چالان بر گردن راوی


اگر مزاح نگار طنز نگاری شروع کر دیں تو سمجھیں کہ کہ ملک سنسرشپ کا شکار ہے اور اگر وہ پھر سے مزاح نگار بن جائیں تو سمجھ جائیں کہ مارشل لاء لگ چکا ہے۔ اس فلسفے کی آمد تب ہوئی جب لوگوں نے پوچھا کہ نئے طریقے سے ایسا مزاح کیسے تخلیق کیا جاسکتا ہے؟ جو اپنا اپنا معلوم ہوتا ہو۔ دیکھی، سنی، سامنے کی بات لگتی ہو۔ یہ پوچھنے والے دراصل ہمارے حصے کے بے وقوف تھے۔ وہ نا سمجھی میں اپنے سوال کا خود ہی جواب دے رہے تھے اور ہمیں ایک نئے مضمون کے لیے موضوع بھی!

بھئی! جب لوکل مزاح چاہیے تو ظاہر ہے کہ یہ ملے گا بھی دائیں بائیں سے ہی۔ آپ انور مسعود کو بھول گئے کیا؟ جن کا بے شمار شاعری کے علاوہ یہ بھی کہنا ہے کہ ”میں نے لوگوں کے منہ سے باتیں لے کر ان کے کانوں کو واپس کر دی ہیں“ ۔ ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ بس لوگوں کے منہ لگنے کے علاوہ سوشل میڈیا کا چکر وکر بھی لگاتے رہتے ہیں۔ آج کل سٹیج ڈراموں سے زیادہ نپی تلی جگتیں ”میمز“ کے نام پر یہاں ملتی ہیں۔ ”کھوچل“ میڈیا کے ساتھ ملکی و غیر ملکی اخبارات کے ویب ورژن بھی ہمارے تصرف میں رہتے ہیں۔

ارد گرد سے مزاح پارے ڈھونڈنے کا تذکرہ چلا ہے تو آپ یہی دیکھ لیں کہ کچھ ماہ پہلے جب این ڈی ایم اے کے ایک جنرل صاحب نے یہ بیان داغا کہ ”سویلین ان کاموں کے لیے ٹرین نہیں ہیں“ تو ایک دل جلے کا اس پر کمنٹ کئی کتابوں سے بھاری نکلا۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ نئے قانون کے بعد اب وہ کہیں دو سال کے لیے چکی پیس رہے ہیں یا نہیں؟ بہرحال، انہوں نے ابن انشاء سے ایک مصرعہ مستعار لے کر سویلین بالا دستی یوں ثابت کر دی کہ ”ہم چپ رہے ہم ہنس دیے منظور تھا پردہ تیرا!“

ایسے ہی برطانوی براڈ کاسٹ کی ایک خبر کے مطابق آزاد کشمیر پولیس نے مقبوضہ علاقے کے دو جاسوس پکڑ لیے۔ یہ اللہ لوک آزاد کشمیر میں بھارتی کرنسی استعمال کر رہے تھے۔ جب پولیس نے انہیں گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے پیش کیا تو ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ”میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ ہمیں رہا کیا جائے“

پنجاب پبلک سروس کمیشن کا اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے والا اسکینڈل عام ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست پی پی ایس سی کا پیپر دے کر واپس آئے۔ پرچے کے بارے میں استفسار کیا تو کہنے لگے کہ جیسے ایک ہندی مووی میں طالب علم ’جے ماتا دی‘ کہہ کہہ کر اول پوزیشن لے لیتا ہے۔ میں نے بھی بالکل ویسے ہی کیا ہے۔ ہر سوال پر کلمہ شریف پڑھتا رہا اور آنکھیں بند کر انگلی گھماتا رہا۔ جہاں جہاں کلمہ ختم ہوا اور انگلی رکی، وہیں نشان لگا آیا ہوں۔ اس نشست میں ہمارے ان کے ایک بے تکلف بزرگ بھی تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے اس سٹریٹجی کا سنا تو کہنے لگے کہ ”برخوردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ کہ جب رزلٹ نکلے تو تمہیں صرف ثواب ہی ثواب ملے“ ۔ یہ جملہ عملی مزاح میں یوں بدل گیا کہ ان کی پیش گوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments