مسئلہ تنگ نظری نہیں بلکہ ریاستی دماغ ہے

وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


بالآخر ریاستِ پاکستان نے تحریکِ لبیک کو پرتشدد ہنگاموں کے بعد کالعدم قرار دے دیا۔ نیکٹا کی فہرست کے مطابق اب ایسے گروہوں اور تنظیموں کی تعداد اسی ہو گئی ہے جنھیں پاکستان میں کھلم کھلا کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں۔

اگلا منطقی قدم اس تنظیم کو بطور ایک سیاسی جماعت تحلیل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا ہے۔

تو کیا ایسی تنظیموں کی قیادت اور متحرک کارکنوں کو کسی نئے گروہ کی تشکیل اور کسی نئے نام کے ساتھ ابھرنے سے روکنے کا بھی کوئی بندوبست ہے؟ اس بارے میں بظاہر کوئی پالیسی لائن ہے بھی تو غیر واضح ہے۔

نوبت یہاں تک جا پہنچنے میں خود ریاست کا اپنا کردار کیا ہے؟ وہ بار بار ڈسے جانے کے باوجود کیوں اس زعم سے نکلنے پر تیار نہیں کہ ان تنظیموں کو مخصوص سیاسی و خارجہ مقاصد کے لیے پالا جا سکتا ہے اور ضرورت ختم ہونے پر آسانی سے مٹایا بھی جا سکتا ہے۔

ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن ان تنظیموں کے پھلنے پھولنے اور پھر بعد از خرابیِ بسیار ان تنظیموں کو اکھاڑ پھینکنے کی نیم دلانہ کوششوں کے سبب سماج کے پہلے ہی سے کمزور تار و پود کو جو مسلسل ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، کیا ریاست کو اس کی سنگینی کا بھی ادراک ہے؟

اگر ریاست کا یہ خیال ہے کہ چونکہ اس کے پاس ایک منظم، مؤثر اور جدید عسکری اور انٹیلی جینس نظام ہے اور وہ ایٹمی طاقت بھی ہے لہٰذا شدت پسندی کی آگ سے کھیلنا اور اسے بطور ہتھیار استعمال کرنا اور پھر وقت پڑنے پر بجھا دینا کوئی مسئلہ نہیں تو شاید ہی اس سے بودی سوچ ممکن ہو۔

المیہ یہ ہے کہ آج بھی مرض کو پہلے کی طرح محض سیاسی و سٹریٹجک موقع پرستی کے عدسے سے پرکھا جا رہا ہے اور اسی کے مطابق فیصلے ہو رہے ہیں، ایسے فیصلے کہ جن کی پائیداری کے بارے میں خود ریاست بھی پُریقین نہیں ہے۔

کیا واقعی ریاست تنگ نظری کا کنواں پاٹنا چاہتی ہے یا آئندہ بھی کینسر کا علاج پین کلرز سے کرتی رہے گی؟ اس کا جواب فی الوقت کسی کے پاس نہیں۔

محمد عامر رانا پاکستان کے ایک جواں سال بیدار مغز سیکورٹی تجزیہ کار ہیں۔ آج ہی اس بابت ان کا روزنامہ ڈان میں تازہ مضمون پڑھ رہا تھا۔ چاہتا ہوں کہ یہ گتھی سلجھانے میں مدد کے لیے ان کے کچھ اقتباسات پیش کروں۔

‘کیسی ستم ظریفی ہے کہ آج 30 ہزار سے زائد مدارس، تمام جامعات و کالجوں میں اسلامک سٹڈیز کی اعلیٰ سطح تک تعلیم اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کی موجودی کے باوجود ہم اس معیار کے سکالرز ایک مناسب تعداد میں پیدا کرنے سے قاصر ہیں جو دیگر مسلمان سماجوں میں ان سے کہیں کم ادارے پیدا کر رہے ہیں۔

‘کوئی بھی گوگل کی مدد سے دیکھ سکتا ہے کہ سماجی، ریاستی و مذہبی موضوعات پر ہونے والے بین الاقوامی مباحث و مجالس میں ہماری نمائندگی اور گفتگو کا معیار کیا ہے۔ اس ناطے پاکستان کے جو چند نام گھوم پھر کے سامنے آتے رہتے ہیں ان میں سے کسی کا تعلق کسی ریاستی مذہبی بیانیے کے منصوبے یا ادارے سے نہیں یا پھر وہ ہیں جو جان کے خوف سے بیرونِ ملک مقیم ہیں۔

‘دوسری جانب علم سازی کے بنیادی منصب کو مذہبی مدارس کے معاشی و سیاسی مفادات نے پابہ زنجیر کر رکھا ہے۔ ریاست ان مدارس اور ان کی محرک تنظیموں کو راضی رکھنے کے لیے ان کے مطالبات یا دباؤ کے تحت قوانین کے نفاذ کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے۔ ریاستی ادارے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر کچھ مذہبی تنظیموں پر ہاتھ رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے۔ دونوں فریق مخالفت میں بھی ایک دوسرے کے مفاداتی دائرے کا بخوبی خیال رکھتے ہیں۔ جب ان میں سے کچھ تنظیمیں آپے سے باہر ہونے لگیں تو ریاستی ادارے ان کے تھوڑے بہت پر بھی کاٹ دیتے ہیں۔

‘اگر ریاست واقعی مذہبی رواداری اور علم سازی کے فروغ میں مخلص ہو تو یہ بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ بس اتنا کرنا ہے کہ ہر مکتبہِ فکر کے معیاری علما کی میڈیا، سیمیناروں اور قومی مباحث میں شرکت کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔‘

‘ایسے چند درجن سکالرز جو اپنی معقولیت کے سبب سماجی حلقوں میں قابلِ احترام ہیں اور ان کا اپنا کوئی مخصوص سیاسی ایجنڈا بھی نہیں۔ اُنھیں تلاش کر کے ان کی فہرست بنانا اور ان کے لیے مواقع کھولنا آخر کتنا مشکل ہے؟ کیا اُنھیں سن کر دماغوں کی بند کھڑکیاں زرا بھی نہیں کھلیں گی؟

‘یقیناً جن کی روزی روٹی مذہب فروشی سے وابستہ ہے وہ اس تبدیلی پر ردِعمل دکھائیں گے لیکن ریاست اگر موقع پرستی کی عادت سے چھٹکارا پا کر ہمت کے ساتھ ثابت قدم رہے تو کچھ عرصے بعد سیاہ بادل چھٹتے ہوئے بھی دکھائی دیں گے۔

‘اہلِ اقتدار تنگ نظری و شدت پسندی کے مرض کی نوعیت و بنیادی اسباب جانے بغیر اس سے نجات کے لیے مسلسل بیانیے اور جوابی بیانیے کا راگ الاپتے رہتے ہیں، مگر بیانیہ سرکاری بابو گیری ذہن مرتب نہیں کر سکتا۔

‘یہ اتنا ہی آسان ہوتا تو نیشنل ایکشن پلان اور پیغامِ پاکستان سکیم کے تحت جاری فتویٰ کی تشہیر جیسے منصوبوں سے سماج میں کچھ نہ کچھ تبدیلی تو نظر آتی۔

‘بیانیہ آرڈر پر تیار ہونے والا مال نہیں ہوتا۔ یہ عمل مرحلہ وار، صبر آزما اور معقولیت سے بھرپور سکالرشپ کے ذریعے رفتہ رفتہ بند زہنوں کے در کھولتا ہے۔ اور اس فضا کے فروغ کے لیے اسی معیار کے علمی دماغ بھی درکار ہیں۔ ریاست کا کام محض اُنھیں مواقع دینا اور تحفظ فراہم کرنا ہے۔’

اب گیند ریاست کے کورٹ میں ہے۔ کیا وہ واقعی سماج کا ذہن بدلنا چاہتی ہے یا پھر موجودہ کٹھ مذہبی ریاستی آزمودہ گٹھ جوڑ کو اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے بدستور استعمال کرنا چاہتی ہے؟

دو کشتیوں میں ہر وقت پیر رکھنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ بھلے ملّاح کتنا ہی ذہین اور تجربہ کار کیوں نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).