عفت اور نوید


عفت کا اور میرا ساتھ محض میاں (مرد) اور محض بیوی (عورت) کا ساتھ نہیں ہے بلکہ دو انسانوں کا ساتھ ہے ، ہم دونوں عورت (ناقص العقل) اور مرد (مکار) ہونے سے بلند ہو کر انسان ہونے کی سطح پر ملے ہیں ، اسی لیے ایک دوسرے کو مکمل کر سکے ہیں۔

مرد، عورت کو مکمل نہیں کر سکتا عورت مرد کو مکمل نہیں کر سکتی۔ مرد، مرد کو مکمل نہیں کر سکتا عورت، عورت کو مکمل نہیں کر سکتی ۔ جب مرد اور عورت اپنی اپنی سطح سے بلند ہو کر انسان ہونے سے جڑتے ہیں تب ہی ایک دوسرے کو مکمل کر سکتے ہیں کیونکہ عورت اور مرد کی اصل ایک ہے جو انسان ہے۔

عفت کو اور مجھے اپنے ہونے کے اثبات کی تلاش تھی ، اس نے میری گواہی دے کر مجھے مکمل کیا اور میں نے اس کی گواہی دے کر اسے مکمل کیا یعنی نہ عفت عورت ہے نہ میں مرد ہوں بلکہ ہم دونوں انسان ہیں اور فطرت کی نگاہ میں انسان انسان ہوتا (ہوتی) ہے نہ کہ مرد یا عورت۔

عفت نے اور میں نے اپنے بچوں کی مذہبی یا سیاسی conditioning نہیں کی ، ان میں زندگی کا شعور پیدا کیا اور انہیں انسان اور قدرت (فطرت) سے محبت کرنا سکھایا اور انہیں آزاد فضا میں سانس لینے کے لئے مذہبی فرقہ واریت اور سیاست سے دور رکھا تاکہ وہ فطرت سے ہم آہنگ ہو کر اس سے بلند ہو سکیں۔

ہم نے اس راستے میں بہت سرد و گرم دیکھے مگر ہمارا حوصلہ کہ ہم مستقل چلتے رہے اور آج بھی یہ سفر جاری ہے۔

عفت نے دہری ذمہ داری نبھائی یعنی تخلیقی عمل اور گھریلو ذمہ داری۔ اس نے اپنی گھریلو ذمہ داری کو تخلیقی عمل پر ہمیشہ فوقیت دی ۔ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو ہمارا گھر تباہ ہو جاتا، بچے دربدر ہو جاتے اور میں اپنے جنون کے ہاتھوں حواس باختہ ہو کر مر جاتا۔

مجھ سمیت عفت نے پورے گھر کو اپنی مضبوط قوت ارادی کے حصار میں لیا ہوا ہے۔

میں اپنی شریک سفر کے لئے ایک بہادر عورت کا تمنائی تھا ۔ جب میں نے عفت میں ایک بہادر عورت کو زندگی سے نبرد آزما دیکھا تو اس سے شادی کا فیصلہ کیا یعنی میری زندگی کے سارے صحیح فیصلے اسی فیصلے سے جڑے ہوئے ہیں۔

جس طرح افسانہ نگار کا شاعر کے ساتھ رہنا مشکل ہے۔ اسی طرح شاعر کا افسانہ نگار کے ساتھ رہنا مشکل ہے کیونکہ افسانہ نگار معاشرے کا جراح ہوتا ہے جبکہ شاعر طبیب۔ افسانہ نگار سخت گیر ہوتا ہے اور یہ اس کی فطری مجبوری ہے ورنہ وہ سماج کی برائیوں کی جراحی نہیں کر سکتا جبکہ شاعر سماج کا طبیب ہوتا ہے ۔ وہ سماج کو ماضی، حال، مستقبل کے آئینے میں دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتا ہے۔ اس کی نگاہ دور رس ہوتی ہے جبکہ دل نازک۔

عفت اور میں یعنی افسانہ نگار اور شاعر ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش ہیں کیونکہ ہمارا مقصد ایک ہے یعنی خود سماج کے لئے کارآمد انسان ہونا اور سماج کے لیے باشعور اور کارآمد انسان تیار کرنا۔

جب ہمارے بچے کمسن تھے لوگ ہم سے پوچھتے تھے کہ آپ اپنے بچوں کو مستقبل میں کیسا دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کے سوال کا ایک ہی جواب دیتے تھے کہ ہم انہیں باشعور انسان دیکھنا چاہتے ہیں جو رنگ، نسل، سیاست، مذہب، ملت اور قومیت سے آزاد ہو اور انسان بن کر انسان کے لئے سوچتا ہو۔

عفت نے اپنی آپ بیتی لکھ کر بہت ساری عورتوں کوحوصلہ دیا ہے کہ عورت کی زندگی میں اگر مقصد ہو تو وہ دشوار گزارراستوں سے حوصلے کے ساتھ گزر سکتی ہے۔ یہ آپ بیتی اس نے لکھی ہی نہیں بلکہ گزاری ہے یعنی یہ آپ بیتی ان عورتوں کے لئے راستے کا چراغ ہے جو زندگی میں کوئی مقصد رکھتی ہیں جبکہ ان عورتوں کیلے محض کہانی ہے جو شادی کر کے صرف بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں۔

اب جب کہ ہم دونوں دادی، دادا بن چکے ہیں اور ہمارا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ہماری جنگ جاہل سے نہیں بلکہ جہل سے ہے۔ اگر ہم دونوں مل کر ایک انسان کو بھی انسان بنا سکے تو ہم یہ سمجھیں گے ہم دونوں نے کامیاب زندگی گزاری ہے یعنی ہم دونوں اس دنیا میں بھی مطمئن رہے ہیں اور اس دنیا سے مطمئن جائیں گے بھی۔

محترمہ عفت نوید کی خود نوشت “دیپ جلتے رہے” کا پیش لفظ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments