ہمارے بچے کتب بین کیوں نہیں؟


گزشتہ دنوں، ہمارے چست، تندرست اور توانا وزیراعظم بھی کورونا میں مبتلا ہو گئے۔ قرنطینہ نشین ہونے کے بعد ان کی جو پہلی تصویر منظر عام پر آئی وہ ہمیں بہت خوش کر گئی۔ کیونکہ ان کے ہاتھ میں کتاب تھی۔ ان کی تقریروں سے لگتا ہے کہ وہ ایک صاحب مطالعہ شخص ہیں۔ عمران خان اقوام عالم کی ترقی و تنزلی کے راز ہائے سربستہ پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں اور تقابلی جائزہ بھی لیتے رہتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے علاوہ ان کی معلومات اچھی خاصی وسیع ہیں۔

ایک لیڈر کے لیے وسیع المطالعہ ہونا ازحد ضروری ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے: ”عظیم رہنماؤں کے پاس مطالعے کا وقت نہیں ہوتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ مطالعہ نہیں کرتے وہ حکمرانی کے لئے غیر موزوں ہوتے ہیں۔“

پاکستان کے تناظر میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک کتب بین لیڈر تھے۔ یہ عادت ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو میں بھی دیکھی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی  IF I AM ASSASSINATED اور محترمہ بے نظیر بھٹوDAUGHTER OF THE EAST کے بالترتیب مصنف بھی ہیں۔ بلاشبہ انسان کی تخلیقات اس کو بعد از مرگ بھی زندہ رکھتی ہیں۔ فوجی زندگی میں ہم نے بہت کم فوجی قائدین دیکھے جو کتب بین نہ ہوں۔ بلکہ اکثر سینیئر افسران اپنے گھروں میں لائبریری بھی رکھتے ہیں۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں جتنے بڑے لیڈر فطرت نے اس دنیا کو عطا کیے ، بچپن سے ہی کتب بینی کے شوقین تھے۔ محمد علی جناح، ماؤزے تنگ ، موہن داس گاندھی سمیت تقریباًتمام عظیم لیڈر کتب بینی کا لپکا رکھتے تھے۔ یورپ اور امریکہ کے سیاسی لیڈر جن میسولینی، لینن اور چرچل شامل ہیں، بلاشبہ صاحب مطالعہ اور دانشور لیڈر تھے۔ اس کے علاوہ برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر، سابق امریکی صدور ابراہم لنکن، نکسن، براک اوباما اور روز ویلٹ، کے علاوہ جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا باقاعدگی سے کتابیں پڑھتے تھے۔

ہمارے دیس میں عوام و خواص کی کتابوں سے دوری دیکھ کر دل دکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم اپنے سکول سسٹم میں کچھ نئے اساتذہ تعینات کرنے کے لئے انٹرویو کر رہے تھے۔ ہم یہ جان کر ششدر رہ گئے کہ انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والی معلمہ کو یاد نہیں تھا کہ اس نے انگریزی کی کوئی غیر نصابی کتاب کب پڑھی تھی۔ اردو ادب میں ایم فل خاتون یہ نہیں جانتی تھی کہ اسد اللہ خاں غالب کا زمانہ پہلے تھا یا میر تقی میر کا۔ انگریزی اور اردو ادب میں ماسٹرز خواتین کسی بھی بڑے شاعر کا کوئی ایک شعر درستی کے ساتھ سنانے سے بھی قاصر تھیں۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہم بطور معاشرہ اقوام عالم میں دیگر شعبوں کی طرح کتب بینی کی صف میں بھی اچھے خاصے پیچھے ہیں۔ میں نے چین، برطانیہ، یورپ، کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کے معاشرے دیکھ رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ زندگی نے براعظم افریقہ کے بھی چند ممالک دیکھنے کا موقعہ بھی دیا ہے۔ امریکہ کی سیر کا ایک واقعہ اچھی طرح یاد ہے:

مجھے 2010ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ دو اور احباب بھی تھے۔ ہمیں چند روز واشنگٹن ڈی سی میں رک کر بذریعہ ہوائی جہاز، ریاست کلوراڈو کے شہر ڈینور اور پھر آگے ریاست نیواڈا کے شہر رینو جانا تھا۔ جب ہم واشنگٹن سے ڈینور جانے کے لئے یونائیٹڈ ایئرلائن کے ایک جہاز میں داخل ہوئے تو ایک پراسرار خاموشی نے ہمارا استقبال کیا۔

میں نے دیکھا کہ پورے جہاز میں تقریباً اقڑھائی سو افراد کچھ نہ کچھ پڑھ رہے تھے۔ یہ فلائٹ چار گھنٹے کی تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہم تین پاکستانی افراد یا سو جاتے یا موبائل پر کچھ نہ کچھ کھیلنا شروع ہو جاتے۔ جبکہ دیگر مسافر۔ کوئی کتاب، رسالہ یا اخبار کے مطالعے میں مشغول تھے۔ میں نے چند عمر رسیدہ افراد کو پنسل سے RIDDLE کھیل کر ذہنی مشق کرتے ہوئے بھی دیکھا۔

اس کے بر عکس چند برس ادھر مجھے پی آئی اے کی ایک اندرونی پرواز سے اسلام آباد سے کراچی جانا تھا۔ پونے تین سو افراد پر مشتمل افراد میں سے اکثریت سیاسی گفتگو، پی آئی اے کی بدحالی پر بحث یا پھر موبائل پر پرانی وڈیوز یا تصاویر دیکھنے میں مشغول تھی۔ صرف ایک غیر ملکی خاتون ایسی نظر آئی جو کسی کتاب کے مطالعے میں مشغول تھی۔

دو برس قبل، بطور پرنسپل میں، بچوں کے مابین کتب بینی کے مقابلے کرواتا تھا۔ اس وقت تو بچے کچھ نہ کچھ پڑھ لیتے تھے۔ مگر گرمیوں کی تعطیلات سے قبل میں نے کچھ سینئر طلبا و طالبات کو لائبریری سے انگریزی اور اردو ادب کی کتب پڑھنے کے لیے جاری کروائیں۔ مگر چھٹیوں کے بعد پچاس میں سے صرف دس کتب پڑھی گئی تھیں اور وہ بھی سرسری۔

تحقیقات سسے آشکار ہوا کہ والدین بچوں کو نصابی کتابیں پڑھنے کے علاوہ کوئی کتاب پڑھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے بلکہ وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ اور بچوں کے دوست احباب ان کو واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹا گرام پر مشغول رکھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بچوں سے کتب بینی کی توقع رکھنا عبث ہے۔

بعض دانشور، کتب بینی کی ناگفتہ بہ حالت کی ذمہ داری سوشل میڈیا اور ای بک پر ڈالتے ہیں۔ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا کہ میں وہ معاشرے اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں جن نے جدید ٹیکنالوجی کو ایجاد کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ معاشرے ایک صدی قبل کتابوں اور ادیبوں کو خدا حافظ کہہ چکے ہوتے مگر ایسا نہیں ہے۔ آج بھی کتب بینی اپنی انتہا پر ہے اور شہروں اور پارکوں میں برنارڈشا، شیکسپئیر اور جان کیٹس کے مجسمے ان قوموں کی ادب دوستی کی دلیل ہیں۔

دو برس قبل کینیڈا میں، میں نے سٹریٹ لائبریری دیکھیں، لوگ اپنے گھر کے باہر لوہے کا ایک بک شیلف بنوا کر اس میں آنے جانے والوں کے لئے مفت کتابیں فراہم کر دیتے ہیں۔ اس سٹریٹ کے افراد یوں ایک دوسرے کی کتب سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کتب بینی سے دوری کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟

اولاً: معاشرے کی عمومی طور پر فنون لطیفہ بالخصوص ادبی آرٹ سے دوری وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔

دوئم: معاشی بدحالی کی وجہ سے، ہمارے والدین اور ہماری نوجوان نسل کی اچھے نمبر لے کر اچھی نوکری کر کے پیسہ کمانے کے علاوہ کوئی ترجیح نہیں ہے۔

سوئم: انتہا پسند مذہبی سوچ نے سوچنے ، سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت مفقود کر رکھی ہے۔

چہارم : زیادہ نمبر لینے کی دوڑ میں طالب علم غیر نصابی کتب پڑھنا ایک فضول اور بے معنی کام سمجھتے ہیں۔

پنجم: اساتذہ کا طالب علموں کو فکشن، سوانح حیات اور عام معلوماتی کتب پڑھنے کی ترغیب دینا، نہ ہونے کے برابر ہے۔

”علاج اس کا بھی اے چارہ گر، کچھ ہے کہ نہیں؟“

والدین اپنے گھر میں ایک کونہ مخصوص کریں جس میں بیٹھ کر کچھ وقت کے لئے کوئی نہ کوئی کتاب پڑھا کریں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں: چھوٹے بچے آنکھوں سے سنتے اور آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں۔

بچوں سے کتابوں کی باتیں کیا کریں۔ کون سی کتاب پڑھی؟ کتاب کا مرکزی خیال کیا تھا؟ آئندہ کون سی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں؟ کون سی ایسی کتاب ہے جو آپ کا جی چاہتا ہے کہ بار بار پڑھیں؟ بچے کو اپنی پسندیدہ کتاب کا کوئی پیرا گراف پڑھ کر سنائیں۔

اساتذہ ہوم ورک کے طور پر کتب پر تبصرہ لکھنے کو دیا کریں۔ جب تبصرہ لکھنا ہو گا تو یقیناً بچے کتاب پڑھیں گے۔ اس طرح کتاب پڑھنے کی عادت راسخ ہوتی جائے گی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم کالج کے زمانے میں امتحانات سے فارغ ہو جاتے تھے تو کئی کئی دن کوئی ڈائجسٹ یا ناول وغیرہ پڑھتے رہتے تھے۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کتب بینی کے فروغ کے سلسلے میں قابل قدر کام کر رہی ہے۔ مگر ان کو چاہیے کہ مختلف شہروں میں موبائل لائبریری متعارف کروائیں۔

وزیراعظم پاکستان سے التماس ہے کہ پورے ملک کے شہروں میں موجود لائبریریوں کی حالت زار کی خبر لیں اور لائبریریوں کو جدید علم و ادب کی کتب سے آراستہ کرنے کا حکم دیں۔ وزیراعظم ان ادیبوں کے لئے جن نے دس سے اوپر کتب لکھ رکھی ہیں۔ وظیفہ مقرر کریں اور عمدہ کتاب لکھنے پر انعام مقرر کریں۔

سکولوں میں اساتذہ زیادہ کتابیں پڑھنے پر سالانہ تقریب میں انعام مقرر کریں تاکہ والدین، اساتذہ اور حکومت کی توجہ سے ہماری نئی نسل کتب بینی کی شوقین بنائی جا سکتی ہے۔

کتب بینی بلاشبہ کسی بھی معاشرے کے افراد کو امن پسند، تجزیاتی صلاحیت سے بہرہ مند، جدید معلومات سے سرشار اور صحت مندانہ سوچ اور مہذب رویوں سے آشکار کرتی ہے۔ بطور والدین اور معلمین ہماری یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ آنے والی نسل میں کتب بینی کا شوق پیدا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments