلاق دینا چاہے تو اس کے پاس کیا راستے ہیں؟ انڈیا میں کیرالہ ہائی کورٹ نے اس سوال پر طویل تبصرے کے بعد فیصلہ سنایا ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ خواتین کا اپنے شوہر کو اسلامی طریقے سے طلاق دینا انڈین قانون کے تحت صحیح ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈین قانون کے تحت طلاق دینے کے راستے کے علاوہ، اب مسلمان خواتین کے پاس شریعہ کے تحت وضع کیے گئے چار راستے بھی موجود ہوں گے اور انھیں ماورائے قانون نہیں سمجھا جائے گا۔

اس فیصلے کی اہمیت، ضرورت اور اس کا مسلمان خواتین اور مردوں کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا، یہ سمجھنے کے لیے ان چار سوالوں کے جواب جاننا ضروری ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

تین طلاق کا بل: اب بی جے پی کا اگلا قدم کیا ہو گا؟

’بیوی کو تین طلاق دینے پر جیل جانا پڑے گا‘

یہ معاملہ عدالت تک کیسے پہنچا؟

انڈیا میں مسلمان خواتین کے لیے ’ڈیسولیوشن آف مسلم میرج ایکٹ 1939‘ کے تحت نو صورتوں میں اپنے شوہر سے طلاق لینے کے لیے فیملی کورٹ جانے کی گنجائش ہے۔

اس میں شوہر کی طرف سے ظالمانہ سلوک، دو سال تک گزارے کے لیے رقم نہ دینا، تین سال شادی نہ نبھانا، چار سال تک غائب رہنا، شادی کے وقت سیکس کی صلاحیت نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

مسلم خواتین

’کیرالہ فیڈریشن آف وومن لائرز‘ کی سرکردہ وکیل شاجنا ایم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کا راستہ مسلمان خواتین کے لیے بہت مشکل رہا ہے، کئی بار دس دس سال تک کیس چلتے ہیں، خرچہ ہوتا ہے، وقت لگتا ہے اور شوہر کی طرف سے بدسلوکی ثابت کرنے کے لیے کئی شواہد جمع کرنا پڑتے ہیں۔‘

مذہبی تنظیم جماعت اسلامی ہند کی سینٹرل ایڈوائزری کمیٹی کی رکن شائستہ رفعت بھی کہتی ہیں کہ مسلمان خواتین کی پہلی ترجیح اسلامی طریقے سے طلاق لینا ہے نہ کہ قانون کے راستے سے جو طویل اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔

کیرالہ میں فیملی کورٹس میں مسلم جوڑوں کے کئی ایسے کیس تھے جن میں کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا اور ان کے خلاف اپیل جب کیرالہ ہائی کورٹ پہنچی تو دو ججوں کے ایک بینچ نے انھیں ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا۔

کورٹ کا فیصلہ کیا ہے؟

فیصلے میں عدالت نے یہ بات واضح کی ہے کہ انڈین قانون کے علاوہ مسلمان خواتین شریعہ قانون کے تحت بھی اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہیں۔

اس کا ایک مقصد فیملی کورٹس کے کیس لوڈ کو کم کرنا اور دوسرا مسلمان خواتین کے طلاق دینے کے حق کو یقینی بنانا بھی ہے۔

مسلم خواتین

سپریم کورٹ کی طرف سے تین طلاقوں کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا ’تین طلاق جیسے غیر اسلامی طریقے کو رد نہ کیے جانے کے لیے تو کئی لوگوں نے آواز اٹھائی تھی لیکن ماورائے قانون کہلائے جانے والے مسلم خواتین کے طلاق کے اسلامی راستوں کا حق واپس دینے پر کوئی مجموعی مطالبہ نظر نہیں آتا۔‘

عدالت کے دو رکنی بنچ کے اس فیصلے نے سنہ 1972 کے اسی عدالت کے اس فیصلے کو الٹ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلم خواتین کے لیے طلاق مانگنے کے لیے صرف انڈین قانون کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ اس فیصلے نے شریعہ قانون کے راستوں کو ’ماورائے قانون‘ قرار دیا تھا۔

مسلم خواتین

شریعہ قانون کے تحت کیا راستے ہیں؟

شریعہ قانون کے تحت ایک مسلمان عورت کے پاس طلاق دینے کے چار راستے ہیں۔

طلاقِ تفویض: جب شادی کے کانٹریکٹ میں ہی عورت یہ لکھوا دے کہ کس صورت میں وہ اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہیں۔ مثلاً اگر وہ بچوں کی پرورش کے لیے پیسے نہ دے، گھر چھوڑ کر چلا جائے، جسمانی تشدد کرے وغیرہ۔

خلع: جس میں عورت ایک طرفہ طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اس کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی۔ اس میں شادی کے وقت طے کیا گیا حق مہر عورت کو نہیں ملتا۔

مبارت: عورت اور مرد آپس میں بات چیت کر کے طلاق کا فیصلہ کرتے ہیں۔

فسخ: عورت اپنا طلاق کا مطالبہ قاضی کے پاس لے جاتی ہے تاکہ وہ اس پر فیصلہ دیں۔ اس میں بھی عورت کو حق مہر شوہر کو واپس کرنا پڑتا ہے۔

کیرالہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان تمام راستوں کو واضح کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ ’خلع‘ کے معاملے میں طلاق سے پہلے ایک بار صلح صفائی کی کوشش کی جانی چاہیے۔

’فسخ‘ کے علاوہ باقی سارے راستوں کے لیے عدالت نے کہا ہے کہ جہاں تک ہو سکے فیملی کورٹ صرف ان فیصلوں پر مہر لگائے، ان کی سماعت نہ کرے۔

مسلم خواتین

کیا یہ بڑی تبدیلی ہے؟

شائستہ رفعت اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے اسے خواتیں کے حقوق کے لیے صحیح قدم قرار دیتی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جو عورتیں شوہر سے بہت پریشان ہیں اور جو انھیں طلاق نہیں دینے دے رہے، انھیں کچھ راحت ملے گی۔ قاضی کو بھی عورت کی بات سننا ہو گی اور وہ شوہر کا ساتھ کم دے پائیں گے۔‘

دراصل پچاس سال پہلے سنہ 1972 میں طلاق کے اسلامی طریقوں کو ’ماورائے قانون‘ قرار دیے جانے کے باوجود زمینی حقیقت یہی تھے کہ مسلمان خواتین یہی راستے منتخب کرتی رہیں۔

کیرالہ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ’اِنٹروینر‘ یعنی ماہر کے طور پر شامل ہونے والی شاجنا ایم نے بھی یہی دلیل سامنے رکھی تھی۔

ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ قانونی طور پر ان راستوں کو صحیح تصور نہ کیے جانے کا اثر یہ تھا کہ اگر طلاق مانگنے والی عورت کا شوہر انکار کر دے تو اس کے پاس عدالت جانے اور پھر طویل قانونی عمل کے مکمل ہونے کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتا تھا۔

یعنی اسلامی قانون میں طریقہ ہونے کے باوجود انھیں طلاق اس لیے نہیں ملتی تھی کیونکہ شوہر اسے ’ماورائے قانون‘ قرار دیے جانے کا حوالہ دے کر منع کر سکتے تھے۔

اب شاجنا کہتی ہیں ’کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق عورتیں عدالت کے بغیر اسلامی طریقوں سے طلاق حاصل کر پائیں گی اور اسے قانونی درجہ حاصل ہونے کی وجہ سے شوہر اورقاضی کو بھی ماننا پڑے گا۔‘

انڈیا میں اب مسلم خواتین شریعہ کے مطابق اسلامی طریقوں سے بھی طلاق حاصل کر سکیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp