لوگ کیا کہیں گے


لوگ کیا کہیں گے اس جملے کی بازگشت ہر وقت ہمارے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ آج انسان اس نہج پر ہے کہ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کام کا انجام سوچنے کے بجائے یہ سوچتا ہے لوگ کیا کہیں گے؟ یہ جملہ صرف جملہ نہیں رہا بلکہ نفسیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔

کوئی اپنے لباس میں تبدیلی چاہتا ہے کوئی اپنا طرز زندگی بدلنا چاہتا ہے
اولاد شادی کے قابل ہے والدین پریشان ہیں
کوئی پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے
کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے توکوئی اس پیشے کواپنانا نہیں چاہتا
یہ سب باتیں بجا ہیں مگر پوری نہیں ہو سکتی سماج آڑے آ جاتا ہے۔ سماج /معاشرہ کیا ہے؟ یہ لوگ کون ہیں؟

پچاس یا سو لوگوں کی مجلس میں سے آپ کسی بھی شخص کو کہیں کہ فلاں شخص گفتگو کرے یا صرف چند لفظ ہی بول دے تو وہ نہیں بول سکتا اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ شخص بول نہیں سکتا یا اس کے پاس الفاظ نہیں ہیں بلکہ میرے خیال میں ہو سکتا ہے وہ شخص بہت اچھا بول سکتا ہو لیکن وہ اس جملے سے خوف زدہ ہو جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، لوگ کیا سوچیں گے، لوگ اس پر ہنسیں گے اگر اس کی زبان پھسل گئی یا کوئی لفظ غلط ادا ہو گیا۔ اس طرح تعلیمی اداروں میں کمرہ جماعت میں بچے کو اکثر سوال کا جواب آتا ہے لیکن وہ خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ بچے ہی کیا بڑوں کا بھی یہی حال ہے کالجز، یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طالب علموں کی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔

ہر انسان کے جذبات و احساسات ہوتے ہیں جذبات و احسات جنس نہیں دیکھتے لیکن لوگ دیکھتے ہیں لوگ جذبات کو بھی کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں۔ جذبات و احساسات مرد اور عورت میں فرق نہیں کرتے مطلب مرد ہو یا عورت دونوں ہی جیتے جاگتے انسان ہیں اس لیے ان کے احساسات و جذبات ہیں۔ چھٹی یا ساتویں جماعت کا بچہ لے لیں اگر کلاس کی بچی روئے یا اس کے آنسو نکل آئے تو وہ رو سکتی ہے لیکن ایک لڑکا نہیں رو سکتا اگر لڑکا رونے لگے تو کہا جاتا ہے تم کیا لڑکیوں کی طرح رو رہے ہو مرد بنو مرد۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کی نسبت زیادہ مضبوط بنایا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرد کے جذبات نہیں ہیں اس کا بھی دل ہے اس کے جذبات ہیں جنہیں ٹھیس لگے تو وہ بھی رو سکتا ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی شخص کے پاس ایک گدھا تھا۔ وہ اسے فروخت کے لیے دوسری بستی لے جا رہا تھا اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔ وہ دونوں گدھے کے ساتھ چل رہے تھے۔ ایک کنویں پر عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔ باپ بیٹے کو گدھے کے ساتھ پیدل چلتے دیکھاتو ہنسنے لگیں اور آپس میں باتیں کرنے لگی کہ یہ دونوں کتنے احمق ہیں کہ سواری پاس ہے اور پیدل چل رہے ہیں۔ باپ نے یہ بات سن لی تو بیٹے سے کہا تو گدھے پر بیٹھ جا میں پیدل چلتا ہوں اور بیٹا گدھے پر سوار ہو گیا۔

ابھی وہ تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ ان کو کچھ دانشور مل گئے جب ان پر نظر پڑی تو ایک کہنے لگا دیکھو جی! کیسا زمانہ آ گیا ہے جوان بیٹا سواری پر بیٹھا ہے اور باپ پیدل چل رہا ہے۔ یہ بات بیٹے نے سنی تو سواری سے نیچے اتر آیا اور اصرار کر کے باپ کو سوار کر دیا اور چلتے گئے۔ ابھی وہ تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ انہیں لڑکوں کی ایک ٹولی ملی ان میں سے ایک کہنے لگا دیکھو! یہ بوڑھا کتنا سنگ دل ہے خود تو سواری پر بیٹھا ہے اور بیٹے کو پیدل چلا رہا ہے۔

یہ سنا تو باپ نے بیٹے کو ساتھ بیٹھا لیا ابھی وہ کچھ دیر ہی آگے گئے ہوں گے انہیں کچھ آدمی ملے ایک شخص نے بوڑھے سے کہا میاں! کیا یہ گدھا تمہارا ہے ہمیں تو یقین نہیں آ رہا اس قدر کمزور جانور پہ تم دونوں سوار ہوں باپ بیٹے نے یہ سنا تو گدھے کو سر پہ اٹھا لیا اور چلنے لگے، کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ لوگ ان پر ہنسنے لگے کہ کتنے بیوقوف ہیں خود پیدل چل رہے ہیں اور گدھے کو سر پہ بیٹھا رکھا ہے۔

اسی طرح کوئی بچہ کلاس میں، رزلٹ میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتا تو اسے نالائقی کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ ہر بچہ ایک جیسی صلاحیت کا حامل نہیں ہوتاجس طرح ایک بیل پہ لگے تمام انگور میٹھے نہیں ہوتے، اگر وہ پڑھائی میں اچھا نہیں ہے، زیادہ لائق نہیں ہے تو اسے اس کی ذہنیت کے مطابق پڑھنے دیں۔ اس کے اندر جو غیر معمولی اور انفرادی صلاحتیں ہیں ان کو پہچانیں یہ نہ سوچیں لوگ کیا کہیں گے۔

میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ جس طرح یہ دونوں دکھ سکھ کے ساتھی ہیں اس طرح ان کی گھر میں ساجے داری ہونی چا ہیے۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر شوہر بیوی کا گھر کے کام میں تھوڑا بہت ہاتھ بٹا دے۔ اول تو زیادہ تر شوہر یہ کام کرتے ہی نہیں اور اگر کردیں تو ان کو زن مریدی کے طعنے دیے جاتے ہیں۔

لوگ کیا کہیں گے اس سوچ نے انسان کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے انسان اس وجہ سے کھوکھلا ہو گیا ہے۔ انسان کے کچھ سوچنے، اس کے کچھ کر دکھانے کی صلاحیت دب کر رہ گئی ہے۔ دوسروں سے آگے بڑھنے، ان جیسا خود کو دیکھنے کے چکر میں انسان حقیقت سے دور ہو گیا ہے۔ انسان دکھاوے کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ آج کل شادیوں میں بے جا اخراجات بھی اسی جملے کے مرہون منت ہیں۔ ایک غریب آدمی جس کے لیے اس کے کنبے کی کفالت کرنا مشکل ہے وہ اس فقرے سے بچنے کے لیے لوگوں میں اپنا مرتبہ بنانے کے لیے بے جا اخراجات کرتا ہے جو قرض کی صورت میں کالا سایہ بن کر دن رات اس کے گرد منڈلاتے ہیں۔ اس کی پوری زندگی کالا سایہ بن جاتی ہے۔ اگر کسی کی شادی نہیں ہوتی، کسی کے ہاں اولاد نہیں ہوتی اور کوئی اولاد نرینہ چاہتا ہے، کسی کا گھر چھوٹا ہے، اس طرزکے اور بہت سے مسائل ”لوگ کیا کہیں گے“ کی نذر ہو جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جینے کی، اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آزادی دی ہے لیکن انسان نے اپنے گرد غیر ضروری قسم کی رسومات کے دائرے بنا لیے ہیں۔ جس میں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پھنس گیا ہے۔ اگر لوگوں نے یہ سوچنے کے بجائے کہ لوگ کیا کہیں گے اس بات پر توجہ دی ہوتی کہ ہم کیا چاہتے ہیں تو وہ ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہوتے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو اس جملے کی فکر نہ کرتے ہوئے زندگی میں آگے بڑھتے دیکھا ہے۔ ان کی زندگی اس لیے کا میاب ہوئی کیوں کہ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے۔

دنیا کاسماج کا سامنا کریں، یہ دنیا یہ سماج آپ سے ہے، زندگی آپ کی ہے تو فیصلہ بھی آپ کا ہونا چاہیے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ سماج کو بالکل نظر انداز کر دیں بلکہ سماج کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو سنواریں، بنائیں اسے ترتیب دیں۔ ہر چیز کا ایک مقصد ہوتا ہے کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہوتی اس لیے سماج کو بھی بنیادی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ اپنی زندگی کا کوئی مقصد طے کریں کہ آپ کیا چاہتے ہیں آپ وہ کریں جو آپ کو خوشی اور اطمینان دے۔

جو آپ کے پاس ہے اس سے مطمئن ہو جائیں لوگوں کی طرف دیکھنا ان کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں۔ ورنہ زندگی کا دائرہ تنگ سے تنگ تر ہو جائے گا۔ یہی عمل انسان کو مثبت سے منفی سوچ کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ لوگ کون ہیں؟ یہ لوگ آپ ہیں یا میں ہوں۔ اگر ہر انسان انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ شروعات ہمیشہ خود سے کرنی چاہیے اس لیے شروعات خود کریں، نہ کسی پر بات کریں اور نہ کسی کو بات کرنے کا موقع دیں۔ مثبت سوچ ہی مثبت عمل کی طرف راغب کرتی ہے۔ اس لیے مثبت سوچیں اور اپنوں اور دوسروں کی زندگی آسان بنائیں۔ یہ بھی نہ ہو کہ آپ اتنے سنجیدہ ہو جائیں کہ زندگی کے مزے نہ لیں۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اس لیے زندگی سے لطف اٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments