ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی: ایک قابل تقلید استاد اور محقق


سنہ 1955ء میں پیدا ہونے والے استاد محترم ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی صاحب کے انتقال کی افسوس ناک خبر 5 جنوری 2021ء کو ملی۔ ڈاکٹر صاحب کی جدائی ان سے وابستہ ہر فرد کے لیے کسی عظیم سانحے سے کم نہیں ہے۔ ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی صاحب سے میرا تعارف 1990ء میں ہوا جب میں جامعہ زکریا ملتان کے شعبہ ایجوکیشن کا طالب علم بنا۔ پہلے ہفتے کی تدریس کے بعد ہی ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ہم سب کلاس فیلوز کو بھا گئی۔

مناسب قدوقامت اور دبلے بلکہ سمارٹ جسم کے مالک تھے۔ چہرے پر سنجیدگی اور متانت نمایاں تھی جو کہ یونیورسٹی کے استاد کے مرتبے کے عین مطابق تھی۔ نرم اور دھیما لب و لہجہ ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ لباس کے معاملے میں اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ ایم اے کے دو سالہ دورانیے میں ہم نے انہیں ہمیشہ رسمی لباس (پینٹ شرٹ) میں دیکھا۔ اس عرصہ میں وہ ایک دن بھی شلوار قمیض میں دفتر نہیں آئے یا کم از کم ہم نے انہیں شلوار قمیض میں نہیں دیکھا۔ اگرچہ بعد میں میں نے انہیں شلوار قمیض اور ویسٹ کوٹ میں ملبوس دیکھا جو ان پر بہت جچتا تھا۔

ڈاکٹر فاروق صاحب کا بنیادی علمی میدان اگرچہ اردو ادب تھا لیکن ایجوکیشن کے مضمون میں بھی ان کی مہارت مسلمہ تھی۔ جامعہ زکریا میں ملازمت سے پہلے وہ کالج میں اردو کے استاد تھے۔ یونیورسٹی کی مختلف کلاسوں میں وہ زیادہ تر فلسفۂ تعلیم اور تدریس اردو کے کورسز پڑھاتے تھے۔ چونکہ اردو زبان و ادب میں انہیں مہارت حاصل تھی لہٰذا شعبۂ ایجوکیشن سے وابستہ شاید ہی کویٔی استاد اردو ان سے بہتر پڑھا سکے۔ مختلف موضوعات کی وضاحت کے دوران اردو کی تاریخ اور کلاسیکل شعراء کے حوالے تواتر سے دیا کرتے تھے۔جس سے اردو پڑھنے کا مزہ دوبالا ہو جاتا تھا۔

میں نے ایم اے ایجوکیشن کے دوران ڈاکٹر فاروق صاحب سے مبادیات تعلیم کا کورس بھی پڑھا۔ تاریخ تعلیم اور فلسفۂ تعلیم پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ فلسفہ کے مختلف مکاتب فکر اور مشرقی و مغربی مفکرین کے نظریات کی وضاحت نہایت سادہ اور سہل پیرائے میں کرتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں ملازمت کے ابتدائی ایام میں مجھے بھی فلسفۂ تعلیم کے کورس کو پڑھانے کی ذمہ داری دی گئی۔ اس مشکل کورس کو پڑھانے میں ڈاکٹر فاروق صاحب سے ایم اے میں پڑھے ہوئے لیکچرز کے نوٹس میرے بہت کام آئے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب سے لی گئی رہنمائی کی بدولت میں یہ کورس مناسب انداز میں پڑھانے میں کامیاب ہوا۔

ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر احمد فاروق صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ لیکن میرے نزدیک ان کی شخصیت کی مضبوطی میں ان کی پیشہ ورانہ ایمانداری کا بڑا اہم کردار تھا۔ وہ اپنے تعلیمی اور دفتری امور انتہائی دیانت داری سے سرانجام دیتے تھے۔ دفتر وقت سے پہلے پہنچتے تھے اور کلاسز لینے میں بھی وقت کی پابندی کا خیال رکھتے تھے۔ میں نے جب بھی ان سے ملاقات کا وقت لیا تو انہیں مقررہ وقت پر اپنے دفتر میں موجود پایا۔

سماجی تقریبات میں شرکت کے سلسلے میں بھی ڈاکٹر صاحب سختی سے وقت کی پابندی کرتے تھے جس کی وجہ سے ہمیشہ انہیں اضافی انتظار کی زحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اور اس پر وہ اکثر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔ طلبہ کی اسائنمنٹس انتہائی انہماک اور باریک بینی سے دیکھتے تھے۔ ان سے واپس لی گئی اسائنمنٹس کی اکثر سطریں نشان زدہ ہوتی تھیں۔ اغلاط اکثر خود درست کر دیتے تھے اور رہنمائی کے لیے تفصیلی تجاویز بھی تحریر کرتے تھے۔

طلبہ کو گریڈز اور مارکس دیتے وقت بھی ڈاکٹر صاحب دیانت داری سے کام لیتے تھے اور ذاتی تعلق کو گریڈنگ پر اثرانداز نہیں ہونے دیتے تھے۔ ان کے شاگردوں کو معلوم ہوتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے کورس میں انہیں مارکس ناپ تول کر اور خالصتاٌ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ملیں گے۔ کمزور اور چاپلوس طلبہ کے لیے یہ بات پریشانی کا باعث ہوتی تھی جبکہ محنتی اور ذہین طلبہ ان سے مطمئن اور خوش رہتے تھے۔

ہمارے ہاں جامعات میں اساتذہ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کے عہدوں پر ترقی سے پہلے جائزے کے لیے درخواستیں متعلقہ مضامین کے ماہرین کو بجھوائی جاتی ہیں۔ اور ماہر مضمون کے لیے یہ ذمہ داری اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایسی کئی جائزے کے لیے آئی ہوئی درخواستیں اور دستاویزات یہ کہہ کر واپس کیں کہ ان کا امیدواروں کے ساتھ ذاتی تعلق ہے۔ پیشہ ورانہ ایمانداری کی ایسی مثال ملنا آج کل بہت مشکل ہے۔

میرے لیے ڈاکٹر فاروق صاحب کا اردو زبان و ادب سے ایجوکیشن کے مضمون کی طرف منتقلی کا سفر دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایم اے اردو کرنے اور کالج میں بطور اردو لیکچرار تقرری کے بعد قائداعظم میرٹ سکالرشپ پر انگلینڈ میں پی ایچ ڈی کے لیے ایجوکیشن کے مضمون کا انتخاب کیا۔ ہر مضمون کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اردو کے استاد، شاعر اور مصنف ہونے کے بعد ایجوکیشن کے مضمون میں پی ایچ ڈی کے تعلیمی لوازمات کو پورا کرنا ان کے لیے بلاشبہ مشکل اور کٹھن کام ہو گا۔ لیکن انھوں نے یہ کام اپنی محنت، لگن اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت کی بدولت احسن طریقے سے سر انجام دیا۔

انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کے بعد ڈاکٹر احمد فاروق صاحب نے جامعہ زکریا ملتان کے شعبۂ ایجوکیشن میں بطور استاد ملازمت اختیار کی۔ اس شعبہ میں ڈاکٹر مشتاق احمد گوراہا، ڈاکٹر ریاض الحق طارق، ڈاکٹر علی اصغر ملک، ڈاکٹر جمیل حسین شاہ، مسز ممتاز رحیم اور ڈاکٹر آصف ملک جیسے مستند اور منجھے ہوئے اساتذہ ان کے رفقاء کار تھے۔

ایسے باکمال اساتذہ کی موجودگی میں اپنی شناخت بنانا ڈاکٹر فاروق صاحب کے لیے یقیناً ایک چیلنج ہو گا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف بطور استاد اپنی الگ شناخت بنائی بلکہ اپنے پیشہ ورانہ رویے اور شخصی اوصاف کی بناء پر طلبہ کو اپنا گرویدہ بھی بنایا۔ ڈاکٹر صاحب کے شعبۂ اردو کی بجائے شعبۂ ایجوکیشن میں ملازمت اختیار کرنے کے فیصلے پر ڈاکٹر انوار احمد سمیت اردو ادب سے وابستہ ان کے جاننے والوں نے برملا افسوس کا اظہار بھی کیا۔ لیکن یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ڈاکٹر احمد فاروق صاحب کے اس فیصلے سے شعبۂ ایجوکیشن کو ایک بہترین استاد اور محقق میسر آئے۔

ڈاکٹر احمد فاروق صاحب کے جاننے والے میری اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ انہیں خود نمائی کا ہرگز شوق نہ تھا۔ دروں بین شخصیت تھے۔ سماجی میل جول محدود رکھتے تھے۔ لیکن جن سے ملتے اس میں اخلاص شامل ہوتا تھا۔ ان کو ترکی کی ایک جامعہ کی طرف سے اردو چییٔر کی صدارت کی پیشکش ہوئی۔ اپنی نجی وجوہات کی بناء پر اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ میرے خیال میں اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس عہدے سے وابستہ اعزاز اور مراعات کے سبب دیگر امور پر سمجھوتہ کرتے ہوئے یہ پیشکش قبول کر لیتا۔

ڈاکٹر صاحب ’اپنے کام سے کام رکھنا‘  کے محاورے کی عملی مثال تھے۔ جامعہ زکریا کی سطح پر بھی سیاسی طور پر زیادہ سرگرم نہ تھے۔ میرے نزدیک اگر سیاسی اور سماج میل جول ڈاکٹر صاحب کی ترجیح ہوتا تو وہ شعبۂ ایجوکیشن کے چییٔرمین کے علاوہ کئی بڑے عہدے حاصل کر سکتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی شخصیت میں قناعت و انکساری اور خود نمائی کا نہ ہونا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زمانۂ طالب علمی کے دوران ہمیں بہت دیر کے بعد پتہ چلا کہ ڈاکٹر فاروق صاحب شعر بھی کہتے ہیں۔

جب پتہ چلا تو ڈاکٹر صاحب بڑے اصرار کے بعد کلاس میں ہمیں اپنے اشعار سناتے۔ ورنہ شعراء حضرات تو سامعین کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یاد کیا جائے تو اچھا لگتا ہے کہ ان کی کتاب ’حصار خواب ‘ میں شامل کئی اشعار میں نے 92۔ 1991ء میں ڈاکٹر صاحب سے کلاس میں سنے تھے۔ بعد میں جامعہ زکریا میں ان کا رفیق کار بننے کے بعد مجھے ان سے ان کی تازہ غزلیں اور اشعار سننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ شعبۂ ایجوکیشن کے ٹی روم میں ڈاکٹر صاحب اکثر میرے ساتھ والی نشست پر تشریف رکھتے تھے۔

اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت شعبۂ ایجوکیشن جامعہ زکریا کے تمام اساتذہ ڈاکٹر فاروق صاحب کے شاگرد ہیں۔ ہماری درخواست پر ڈاکٹر فاروق صاحب ٹی روم میں درمیان کی نشسست پر بیٹھتے تھے تاکہ تمام لوگ ان کی گفتگو سے مستفید ہو سکیں۔ یہاں بھی ڈاکٹر صاحب خود سے نہیں بلکہ ہمارے پرزور اصرار پر اپنی تازہ غزل یا شعر سنانے پر راضی ہوتے۔ یہ واقعہ کبھی کبھار پیش آتا تھا لیکن جب بھی ایسا ہوتا تو پورے دن اس کی خوشگواریت برقرار رہتی۔ ان کے نرم اور شیریں لب و لہجے سے سب متاثر تھے۔ یہ کہنا بالکل بجا ہو گا۔

ہائے وہ شخص کہ جس کی خوبیٔ گفتار سے
عشق اردو سے ہوا اور شاعری اچھی لگی

ڈاکٹر احمد فاروق صاحب کی شخصیت کے مداح اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک بھی تھے۔ سال 1999ء میں مجھے تعلیمی دورے پر انگلینڈ جانے کا اتفاق ہوا۔ میرا قیام مانچسٹر یونیورسٹی کے شعبۂ ایجوکیشن سے وابستہ تھا۔ اس وقت مانچسٹر یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ایجوکیشن کے ڈین ڈاکٹر گجندرہ ورما تھے۔ ڈاکٹر ورما ڈاکٹر فاروق صاحب کے استاد اور پی ایچ ڈی کے مقالے کے نگران تھے۔ جب ڈاکٹر ورما کو معلوم ہوا کہ میں ڈاکٹر فاروق صاحب کا شاگرد ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے۔

ڈاکٹر ورما نے مجھے ڈاکٹر فاروق صاحب کی اعلیٰ تعلیم پر کی گئی تحقیق کے بہترین معیار کے بارے میں بتایا اور ان کی تعلیمی اور تحقیقی صلاحیتوں کی تعریف کی۔ اسی طرح ڈاکٹر فاروق صاحب کے پی ایچ ڈی کے کلاس فیلو لیزلی وڈکاک ہوتے تھے۔ ڈاکٹر فاروق صاحب پاکستان میں اکثر ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو کی وجہ سے مجھے بھی لیزلی وڈکاک سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ انگلینڈ میں ہوتے ہوئے لیزلی سے ملنے کا یہ نادر موقعہ تھا۔

لیزلی کو فون کر کے جب میں نے اپنے بارے میں بتایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے بریڈ فورڈ آنے کی دعوت دی۔ لیزلی وڈکاک کی دعوت پر جب میں بریڈ فورڈ پہنچا تو انھوں نے میری بڑی آؤ بھگت کی۔ بریڈ فورڈ یونیورسٹی اور شہر کی سیر کرائی۔ پرتکلف کھانے کے دوران لیزلی نے ڈاکٹر فاروق صاحب کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے کئی دلچسپ قصے سنائے۔ لیزلی بھی ڈاکٹر صاحب کی تحقیقی قابلیت اور شخصی خوبیوں کے معترف تھے۔ ڈاکٹر فاروق صاحب سے مشترک تعلق کی بناء پر لیزلی جلد ہی میرے ساتھ بے تکلف ہو گئے اور ہم نے ڈاکٹر فاروق صاحب کی شخصیت کے علاوہ کرکٹ پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔

ڈاکٹر احمد فاروق صاحب نومبر 2015ء میں یونیورسٹی ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ اس وقت میں بطور استاد جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے شعبۂ ایجوکیشن سے وابستہ تھا۔ نومبر 2015ء میں ہی ہم نے جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں ڈاکٹر فاروق صاحب کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ میری درخواست پر کمال مہربانی فرماتے ہوئے ڈاکٹر صاحب اس تقریب میں شریک ہوئے۔ اس تقریب میں ہم نے بہاولپور میں موجود ڈاکٹر فاروق صاحب سے منسلک کئی نامور شخصیات کو مدعو کیا تھا۔

میری میزبانی میں منعقدہ اس تقریب میں ڈاکٹر نجیب جمال صاحب، ڈاکٹر اسلم ادیب صاحب، ڈاکٹر اختر علی صاحب، ڈاکٹر نعیم محسن صاحب اور دیگر حضرات نے ڈاکٹر فاروق صاحب کے بارے میں گفتگو کی۔ خاص طور پر ڈاکٹر نجیب جمال صاحب اور ڈاکٹر اسلم ادیب صاحب کی دلچسپ گفتگو سے ڈاکٹر فاروق صاحب کی شخصیت کے کئی پوشیدہ پہلو حاضرین کے سامنے ظاہر ہوئے۔ ڈاکٹر اسلم ادیب صاحب اور ڈاکٹر فاروق صاحب نے بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے تقریباٌ ایک ہی وقت میں ڈاکٹر گجندرہ ورما کی زیرنگرانی ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی تھی۔

لہٰذا ڈاکٹر اسلم ادیب صاحب کی طرف سے دیار غیر میں قیام کے دوران ہلکے پھلکے انداز میں سنائے گئے واقعات سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ڈاکٹر فاروق صاحب نے اپنی تقریر میں روایتی انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقررین کی طرف سے بیان کی گئی اپنی خوبیوں کی موجودگی سے انکار کیا اور اپنی تعریف کو دوستوں کی مبالغہ آرائی قرار دیا۔ اس روز ڈاکٹر فاروق صاحب نے اپنے تدریسی تجربات اور اپنے دوستوں، اساتذہ، اور طلبہ کے بارے میں کھل کر بات چیت کی۔

ایجوکیشن ڈسپلن اور جامعہ زکریا کے شعبۂ ایجوکیشن کے لئے ڈاکٹر احمد فاروق صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ملکی سطح پر ڈاکٹر فاروق صاحب وزارت تعلیم اور ہائیر ایجوکیشن کیمشن کے تحت کئی اہم کمیٹیوں کے رکن رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو سب سے زیادہ مدت کے لیے شعبۂ ایجوکیشن جامعہ زکریا ملتان کے چیئرمین رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اپنے پیش رو ڈاکٹر مشتاق احمد گوراہا اور ڈاکٹر ریاض الحق طارق (سابق صدور شعبۂ ایجوکیشن) کی روایات کو آگے بڑھایا۔

اپنے انتظامی عہدے کے عرصہ میں تدریس اور تحقیق کے معیار پر سمجھوتا نہیں کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈاکٹر فاروق صاحب نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ کے ادارے یو ایس ایڈ سے مؤثر خط و کتابت اور مذاکرات کے بعد شعبۂ ایجوکیشن کے لیے نئی عمارت کی منظوری حاصل کی۔ یو ایس ایڈ کی مالی معاونت سے جدید خطوط پر تعمیر شدہ یہ بلڈنگ جامعہ زکریا ملتان کی تعمیرات میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔

میں اس لحاظ سے خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر فاروق صاحب اپنے شاگرد کی حیثیت سے اور بطور رفیق کار مجھ سے ہمیشہ انتہائی شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ بہت سے موقعوں پر اپنے کیرئیر اور نجی امور پر ان سے مشاورت کی۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ بڑے تحمل اور توجہ سے بات کو سنتے اور اخلاص پر مبنی مشورہ دیتے تھے۔ میں اگر اپنے کیرئیر پر نظر دوڑاؤں تو معلوم ہوتا ہے کہ میں آج مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے یونیورسٹی میں اعلیٰ تدریسی عہدے پر فائز ہوں۔میری کامیابی میں جہاں دیگر اساتذہ کا کردار ہے ، وہاں ڈاکٹر احمد فاروق صاحب کا اثر نمایاں ہے۔

اب تعلیم و تدریس کے بارے میں میرا اپنا نظریہ اور فکر ہے۔ لیکن اس نظریے کی تشکیل میں استاد محترم کی شخصیت کا بڑا حصہ ہے۔ ہجوم سے خود کو الگ رکھنے، خام سے پختہ ہونے اور عام سے خاص ہونے کے عمل میں ان کا کردار بنیادی ہے۔ اپنے شعبے میں مہارت اور صاحب علم ہونے کے باوجود انکساری اور نرم لہجہ رکھنا ان سے سیکھا۔ اپنے کام سے لگن، مستقل مزاجی اور تدریس میں ایمانداری کا درس ان سے ملا۔آگے بڑھنے کی تحریک ملی۔

مجھے پختہ یقین ہے کہ اگر ڈاکٹر احمد فاروق صاحب جیسے اساتذہ ہمیں کثرت میں میسر ہوں تو ہمارا نظام تعلیم زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے اور بہتر طالب علم پیدا کر سکتا ہے۔ میری دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ استاد محترم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔ استاد محترم کے چند اشعار سے میں اس تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔

سب مصلحت کی رات میں چھپ کر چلے گئے
بستی میں کوئی شخص بھی سچا نہیں رہا
چہرہ چہرہ دیکھ کر وہ بانٹتے ہیں رزق بھی
مسندوں پہ سانپ بن کر لوگ ہیں بیٹھے ہوئے
لوگ کتنے ہی تضادات میں جی لیتے ہیں
ہم مزاجوں کو ہی دشوار ہے یکجا کرنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments