رمضان ایک تربیتی کورس ہے


رمضان المبارک کی حیثیت ایک ماہ پر مبنی تربیتی کورس کی ہے۔ مسلمان اس ماہ میں دیگر مہینوں کے مقابلے میں زیادہ عبادت کرتے ہیں، گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرتے ہیں، اسی ماہ میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ کے علاوہ بھی خیرات و صدقات کرتے ہیں۔ گھروں میں، دفاتر میں، کمپنیوں میں اور اداروں میں ملازمین کو رخصت دی جاتی ہے، ان سے زیادہ مشقت والے کام نہیں کروائے جاتے اور ان کی تنخواہ پیشگی ادا کی جاتی ہے، اس ماہ میں مسجدیں بھر جاتی ہیں۔

اس ماہ کے اختتام پر عید بھی اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ آ وارد ہوتی ہے۔ اور یہ گویا اس تربیتی کورس کے لیے اختتامی جشن کی طرح ہے۔ اس دن اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو انعامات اور اعزازات سے نوازتے ہیں۔ گو کہ ہمیں مجسم سطح پر اس کا ادراک نہیں ہوتا مگر رسول صادق و امین ﷺ نے ہمیں اس کی خبر دی ہے۔ رسول صادق ﷺ نے عید کے دن کو انعام و اکرام کا دن کہا ہے۔

طالب علم جب کوئی کورس مکمل کرتے ہیں اور کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے مسرت کا موقع ہوتا ہے، اسی طرح روزہ داروں کے لیے عید کا دن مسرتوں بھرا دن ہے۔ اس دن مسلمان اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں، خوش گپیاں کرتے ہیں اور ان کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں واجبات زندگی سے وافر حصہ نہیں ملا۔

رمضان المبارک کی تمام روحانی اور سماجی حیثیتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ احساس پختہ ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ہر مسلمان کے لیے ایک ماہ کا تربیتی کورس ہے۔ اور اسلامی سال کے اختتام کے قریب اسے ہر سال مکمل کرنا ہے اور مقصود اس سے یہ ہے کہ آئندہ رمضان تک اسلام کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہو جائے اور وہ تمام اعمال جو بظاہر مشکل نظر آتے ہیں اس ایک ماہ کی تربیت کے بعد آسان ہو جائیں۔ ایک مسلمان جس نے مکمل دلجمعی اور ذوق وشوق کے ساتھ اس ایک ماہ کے تربیتی کورس کا اہتمام کیا ہو گا ، اس کے لیے سال بھر اسی طرح ذوق و شوق اور دلجمعی کے ساتھ عبادت کرنا، اللہ کے بندوں کے ساتھ ہمدردی کرنا، نیک نامی اور عزت و شرافت کے ساتھ زندگی گزارنا یقیناً آسان ہو جائے گا۔

اور اگر ایسا نہیں ہے جیسا کہ ہمارے عام مشاہدے میں بھی آتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی ماہ رمضان تمام ہوتا ہے لوگ اپنی سابقہ غفلت والی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ کاروبار میں پھر وہی ہیرا پھیری اور دھونس دھاندلیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں اپنے ذوق عبادت اور طرز زندگی کی خیر منانی ہو گی۔ اگر ہم پورے ماہ عبادت کر کے بھی اپنے اندر کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے تو پھر اس سے زیادہ بدنصیبی کی بات اور کیا ہو گی۔ رمضان المبارک اپنے آپ کو بدلنے کا بہترین موقع ہے۔

رمضان اور تخلیہ

عبادت، عبادت گزار کے لیے خارج سے جو سب سے بڑی چیز چاہتی ہے وہ پرسکون ماحول ہے اور شاید مساجد کے قیام میں بھی یہ ایک بڑا عنصر پنہاں ہے کہ مساجد اس لیے تعمیر کی جاتی ہیں تاکہ عبادت گزار یکسو ہو کر عبادت کر سکیں ورنہ تو ساری زمین امت مسلمہ کے لیے مسجد کے حکم میں ہے۔ مساجد یوں تو مسلمانوں کی بستی میں قلب کی طرح ہیں، وہ امت کے سالم وجود کو روحانی غذا فراہم کرتی ہیں، امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتی ہیں، تاہم مساجد کا ایک بڑا کردار یہ بھی ہے کہ وہ عبادت گزاروں کو یکسو ہونے میں بھی مدد دیتی ہیں کیونکہ وہ باہر کے ہنگاموں سے کسی قدر محفوظ ہوتی ہیں۔

ایک عبادت گزار کو علائق دنیا سے الگ کر کے، اسے اللہ کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کے لیے مدد دینے میں مساجد کے علاوہ اعتکاف کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ حالانکہ کھلے میدان کے مقابل مسجد خود ہی ایک محیط گوشہ ہے، لیکن جب اسی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھا جاتا ہے تو اس کے بھی ایک چھوٹے سے گوشے کو منتخب کر کے اسے عارضی پردوں سے مزید محیط کیا جاتا ہے اور آدمی گویا دنیاوی علائق سے زیادہ سے زیادہ دور رہ کر خود کو اللہ و تبارک وتعالیٰ کے ذکر میں مشغول کر لیتا ہے۔

اس ظاہری احاطہ بندی کے بعد معتکف پر کچھ دوسری حد بندیاں بھی قائم ہوتی ہیں۔ ایک یہ بھی کہ وہ بنا ضرورت مسجد سے باہر نہیں جا سکتا اور ایک یہ بھی کہ وہ اعتکاف کی نیت کر لینے کے بعد تمام غیر ضروری اور لایعنی اعمال اور گفتگو سے احتراز کرے گا۔ اللہ سے تعلق قائم کرنے کے لیے گرچہ دنیا سے بے تعلق ہونا شرط نہیں ، تاہم دنیا کے ہنگاموں اور شورشرابوں سے دور ہونا کسی حد تک ضروری ہے کیونکہ اللہ کوئی مرئی (مادی آنکھوں سے نظر آنے والی) ذات نہیں ہے۔ وہ لطیف ہے اور لطیف کثیف کی ضد ہے اور اسی لیے ایسا ہے کہ اس سے تعلق استوار کرنے کے لیے کثافتوں کو منہا کرنا پڑے گا ، تب ہی کہیں جا کر صحیح معنیٰ میں اس سے تعلق استوار ہو سکے گا۔ اور اسی سے اعتکاف کی حکمت اور فلسفہ سمجھ میں آ جاتا ہے۔

اب دیکھنے اور غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جس دین کو اس حد تک پرسکون ماحول اور اتنی زیادہ یکسوئی کی ضرورت ہے آخر اسی دین کے ماننے والے میلوں ٹھیلوں اور شور ہنگاموں میں کیوں الجھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے کئی سارے دینی کاموں کی انجام دہی کے لیے بھی شوروغل کو جیسے دین کا حصہ ٹھہرا لیا ہے۔ خیر سے یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے، یعنی عبادت و ریاضت کا مہینہ ہے اور اس ماہ میں دیگر مہینوں کے مقابل زیادہ پرسکون ماحول اور یکسوئی کی ضرورت ہے، مگر ہم جو منظر اپنی بستیوں میں دیکھتے ہیں وہ اس سے بالکل ہی مختلف ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ہماری بستیاں مزید شور شرابے سے بھر جاتی ہیں۔ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور بازاروں کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments