سیڑھی



”دیوار کے ساتھ سیڑھی لگی ہوئی ہے“
” پھر دیکھتے کیا ہو۔ جلدی سے اوپر چڑھ جاؤ“
رات گزر گئی۔ سویرا ہونے سے پہلے ہی وہ ایک دوسرے کی انگلی پکڑے وہاں سے چل دیے۔

دن کے قریباً گیارہ بجے وہ دوبارہ اسی جگہ آئے تو دیواروں اور چھتوں پر سفیدی پھیرنے والا آدمی اپنی سیڑھی کو اٹھائے جنوب کے جانب پختہ اینٹوں سے بنی گلی میں چلا جا رہا تھا۔

” دیکھ۔ میں نہیں کہتا تھا کہ یہ پل بھر کا کھیل ہے، تو ہے ہی بزدل“

” یہ بات نہیں ہے شہباز“ یوسف نے اسے مطمئن کرنا چاہا ”میرے کپڑوں پر چونے کے سفید نشان ہوتے تو میں سیڑھی چڑھنے میں ذرا بھر بھی تأمل سے کام نہ لیتا۔ آخر کسی بھی کام کے کرنے کا کوئی جواز تو ہونا چاہیے!“

سیڑھی والے کا معمول یہ بھی تھا کہ وہ دن بھر لوگوں کے گھروں میں سفیدی کیا کرتا۔ اس کی نسواری رنگ کی قمیض پر جیسے دودھ خشک ہو گیا تھا۔ جب سے وہ اس نئی کالونی میں اپنی سیڑھی اٹھا کے آیا تھا، اس نے اپنی قمیض کو نہیں بدلا تھا، کہتا تھا ”میں اگر ابھی سے اپنی قمیض تبدیل کر دوں گا تو لوگ خواہ مخواہ شک میں مبتلا ہو جائیں گے“ اور کبھی کبھار وہ اپنے ذہنی تحفظ کا بھی اشارہ دیتا۔

”سیڑھی اگر میں کسی کے گھر میں رکھ کر بھول جاؤں تو پھر بھی لوگ اسے یوں میرے پاس اٹھا لائیں گے، جیسے وہ میت کو آخری مقام تک لانا نہیں بھول سکتے“

”دیکھتا کیا ہے؟ جا گھر چلا جا اور مزے سے سلفا اڑا“ شہباز تردد سے بولا۔

”رات کو تم نے جو میری پسلیوں پر کہنیاں ماری ہیں۔ اس سے میری جیب میں رکھے سگریٹ کے پیکٹ سے سارا تمباکو جھڑ گیا ہے“ ”کھا جائے گا اب بے چارے کو یہی غم“ شہباز نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ”تم ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ سیڑھی کے اوپر میں چڑھ جاؤں کیا سمجھتے ہو، میں نہیں جانتا تمہاری نیت کو“

”یار تم یوں ہی شک کرنے لگتے ہو۔ اب تک کسی تیسرے کے علم میں کوئی بات آئی ہے تو کہو“

یوسف کے اس جملے سے شہباز پر منوں پانی پھر گیا۔ جیسے کسی نے ابلتے شوربے کے نیچے سے یکایک آگ کھینچ لی ہو۔ لیکن اپنی اس کمزوری کو وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چناں چہ اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے اور چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا اور پھر چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو جانا اس کا روگ بن گیا۔ اس کی کوشش یہی ہوتی کہ یوسف سے گفتگو کے دوران اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکلے کہ وہ جھٹ سے کہہ دے ”اب تک کسی تیسرے کے علم میں کوئی بات آئی ہے تو کہو!“

رفتہ رفتہ یوسف اس کے شریفانہ رویے سے اکتانے لگا۔ وہ اسے گدگدی کرتا اور راہ چلتی عورتوں کی طرف متوجہ کرتا۔ لیکن شہباز ٹس سے مس نہ ہوا۔ کئی مرتبہ وہ کوئی بات جواباً ذہن میں لاتا تو اسے محسوس ہوتا، جیسے کوئی تیسرا آدمی اس کی بات کو کان کھولے غور سے سن رہا ہے۔

ایک دن وہ کالونی سے باہر املتاس کے درختوں کی چھاؤں میں سڑک پر چل رہے تھے۔ سڑک املتاس کے زرد پھولوں سے اٹی ہوئی تھی۔ لو کے تیز جھونکے درختوں میں سے گزر رہے تھے۔ چلتے چلتے وہ پولیس اسٹیشن کے قریب پہنچے۔ چھت پر کچھ حوالاتی اپنے اپنے ہاتھوں میں جھاڑو لیے کھڑے تھے۔ شاید ان کے ذمہ چھت کی صفائی کا کام تھا، دیواروں پر کالونی میں رہنے والا آدمی سفیدی پھیر رہا تھا۔

”یہ زرد پھولوں والے املتاس کے درخت جو تم دیکھ رہے ہو، گوردن کے حکم سے یہاں لگائے گئے تھے“ شہباز نے ایک مدت کے بعد پہلی بار اپنے منہ سے یہ بے تکلفانہ فقرہ اگلا۔

یوسف چاہتا تھا کہ وہ اب اسی موڈ پر قائم رہے۔ اسے ڈر تھا کہ ان کے درمیان تھوڑی سی خاموشی بھی در آئی تو شہباز کی سنجیدگی پھر سے غلبہ پائے گی۔ چناں چہ وہ توقف کے بغیر بولا ”یار شہباز اپنے باپ کے حوالے سے تمہاری باتیں بہت دلچسپ ہوتی ہیں۔ آج کوئی پرانی بات سناؤ“

”میرا باپ کہتا تھا“ شہباز نے پولیس اسٹیشن کی جانب انگلی اٹھائی ”جب وہ ملازمت میں تھا، تو ایک روز وہ کم رفتار چھوٹے جہاز میں بیٹھ کر دیہات کے ایک تھانے کے اوپر سے گزرا تھا۔ اسے لگا تھا کہ تھانے کی حویلی میں دھتورے کے پھول اگے ہیں“

”ہاں شہباز وہ سچ کہتا تھا۔ تھانے کے اندر کرسیوں پر بیٹھے سفید پگڑیوں والے لوگ بلندی سے دھتورے کے پھول دکھائی دیتے ہوں گے“

” اور وہ ہوتے بھی تو ہو بہو دھتورے کے پھول ہیں“ شہباز نے اپنی بات کو پورا کیا ”باہر سے خوش نما، اندر سے لیس بھرے!“

یوسف کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ وہ کافی آگے جا چکے تھے۔ یکایک شہباز پھر گویا ہوا ”یہ سفیدی پھیرنے والے کے بھائی کے متعلق کیا قصہ مشہور ہے؟“

” پہلے یہ بتاؤ، تم اس بارے میں کتنا کچھ علم رکھتے ہو“ یوسف نے جلدی جلدی پوچھا۔
” بس یہی کچھ کہ وہ ایک غریب آدمی تھا اور اس نے روزی کمانے کی غرض سے ایک سیڑھی تیار کروائی تھی“

شہباز کے جواب کو یوسف نے اپنے طور پر پھیلایا ”اور اس کا چھوٹا بھائی اس سے یہ سیڑھی چھین کر اس نئی کالونی میں آ بسا“

کوئی ڈیڑھ ایک ماہ بعد رات کو وہ کالونی میں سیر کرنے نکلے تو ہری بھری بیلوں سے لدی ایک دیوار کے ساتھ سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ شہباز نے آستینیں چڑھا لیں اور بندر کی طرح سیڑھی چڑھنے لگا۔ درمیان میں پہنچا تو منہ پھیر کے بولا ”جب تک دیوار کے اوپر نہیں جا بیٹھتا، یہیں موجود رہنا“

اتنے میں دیوار کے پرے بھاری قدموں کی آواز پیدا ہوئی اور پھر ایک سر اوپر سے نمودار ہوا۔

”مجھے اپنا مطلب نکالنے دو حرام زادو، میں کب سے یہ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے گلی گلی خوار ہوتا پھرتا ہوں!“ شہباز سیڑھی کے درمیان میں اٹک گیا۔

اور یوسف نے زمین پر کھڑے کھڑے سر کو نیچے جھکا لیا۔
پیچھے سے آواز آئی ”ان کو ہتھکڑی لگا دو، یہ دونوں چور ہیں!“

شہباز نے دھپ سے نیچے چھلانگ لگائی اور یوسف سے کہا ”تم تو کہتے تھے کہ اب تک کسی تیسرے کے علم میں کوئی بات نہیں آئی!“

محمد صفدر خان
Latest posts by محمد صفدر خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments