میرے بچوں کا مستقبل کیا ہے؟



آج کے اس سائنسی دور میں جہاں نت نئے تجربات ہو رہے ہیں۔ وہیں سائنس نے ایک کلک میں دنیا ایک چھوٹی سی اسکرین پر آپ کے سامنے لا کر رکھ دی ہے۔ لیکن ہم اس ترقی کی دوڑ میں اب بھی بہت پیچھے ہیں، جس کی وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔

دینی اور دنیاوی تعلیم ہر فرد کی ضرورت ہے۔ جس سے معاشرے میں نکھار آتا ہے۔ ایک باشعور معاشرہ تعمیر ہی اس وقت ہوتا ہے جب اس معاشرے کا ہر فرد تعلیم یافتہ ہو۔ ہر معاشرے میں امیر غریب اور متوسط طبقہ ہوتا ہے۔ اور ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اسی طرح تعلیمی معاملات میں بچوں کے لیے بروقت صحیح تعلیمی ادارے کا انتخاب ایک اہم فریضہ ہے ہے۔

کراچی جیسے بھیڑ بھاڑ والے شہر میں ہر گلی محلے میں اسکول واقع ہے۔ ابتدائی تعلیم دینے کے لئے ان اسکولوں کا رخ کیا جا سکتا ہے لیکن جیسے جیسے تعلیمی مراحل طے ہوتے ہیں بچوں کو مناسب اسکول کی ضرورت پڑنے لگتی ہے۔ معاشرے میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لئے جدوجہد کرتا ہے اور اپنی آمدنی کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرتا ہے۔

اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا اور ان کو کسی قابل بنانے کے خواب دیکھنا جہاں والدین کا حق ہے وہیں ان کے خوابوں کے خریدار بازار میں منڈی لگا کر بیٹھے ہیں۔

پورے کراچی میں اگر مثال کے طور پر نارتھ ناظم آباد کا علاقہ پیش کیا جائے تو آپ کو ہر گلی میں بڑے نامور اسکولوں کی شاخیں نظر آئیں گی اور ہر شاخ میں ایک کلاس کے کئی کئی سیکشن ہوں گے ۔ اسی طرح سرکاری اسکولوں میں ہر کلاس میں اتنے بچے بھر دیے جائیں گے کہ استاد فرداً فرداً ہر بچے پر توجہ نہیں دے سکتا۔

اسکولوں میں غیر تربیت یافتہ استاد اور کلاس بھرو کی دوڑ میں تعلیم پر توجہ صفر ہو کر رہ جاتی ہے۔ جس کو پورا کروانے کے لئے ایک ٹیوشن مافیا ان علاقوں میں موجود ہے۔ نارتھ ناظم باد سے عائشہ منزل اسکول ہی اسکول اور پھر گلشن تک کی پٹی پر بڑے بڑے ٹیوشن سینٹر موجود ہیں۔ یہ منڈی بڑی ترکیب سے کام کرتی ہے، صبح اسکول میں نامکمل تعلیم دے کر بچوں کو ٹیوشن سینٹرز جنہیں عرف عام میں کوچنگ سینٹر بھی کہا جاتا ہے ، کا رخ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ جہاں بچوں کو پڑھائی کے نام پر پاس پیپرز کے ذریعے امتحانات کی تیاری کرائی جاتی ہے۔

کراچی میں انٹر بورڈ کی صفائی کے بعد اب شاید حالات بہتر ہو گئے ہوں ورنہ وہاں فیل شدہ بچوں کو سال بچانے کے لئے تیس تیس ہزار میں پاسنگ مارکس خریدنا پڑتے تھے۔ جس طرح تعلیم کا نظام ملک میں خاص کر کراچی میں تباہ کیا جا رہا ہے اس سے قوم کی نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔

کسی ملک و قوم کی ترقی کی وجہ ڈھونڈی جائے تو وہاں معیار تعلیم سب سے بلند ہو گا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کو اس اہم مسئلے کے بجائے دوسرے غیر اہم مسئلوں میں لگا دیا جاتا ہے۔ صبح شام ٹی وی پر ایسے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں جن سے عوام کی برین واشنگ ہو اور انہیں یہ پتا ہی نہ چلے کہ ان کے لئے اس وقت سب سے ضروری اپنے بچوں کا مستقبل ہے نہ کہ لوٹ کھسوٹ اور کرپشن۔

ایسے تو ہر شخص کو اپنے گھر کا خرچ بھی چلانا ہے اور اپنے بچوں کو تعلیم بھی دینا ہے۔ تیزی سے بڑھتی مہنگائی سے نبردآزما ہونے کے لئے وہ چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ گھنٹے کام کرے گا تاکہ اخراجات پورے کر سکے ۔ اس کے بعد اس میں اتنی توانائی نہیں بچتی کہ وہ اپنے بچے کے معمولات بھی صحیح سے دیکھ سکے ، لہٰذا کوچنگ سینٹر کا آسرا کر کے وہ بری الذمہ ہو جاتا ہے۔

ملک میں تعلیم کا نظام بہتر کرنا حکومت وقت کا کام ہے۔ اگر ہم اس ملک کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں تو فضولیات سے نکل کر اپنی قوم کے معماروں پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی ورنہ تو جس طرح ہمارا ملک پاکستان خواندگی کے حساب سے دنیا کے اور ملکوں میں پیچھے ہوتا جا رہا ہے ، ایک دن ہم اپنی پہچان کرانے کے قابل بھی نہیں ہوں گے ۔

ہم تعلیم اور خواندگی کے معیار میں کہاں کھڑے ہیں ، یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 58 فیصد ہے۔ پنجاب میں صورت حال دیگر صوبوں کی نسبت بہتر ہے۔ خواندگی کی شرح پنجاب میں سب سے بہتر 71 فیصد ہے۔ سندھ 69، کے پی کے 60 اور بلوچستان میں 50 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ پنجاب میں 64 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ بلوچستان کی 87 فیصد، سندھ 78 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 69 فیصد خواتین پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں۔ پنجاب میں 46 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔

پاکستان میں کچھ کمیونٹیز ایسی ہیں جو اپنے بچوں کو تعلیمی معاملات میں اسکالر شپ دیتی ہیں جیسے آغا خان اسکول کا تعلیمی نظام اور سہولیات قابل ستائش ہیں۔ وہ غریب اور نادار بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ یونیورسٹیز بھی یہ فرائض انجام دے رہی ہیں۔

ملک کی آبادی کے تناسب اور خط غربت سے نیچے آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جس سے ایسے لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے اور تعلیم کی اہمیت دلائی جائے۔ اس کے لیے حکومت کو تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے کام کرنا ہو گا۔ اگر وظائف دیے جائیں اور تعلیم مفت کر دی جائے تو شرح خواندگی میں نمایاں اضافہ ہو گا۔

اپنے ملک کا اگر ایشیا کے دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو شرح خواندگی میں بنگلہ دیش نے بھی پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا، جنوبی ایشیا کے 9 ممالک میں پاکستان کا 8 واں نمبر ہے، پاکستان تعلیمی میدان میں صرف افغانستان سے بہتر ہے۔

وفاقی وزارت تعلیم نے شرح خواندگی سے متعلق 10 سالہ رپورٹ جاری کر دی، جس کے مطابق پاکستان تعلیمی میدان میں خطے کے 9 ممالک میں 8 ویں نمبر پر چلا گیا، بنگلہ دیش نے بھی پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا، افغانستان خواندگی میں سب سے آخری نمبر پر موجود ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2008ء میں بنگلہ دیش تعلیمی میدان میں پاکستان سے پیچھے تھا تاہم اب وہ چوتھے نمبر پر جبکہ پاکستان 8 ویں نمبر پر ہے۔

رپورٹ کے مطابق مالدیپ تعلیمی میدان میں بازی لے گیا جہاں شرح خواندگی 99 فیصد ہے، سری لنکا 91 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ دوسرے اور ایران 86 فیصد تعلیم یافتہ آبادی کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ بنگلہ دیش کی شرح خواندگی 73 اور بھارت کی 69 فیصد ہے جبکہ پاکستان کی شرح خواندگی 57 فیصد اور افغانستان کی 32 فیصد ہے۔

اس سے پہلے کہ ہمارا ملک افغانستان سے بھی پیچھے چلا جائے ، ہمیں اس ملک کا تعلیمی نظام درست کرنا ہو گا۔ کوچنگ سینٹرز اور ٹیوشن سینٹرز کا رجحان ختم کرنا ہو گا۔ اسکولوں میں معیار تعلیم بلند کرنے کے لئے تجربہ کار اور تربیت یافتہ اساتذہ کی ضرورت کو پورا کرنا ہو گا۔

بین الاقوامی نظام تعلیم کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے نت نئے نصاب مرتب کرنے کے بجائے اپنی قومی زبان کے ساتھ بین الاقوامی زبان میں نصاب مرتب کرنا ہو گا۔ بچوں پر کتابوں کا بوجھ بڑھانے سے گریز کرنا ہو گا۔ تب کہیں جا کر ہم اس ملک کو اٹھان دے سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments