کوئٹہ میں سریاب روڈ کی توسیع کے لیے دکانیں مسمار: والد کا کاروبار، بیٹے کا ہوم ورک دونوں سڑک کنارے

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


دکان، کوئٹہ کاروبار

کوئٹہ شہر میں روڈ کی توسیع کے ایک بڑے منصوبے کے باعث دکانداروں کی بہت بڑی تعداد اچانک روزگار کے مواقع ختم ہونے سے ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہوگئی ہے لیکن ان میں سیدگل سریانی ایک ایسے دکاندار ہیں جونان شبینہ کا محتاج ہونے سے پہلے پہلے اپنے کاروبار کی بحالی کا ایک انوکھا حل نکالا۔

سیدگل کا کہنا ہے کہ جب انھیں سات گھنٹے میں دکان خالی کرانے کا نوٹس مل گیا تو وہ لمحہ ان کے لیے کسی طرح بھی قیامت سے کم نہیں تھا کیونکہ سرکاری اہلکاروں نے انھیں بتایا تھا کہ ’دوسری صورت میں ان کی دکان گرادی جائے گی‘۔

چونکہ دکان میں موجود سامان ہی سے ان کا گھر چلتا تھا اس لیے اس سامان کو نقصان سے بچانے کے لیے ان کے پاس دکان خالی کرانے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔

سید گل نے وقتی طور پر اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے ایک انوکھا حل تو نکالا لیکن متاثرہ دکانداروں کے احتجاج کی وجہ سے انھیں اپنی دکان دوبارہ فوری طور پر بنتی دکھائی نہیں دے رہی جس کے باعث ان کو خدشہ ہے کہ آمدن کم ہونے سے ان کا کاروبار کہیں ختم نہ ہوجائے۔

یہ بھی پڑھیے

والد جو بیٹی کی شادی کے جوڑے اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہے ہیں

بلوچستان اسمبلی نے اراضی خریدنے کا اختیار غیر حکومتی اتھارٹی کو کیوں دیا؟

بلوچستان کا لاپتہ لیویز اہلکار:’ بھائی کو بازیاب کروا کر ہماری خوشیاں لوٹا دیں‘

بلوچستان میں ایران سے لوٹنے والے چھ شیعہ زائرین اغوا

دکان، کوئٹہ کاروبار

سید گل کوئٹہ شہر میں سریاب کے علاقے کے رہائشی ہیں۔

وہ اپنے خاندان کی روزی روٹی کا بندوبست ایک چھوٹی سی دکان سے کرتے تھے جو کہ سریاب روڈ پرڈگری کالج کے پاس گرڈ سٹیشن کے بالمقابل تھیں۔

کرایے پر یہ دکان تیس سال پہلے ان کے والد نے لی تھی لیکن والد کی وفات کے بعد انھوں نے دکان کو سنبھالا اور بوڑھی والدہ سمیت خاندان کے آٹھ افراد کا گزر بسر اسی دکان سے ہوتا رہا۔

سیدگل کا کہنا تھا کہ یہ دکان صرف ان کی آمدن کا ذریعہ نہیں بلکہ انھیں اس سے لگاﺅ بھی تھا کیونکہ ان کے بچپن اور لڑکپن کے دن والد کے ساتھ اسی دکان میں گزرے۔

جس دکان میں بیٹھ کر وہ اپنا کاروبار چلاتے تھے اب گرائے جانے کے بعد مالک نے اس کے ملبے کو بھی ہٹا دیا تھا۔

اپنی دکان کی سمت میں اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کے اندر بیٹھے تھے کہ حکومتی اہلکار آئے اور انھیں نوٹس تھما دیا۔ ’سرکاری اہلکار دس بجے آئے اور کہا کہ شام پانچ بجے تک دکان خالی کریں ورنہ اسے گرا دیا جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’چونکہ میرے پاس کوئی سفارش نہیں تھی اور نہ ہی اتنا بڑا اثر و رسوخ تھا کہ دکان کو گرائے جانے سے کچھ دن تک روک سکوں اس لیے فوری طور پر اپنے رشتہ داروں اور جاننے والے سب کو بلالیا اور سامان کو گھر منتقل کیا۔‘

’سامان اس لیے گھر منتقل کیا کیونکہ میرے لیے کسی اور جگہ پر کرایے کی دکان لینا ممکن نہیں تھا۔‘

سید گل کا کہنا تھا کہ سامان جلدی سے گھر منتقلی کے دوران بہت سارا سامان ٹوٹ بھی گیا کیونکہ اکثر سامان شیشے کا تھا۔

سریاب روڈ کی توسیع کے منصوبے کے باعث سیدگل کی طرح اب تک سینکڑوں دکاندار متاثر ہوئے ہیں جبکہ مزید کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

مرکزی انجمن تاجران بلوچستان تاجران کے صدر رحیم کاکڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ سریاب روڈ کی توسیع کے منصوبے سے مجموعی طور پر دو ڈھائی ہزار دکاندار متاثر ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک جو دکاندار متاثر ہوئے ہیں ان کی تعداد 12 سو کے لگ بھگ ہے۔

روڈ کی توسیع کے منصوبے کی وجہ سے ہر دکاندار پریشانی سے دوچار ہے لیکن سیدگل نے انوکھے حل کے ذریعے اپنے کاروبار کو کسی حد تک بحال کیا۔

دکان، کوئٹہ کاروبار

سیدگل نے بتایا کہ یہ دکان ان کے خاندان کی روز روٹی کا واحد ذریعہ تھا۔ اس لیے جب دکان کا سامان گھر والوں نے دیکھا تو وہ سب پریشان ہوگئے کہ اب گزارا کیسے ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ان کو خیال آیا کہ گرائی گئی دکان کے سامنے سامان رکھ کر ان کو فروخت کرنے کا سلسلہ کیوں نہ شروع کیا جائے۔ لیکن ایسے میں روز سامان کو گھر لانے اور لے جانے کا انتظام کیسے ہو گا۔

’سامان لانے اور لے جانے کے لیے میرے ذہن میں چنگچی (رکشہ) خریدنے کا خیال آیا۔‘ اور ان کے پاس جو جمع پونجھی تھی انھوں نے اس سے چنگچی رکشہ ہی خرید لیا۔

چنگچی خریدنے کے بعد سید گل کے روز کا یہ معمول ہے کہ وہ صبح دکان کے سامان کے ساتھ اس میں پہلے بچوں کو سکول چھوڑتے ہیں اور پھر سریاب روڈ پر آکر سامان کو پرانی دکان کے سامنے رکھ کر خریداروں کا انتظار کرتے ہیں۔

چونکہ دھول اور مٹی ہر وقت اُڑ رہی ہوتی ہے اس لیے سامان کو ہر وقت صاف کرنے اور ان سے مٹی جھاڑنے کا جتن بھی کرنا پڑتا ہے۔

اگرچہ سیدگل نے اپنے کاروبار کو کسی حد تک بحال کیا ہے لیکن وہ اپنی آمدن سے مطمئن نہیں ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’پہلے جب دکان تھی تو اس وقت دن میں آٹھ سے نو ہزار روپے کی بِکری ہوتی تھی جس سے گھر کا گزارا ہوتا تھا لیکن اب وہ فروخت 15 سے دو ہزار روپے تک رہ گیا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو مجھے ڈر ہے کہ دکان کا سامان ہمارے گھر کے خرچے پر کہیں ختم نہ ہو۔‘

بیٹے کے سکول کا ہوم ورک بھی سڑک کنارے

بیٹے کے سکول کا ہوم ورک بھی سڑک کنارے

جہاں سڑک کنارے کھلے آسمان تلے دکانداری سید گل کے لیے کسی پریشانی سے کم نہیں ہے اسی طرح کی پریشانی اور مشکلات کا سامنا سیدگل کے بڑے بیٹے کو بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ بیٹا سکول کے بعد ان کا ہاتھ بٹانے آتا ہے۔

چونکہ ان کو شام تک والد کا ہاتھ بٹانا پڑتا ہے اس لیے ان کو ہوم ورک روڈ کنارے ہی کرنا پڑتا ہے۔

سیدگل نے بتایا کہ جب دکان قائم تھی تو اس وقت بھی ان کا بیٹا سکول کے بعد ان کی مدد کے لیے آتا تھا لیکن اس وقت دکان کے اندر ایک بہتر ماحول میں بیٹھ کر سکول کا کام کرتے تھے لیکن اب یہاں دھوپ اور دھول ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ باہر روڈ پر پڑھنا بھی بچے کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ دھوپ کے ساتھ ہر وقت مٹی بھی اُڑ رہی ہوتی ہے۔ ’ابھی پھر بھی موسم بہتر ہے لیکن آگے چل کر گرمیاں ہوں گی تو میرے اور بچے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔‘

جس طرح کی مشکلات سے سید گل اور ان کا بیٹا دوچار ہیں وہ سریاب روڈ کے ہر متاثرہ دکاندار کی کہانی ہے، خواہ وہ کرایے پر کاروبار کرتا تھا یا اس کی اپنی دکان تھی۔

سریاب روڈ کے دکانداروں کی مشکل کا فوری حل دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ کم معاوضہ ملنے پر پراپرٹی مالکان نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے جن کے ساتھ متاثرہ دکاندار بھی شریک ہیں۔

اس احتجاج سے نہ صرف اس روڈ پر دوبارہ دکانیں تعمیر کرنے میں تاخیر ہوسکتی ہے بلکہ خود روڈ کی توسیع کا منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔

پراپرٹی مالکان نے احتجاج کا سلسلہ کیوں شروع کیا ہے؟

اگرچہ سریاب روڈ کے دکاندار اور ان کے مالکان سریاب روڈ کی توسیع کے منصوبے کے خلاف نہیں ہیں لیکن وہ گذشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے احتجاج پر ہیں۔

دکان، کوئٹہ کاروبار

ان کا کہنا ہے کہ انھیں ان کی پراپرٹی کا جو معاوضہ دیا جارہا ہے وہ انتہائی کم ہے اور کسی طرح بھی انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔

مرکزی انجمن تاجران بلوچستان کے صدر رحیم کاکڑ نے بتایا کہ سریاب روڈ پر کمرشل ریٹ فی فٹ 30 ہزار روپے ہے لیکن حکومت دکان مالکان کو اس کے صرف 690 روپے دے رہی ہے۔

انھوں نے اسے تاجر برادری کے ساتھ ایک ’مذاق‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 690 روپے میں تو کوئٹہ کے دور دراز کے علاقے میں رہائشی مقاصد کے لیے اراضی نہیں ملتی جبکہ سرکار لوگوں کو ان کی کمرشل اراضی کا انتہائی کم معاوضہ دے رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت دکان مالکان کو ان کا جائز معاوضہ دے یا اس کے مطابق متبادل جگہ دے جیسے اس سے قبل سیٹلائٹ ٹاﺅن بس اڈے کے متاثرہ دکانداروں کو ہزار گنجی میں دکانیں دی گئیں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دکانداروں اور تاجروں کا مطالبہ جائز ہے اور اگر ان کے جائز مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا تو عید کے بعد بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔

معاوضوں سے متعلق حکومتی موقف کیا ہے ؟

دکان، کوئٹہ کاروبار

سریاب روڈ کے متاثرہ دکان مالکان کے احتجاج پر تین روز تک مسلسل فون پر بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی اور دیگر اہم عہدیداروں سے رابطے کی کوشش کی گئی انھوں نے کال وصول کی نہ پیغامات کا جواب دیا۔

کمشنر کوئٹہ ڈویژن اسفندیار کاکڑ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سریاب روڈ کے متاثرہ دکانداروں کے معاوضے کی جو قیمت ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے لگائی ہے وہ قانون کے مطابق اتنی ہی بنتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کسی بھی علاقے میں اراضی کے حصول کے لیے قانون کے مطابق جو ریٹ مقرر کرتا ہے وہ اس علاقے میں ایک سال سے تین سال کے درمیان ہونے والے ٹرانزیکشن کا جائزہ لیتا ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ اس کا ریٹ مقرر کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس علاقے میں گذشتہ دو تین سال کے دوران جو ٹرانزیشکشن ہوا ہے اس کے مطابق فی فٹ 690 روپے ہی بنتا ہے جو کہ ڈپٹی کمشنر نے مقرر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’قانون کے مطابق اس ریٹ کو نہ ڈپٹی کمشنر تبدیل کرسکتا ہے نہ میں کرسکتا ہوں اور نہ ہی کسی اور کے پاس اس کا اختیار ہے۔‘

کمشنر نے بتایا کہ اگر لوگ اس ریٹ سے مطمئن نہیں ہیں تو وہ لینڈ ایکویزیشن ایکٹ کے سیکشن 18 کے تحت سیشن کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔

دکان، کوئٹہ کاروبار

سیدگل کا کہنا ہے کہ روڈ کی توسیع بھی ضروری ہے کیونکہ یہاں ٹریفک جام کا بڑا مسئلہ رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ توسیع سے یہ روڈ نہ صرف ٹریفک کی ضروریات کے مطابق بنے گا بلکہ اس سے علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا لیکن فی الحال ان کے ان جیسے سینکڑوں لوگوں کا کاروبار تباہ ہو کررہ گیا اور وہ مشکلات سے دوچار ہوگئے ہیں۔

سید گل نے کہا کہ دکان کے گرنے سے اب تک ان کے لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک کا نقصان ہوا۔ حکومت کی جانب سے دکانوں کے مالکان کو کچھ نہ کچھ ملے گا لیکن جو لوگ ان دکانوں میں کاروبار کرتے تھے ان کے نقصانات کے ازالے کے لیے کچھ نہیں ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دکانوں کے مالکان کا جو جائز حق بنتا ہے وہ ان کو دیا جائے تاکہ یہاں جلد سے جلد دکانوں کی تعمیر ہو اور لوگ دوبارہ اپنے کاروبار کو شروع کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp