جمہوریت یا آمریت، فیصلہ ضروری ہے


یہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ 1958 کے بعد سے بدترین آمریت کے جس دور کا آغاز ہوا تھا وہ تا دم تحریر جاری ہے اور یقین واثق ہے کہ اب یہ دور آمریت پاکستان کا مقدر بن کر مرزا غالب کے اس شعر کی مثل ہو چکا ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

ایوبی اور یحیائی دور کے بعد ”بھٹوئی“ دور شروع ہوا تو پاکستانی قوم کے دل و دماغ میں امید کی ایک کرن سی پھوٹی کہ شاید اب آثار سحر جمہوریت طلوع ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن افق پر چھانے والی شفق کی لالی جناب رحمان کیانی کی زبانی کچھ یہ کہتی ظاہر ہوئی کہ

لیکن اے دوستو صبح کی یہ دلہن
پھول جیسی نہیں شعلہ رخسار تھی
سرخ جوڑے میں بام افق پر کھڑی
اک سینہ نہیں قحبہ خوار تھی
یا ہمارے سروں پر چمکتی ہوئی
آسماں سے زمیں تک لٹکتی ہوئی
برق خونخوار تھی حلقہ دار تھی
خوں میں ڈوبی ہوئی ایک تلوار تھی

پاکستانی قوم جو کہ کٹ پٹ کر ویسے ہی آدھی رہ گئی تھی، ایک افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ آس لگا کر بیٹھ گئی تھی کہ ڈھائی دہائیوں کے بعد ہی سہی، شاید آمریت کے پنجہ خونی سے نجات کا راستہ نکل ہی آئے اور وہ ہاتھ جس نے ہمارے گلوں کو اس حد تک گھونٹ کر رکھا ہوا ہے کہ کسی آواز کا حلق سے نکلنا تو درکنار، زندگی بچانے کے لئے سانسوں کے تسلسل کو برقرار رکھنا بھی امر محال ہے، اب آہن و فولاد کے ہاتھوں سے ہماری گردنیں آزاد ہو جائیں گی اور ہم نہ صرف کھل کر لمبی لمبی سانسیں لے سکیں گے بلکہ جو دکھ آمرانہ دور میں اٹھائے ہیں ان کی اذیتوں کا اظہار بھی پوری آزادی کے ساتھ کر سکیں گے لیکن بہت جلد ہی اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ آسمان پر پھیلی ہوئی شفق کی یہ لالی صبح صادق نہیں، کاذب ہے اور آسمان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی یہ سرخی شفق کی نہیں بلکہ ہمارے اپنوں کے بہنے والے خون کی لالی ہے جس میں مظلوموں کی آہیں، نالے، چیخیں اور آسمانوں تک بلند ہونے والی آہ بکا بھی شامل ہے۔

جس کو قوم جمہوریت کی آمد آمد سمجھ کر جشن آزادی منا رہی تھی وہ جمہورت کی شکل میں ایک ایسی بدترین آمریت تھی جس کو پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین باب میں لکھا جائے گا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ مورت جو سر آئینہ کسی کو بٹھا کر ازخود پس آئینہ چلی گئی تھی پھر سے ابھر کر سر آئینہ آ بیٹھی۔ اس کے بعد سے تاحال چوہا بلی کا ایک کھیل ہے جو پاکستان کے مقدر میں ایسے دخول کر چکا ہے کہ جس کے ختم ہونے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔

پاکستان میں ہر آمریت کے بعد ایک نام نہاد جمہورت کا آنا اور جمہورت کے بعد ایک جلالی دور کا بار بار لوٹ آنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرے اور آپ سب کے مزاج اس حد تک بگڑ کر رہ گئے کہ نہ ہمیں جمہوریت کی کوئی تمیز رہی اور نہ ہی آمریت کی کوئی پہچان۔

ایک جانب جمہوریت اور آمریت کے سمندر کا یہ مد و جزر اور دوسری جانب عدل و انصاف کو ہر آنے والی حکومت نے ایسا چوں چوں کا مربہ بنا کر رکھ دیا کہ کسی کو یہ سمجھ میں آ کر نہیں دے رہا کہ ماضی کی ساری قانون شکنیاں، قانون کو ہاتھ میں لینے کے سویلین اقدامات اور دہشت گردیاں عین جمہوری تقاضوں کے مطابق تھیں یا اب وہی انداز دہشت گردی یا انتہا پسندی کہلائے جانے کا اصل حق دار ہے۔

حکومت وقت کا کہنا ہے کہ چند دن قبل تحریک لبیک پاکستان نے جو کچھ کیا ، وہ وہ نہ صرف انتہا پسندی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ ان کے سارے اقدامات ملک دشمنی کے مترادف ہیں۔ اس لئے ضروری تھا کہ ان کی تحریک کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ ٹھیک ہے، چند دن قبل جو کچھ ہوا وہ واقعی نہایت افسوس ناک تھا اور حکومتی اقدام اس لحاظ سے راست قدم کہلایا جا سکتا ہے لیکن چند سال قبل جو کچھ ہوا تھا وہ اس سے کچھ مختلف تو نہیں تھا۔

قادری صاحب جب دوبارہ پاکستان تشریف لائے تھے تو اسلام آباد کی پولیس کو اسی انداز میں مارا پیٹا گیا تھا اور ایک غیر ملکی کمپنی کا پورا مسافر بردار طیارہ کئی گھنٹے ہائی جیک کیے رکھا تھا۔ اس سے قبل قادری صاحب اور موجودہ حکمران پارٹی نے 126 دن تک پورے پاکستان کو یرغمال بنائے رکھا، ریڈ زون کو سنڈاس میں تبدیل کیے رکھا اور ریڈیو پاکستان سمیت کئی اہم سرکاری عمارات میں توڑ پھوڑ کے علاوہ قبضہ کیے رکھا۔

آج جو پی پی پھر سے آنکھوں کا تارہ بنی ہوئی ہے ، کیا اس کے دلائی کیمپس نہیں تھے جہاں مخالفین کو اذیت پہنچانے سے لے کر جان تک سے مار دیا جاتا تھا۔ جس کی ایک ذیلی تنظیم الذوالفقار نے دیگر ملک دشمن سرگرمیوں کے علاوہ پاکستان کا مسافر بردار طیارہ بھی ہائی جیک کیے رکھا تھا۔ 27 دسمبر 2007 کا کیا وہ تاریخی قتل عام، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کا پورا ہفتہ پاکستان کے ادارے بھلائے بیٹھے ہیں جب گوادر تا کراچی اور کراچی تا خیبر کے درمیان تمام سرکاری و نجی املاک کے علاوہ ہر قسم کی چھوٹی بڑی گاڑیوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود کیا طاہر القادری، عمران خان اور آصف زرداری کی جماعتوں پر آج تک کوئی پابندی لگائی گئی۔ نہ صرف یہ کہ ان جماعتوں پر پابندیاں عائد نہیں کی گئیں بلکہ پورے پاکستان کو پھونک ڈالنے کے باوجود پی پی کے سب سے بڑے سردار کے ہاتھ میں پورے پاکستان کی کمان پکڑا دی گئی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی جیسی جارح جماعت کے سربراہ کو پاکستان کے وزیراعظم کے کے لئے سلیکٹ کر لیا گیا۔

بحث یہ نہیں کہ تحریک لبیک پر پابندی لگانا درست ہے یا غلط، بحث یہ ہے کہ جب جرائم ایک جیسے ہی نہیں بلکہ موجودہ سے پہلے والوں کے ہزار درجے بڑھ کر ہوں تو سزائیں الگ الگ کیوں؟

جن جن بنیادوں پر اے این پی، ایم کیو ایم، اور ٹی ایل پی پر پابندیاں عائد کیں اور ان کو معتوب کر کے پورے پاکستان میں ان کی سرگرمیوں کو مفلوج کر دیا گیا ہے، ان کے جرائم سے کہیں بڑھ کر ایسی پارٹیوں اور ان کے سربراہوں کو پاکستان کا تخت و تاج کس بنیاد پر سونپا گیا تھا اور اب سونپ دیا گیا ہے۔

جب تک پاکستان میں پارٹیوں کی توڑا پھوڑی، دوہرا معیار انصاف جاری رہے گا اور جمہوریت کے لبادے اوڑھ کر آمریت کی انگلیوں میں بندھی ڈوریوں کو ہاتھوں سمیت توڑ کر الگ نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک اس خوش فہمی میں رہنا کہ پاکستان ترقی کی منزلیں طے کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، ایک ایسا خواب ہے جس کی اس جہانِ رنگ و بو میں کوئی تعبیر موجود ہی نہیں ہے لہٰذا ضروری ہے کہ صاحبان اختیار و اقتدار دورنگی چھوڑ کر یک رنگ ہو جائیں ورنہ جو منزل نگاہوں کے سامنے ہے وہ کوئی بہت غیر واضح نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments