امریکہ، طالبان اور افغانستان


طالبان نے استنبول افغان امن کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا ہے ، عبوری حکومت کے قیام اور عام انتخابات بارے تمام امریکی تجاویز یکسر مسترد کر دی ہیں اور دوحہ معاہدے کی روشنی میں تمام غیر ملکی افواج کے فوری اور بلا تاخیر انخلا کا مطالبہ کر دیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے تازہ اعلان پر طالبان نے باضابطہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چونکہ فوجوں کے انخلا میں چند ماہ کی تاخیر اور 11 ستمبر 2021 تک اس کی تکمیل کا اعلان کیا گیا ہے ، امریکہ کا یہ فیصلہ دوحہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی اور عہد شکنی ہے۔

• اس معاہدے پر اقوام متحدہ، متعدد ممالک اور تنظیموں کے نمائندوں کی موجودگی میں دستخط کیے گئے تھے ، تمام گواہ ممالک اور تنظیموں کو چاہیے کہ امریکہ پر دباؤ ڈالیں، کہ معاہدے میں کیے جانے والے وعدوں پر عمل درآمد کریں اور بلاتاخیر اپنی تمام فوجوں کو افغانستان سے نکال لیں۔

• طے شدہد معاہدے اور وعدوں کے باوجود ابتدائی مرحلے میں چھ ہزار مجاہدین کی رہائی دس دن کی بجائے چھ ماہ تک بڑھا دیا گیا، اس کے بعد بین الافغان مذاکرات کے آغاز سے تین ماہ کی مدت میں بقیہ قیدیوں کی رہائی، بلیک لسٹ کا خاتمہ، ایک ہزار دو سو سے زیادہ معاہدہ دوحہ کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں اور آخرکار اب فوجوں کے انخلا کے مقررہ وقت میں چند ماہ کی تاخیر کا اعلان کر دیا گیا ہے جس سے ثابت ہو گیا ہے امریکیوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ وعدوں کے پابند نہیں ہیں۔

• تمام فریقوں کو سمجھنا چاہیے کہ امارت اسلامیہ طالبان نے اب تک معاہدے کی تعمیل کی، اس پر عمل درآمد کیا اور اسے تنازعہ کے واحد حل کا طریقہ سمجھا ہے، اب چونکہ امریکہ کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جو قانونی طور پر امارت اسلامیہ کے مجاہدین کو لازم اقدامات اٹھانے کی راہ ہموار کرتی ہے، تو آئندہ عواقب کی ذمہ داری امارت اسلامیہ پر نہیں بلکہ امریکی فریق پر عائد ہو گی اور امارات اسلامیہ کسی بھی قسم کا راست اقدام کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

• امارت اسلامیہ کسی صورت میں بھی مکمل آزادی کے مطالبے اور حقیقی اسلامی نظام کے نفاذ سے دستبردار نہیں ہو گی اور جارحیت کے مکمل اور یقینی خاتمے کے بعد افغان تنازعہ کے پرامن حل تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

دوسری طرف ‎پاکستانی غیرمشروط امریکی انخلا کو اپنی فتح مبین قرار دے رہے ہیں ۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی شہ دماغوں نے کمال ہوشیاری سے دونوں متحارب فریقوں امریکہ اور افغان طالبان کو بیک وقت اپنی دوستی کا یقین دلائے رکھا۔ اسی لیے 2014 میں کسی وقت دنیا ٹی وی چینل کے مزاحیہ پروگرام ”مذاق رات“ میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے تالیوں کی گونج میں اعلان کیا تھا کہ جب افغان جہاد کی تاریخ لکھی جائے گی تو سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے افغان کوہساروں میں سوویت یونین کو شکست فاش دی تھی اس کے ساتھ اگلا جملہ یہ بھی لکھا جائے گا کہ پھر پاکستان نے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں امریکہ کی مدد سے خود امریکہ کو بھی شکست دے دی تھی۔

‎اس پس منظرمیں امریکی پسپائی اور طالبان کی واپسی کو پاکستانی شہ دماغ اور فوجی حکمت کار اپنی فتح قرار دینے میں حق بجانب ہیں

‎اسی طرح واشنگٹن میں امریکی شاطر سابق پاکستانی وزیردفاع خواجہ آصف کے ایک ٹویٹ کا ذکر بڑے جوش و خروش سے کرتے ہیں جس میں انہوں نے ملا برادر اورسکریٹری مائیک پومپیو کی تصویر ٹویٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ بلاشبہ امریکہ سپرپاور ہے لیکن میرا خدا واحد و لاشریک سب سے بڑی سپر پاور ہے ہمارے ساتھ ہے اور آخر میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا۔

‎کہتے ہیں کہ 2008 میں نائب صدر بائیڈن نے اس وقت کے افغان صدر کرزئی پر واضح کیا تھا کہ امریکہ کے لیے پاکستان کابل سے ہزار گنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

‎شاطر اور بے رحم امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی تمام تر تردیدوں کے باوجود طالبان مذاکراتی ٹیم کے رہنما پاکستان سے ہی بات چیت کے لیے مختلف ممالک کا سفر کرتے ہیں اور اگر انہیں افغانستان میں برسرپیکار کمانڈروں سے فوری صلاح مشورے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ پاکستان واپس آ کر ان کمانڈروں سے اندرون افغانستان رابطہ کرتے ہیں۔

‎حقیقت یہ ہے کہ طالبان قیادت کو سفری دستاویزات اور ہوائی جہاز باضابطہ امریکی درخواست پر فراہم کیے جاتے ہیں جس کے تمام اخراجات امریکی دفتر خارجہ ادا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ملا عبدالغنی برادر کو امریکی درخواست پر کراچی سے رہا کیا گیا تھا۔

‎صدر بائیڈن نے 11 ستمبر تک امریکی فوج افغانستان سے نکالنے کا اعلان کر دیا ہے یکم مئی سے شروع ہونے والا انخلا غیرمشروط ہو گا جبکہ نیٹو افواج بھی امریکی فوج کے ساتھ ساتھ نکل جائیں گی 28 ملکی فوجی اتحاد کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اکٹھے آئے تھے اور اکٹھے واپس جائیں گے۔

‎افغان تنازعے کے اصل فریق طالبان نے امریکیوں کے شراکت اقتدار اور انتخابات کی تمام تجاویز مسترد کر کے استنبول افغان کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔

‎بائیڈن شروع دن سے افغانستان میں جاری لاحاصل جنگ سے جان چھڑانا چاہتے تھے لیکن اوباما دور میں وہ امریکی انتظامیہ کو مکمل انخلا پر آمادہ نہ کر سکے تھے ، بائیڈن اصرار کرتے ہیں کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل افغان جنگ کے لیے داؤ پر نہیں لگا سکتے ۔ ہمیں سماجی تفریق ختم کرنے، غربت کی پیش قدمی روکنے، براڈ بینڈ انٹرنیٹ اور 5 جی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے کام کرنا ہو گا اور کلی یکسوئی سے اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانا ہو گا۔

‎گزشتہ دو دہائیوں سے جاری لاحاصل جنگ پر 2 کھرب ڈالر ضائع ہوئے ، تین ہزار فوجی مارے گئے، 20 ہزار ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے ، لاکھوں افغان جنگ کی بھینٹ چڑھے اور ہمسایہ پاکستان میں اس جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں 70 ہزار افراد آئے تھے ، ستمبر 2021 سے پہلے اڑھائی ہزار امریکی فوجی اورنیٹو کے 7 ہزار سپاہی واپس چلے جائیں گے جو عددی اعتبار سے معمولی حیثیت رکھتے ہیں لیکن عالم یہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے ہاتھ سے اقتدار، اختیار اور اعتبار مٹھی میں بند ریت کی طرح تیزی سے پھسلتا جا رہا ہے۔ 73 ایکڑ پر پھیلے ہوئے افغان صدارتی محل کے سرسبز و شاداب سبزہ زار پر بہارکے موسم میں خزاں ڈیرے ڈال رہی ہے۔ اگرچہ اشرف غنی اب بھی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں پرجوش اور ولولہ انگیز تقاریر کر رہے ہیں ، مادروطن کے دفاع کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے دعویٰ بھی کیے جا رہے ہیں لیکن صدر غنی کے اپنے مشیر وزیر یہ نعرے اور دعویٰ سن کر زیر لب طنزیہ مسکراتے ہیں۔

‎اس وقت صدارتی محل کا مکین اب مسکین بن چکا ہے ، افغانستان کا سب سے اداس اور تنہا شخص، جسے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن توہین آمیز خط لکھتا ہے ، سفارتی ادب و آداب کی پروا کیے بغیر جھڑکتا ہے ”تو اور تم“ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ صدربائیڈن کے مشیر باور کرا رہے ہیں کابل سے غیر مشروط انخلا کے بعد اربوں کھربوں ڈالر خرچ کر کے تشکیل دی جانے والی افغان نیشنل آرمی ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ جائے گی۔ 1975 میں ویت نام سے انخلا کے بعد سائیگون میں کامل شکست والا ڈرامہ اب کابل میں دہرایا جائے گا۔

‎صدربائیڈن کہتے ہیں کہ جب ہم سے 20 سال میں 2 کھرب ڈالر خرچ کر کے اور ہزاروں سپاہیوں کی قربانی دے کر کچھ حاصل نہیں کر سکے تو اب ایک دو سال میں مزید اربوں ڈالر خرچ کر کے کون سا تیر مار لیں گے۔ اس لیے لاحاصل جنگ کا یہ باب ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہو گا ، ہمیں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے ، اس لیے ہمیں افغانستان میں اپنی فوجی رسد کی سپلائی لائن کا دفاع کرنے کی بجائے اقتصادی سپلائی لائن کے دفاع پر توجہ دینا ہو گی اور جمہوری نظام کو قابل عمل ثابت کرنے کے لیے مضبوط معاشی بنیاد فراہم کرنا ہو گی۔

‎یہ چینی تھے جو افغانستان اور عراق کی دلدل میں پھنسنے پر سب سے زیادہ خوش تھے۔ امریکی حکمت کاروں کی رات کی نیند فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر حرام ہو رہی تھی یا پھر ہم دوردراز افغان صوبوں پر اپنی عمل داری بحال کرنے پر ہلکان ہو رہے تھے۔ عین اس وقت چینی دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے تھے، جہاں کبھی امریکی سپرپاور کے ڈنکے بجتے تھے۔

‎گزرے برسوں میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے بیجنگ سکول میں ایک ماہر حکمت کار نے برملا کہا تھا کہ ہم بہت خوش ہیں کہ امریکی بے دریغ اپنے وسائل عراق کے صحراؤں اور افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ضائع کیے جا رہے ہیں۔

‎حقیقت پسندانہ حکمت یہی ہے کہ 2021 کے مسائل اور چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کے لیے 2001 والی کتاب بند کر کے آج کے زمینی حقائق سے نبردآزما ہوا جائے۔

‎واشنگٹن میں بائیڈن مخالف رجعت پسند انتہا پسند لابی بائیڈن کے فیصلے کو امریکی پسپائی اور شکت قرار دے رہی ہے وہ دانستہ اس حقیقت سے نگاہیں چرا رہے ہیں کہ فتنہ پرور ٹرمپ بھی 2021 دسمبر کرسمس سے پہلے فوجی انخلا کی خوش خبری سنا چکے تھے۔

امریکی شہ دماغ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ‎ہم ایک ہی وقت میں مختلف محاذوں پر بیک وقت نہیں لڑ سکتے۔ ‎اس لیے افغانستان سے مکمل انخلا ہی بہتر ہو گا، صرف سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے ضروری محافظ کابل میں رہیں گے۔

‎پینٹاگون کا اصرار تھا کہ امریکی انخلا کو مشروط رکھا جائے کہ اگر کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ کو تحلیل ہونے کے شدید خطرات درپیش ہوئے تو انخلا میں تاخیر کی جا سکتی ہے جسے صدر بائیڈن نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

‎بائیڈن کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ میرے لیے نیویارک ’کابل سے زیادہ اہم ہے ، ہمیں سپیس کے ساتھ ساتھ سائیبر سپیس کے محاذ پر درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے ،ہمارے لیے کابل قندھار اور مزارشریف میں کیا رکھا ہے۔

‎اشرف غنی میدان جنگ میں مایوس افسردہ اور تنہا کھڑے ہیں۔ ان کا علم و فضل اور جان ہاپکنز کی ڈگریاں۔ ورلڈ بنک اور اقوام متحدہ میں کام کرنے کا تجربہ کسی کام نہیں آ رہا ، بظاہر نیم خواندہ طالبان ہر معاملے میں ان پر سبقت لیے جا رہے ہیں ، یہاں تک کہ ان کے امریکی سرپرست بھی انہیں اعتماد میں لیے بغیر طالبان سے براہ راست مذاکرات کر رہے ہیں۔

انہیں توہین آمیز خط لکھے جا رہے ہیں ، ڈانٹ ڈپٹ کی جا رہی ہے۔ بہار کے موسموں میں امریکی ٹوڈیوں پر خزاں رت کی آمد آمد ہے۔ کامل 4 دہائیوں بعد امن کی راہیں کشادہ ہو رہی ہیں۔ سوویت یونین کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ بھی داغ ناکامی لئے پسپا ہو رہی ہے۔

11 ستمبر 2021 کو نائن الیون حملوں کے 20 برس مکمل ہوں گے۔ حرف آخر یہ کہ گزشتہ ہفتے جناب آئی اے رحمٰن اور ضیاء شاہد سفر آخرت کو روانہ ہوئے۔ دونوں بزرگ متضاد نظریات کے حامل رہے۔ جناب رحمٰن سیکولر جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بلند کیے رہے ، ان کی من موہنی مسکراہٹ اور دھیما لہجہ شجر سایہ دار رہا ۔ آخری ملاقات گھنٹوں پر محیط تھی۔ اپنے سہیل احمد عزیزی کی مقبولیت اور ٹی وی سرمئی سکرین کی طاقت پر گفتگو کرتے رہے۔

شوریدہ سر جناب ضیاء شاہد سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے دم آخر تو تعلیمات قائداعظم سے زیادہ ایوان قائد کے حوالے سے ہونے والے تناؤ نے تعلقات ختم کر کے رکھ دیے تھے کہ انتقال سے صرف چار چھ ہفتے پہلے اچانک ان کی کال آ گئی ۔ چند شکوے شکایات کے بعد وہی بزرگانہ پیار و محبت اور قصے کہانیاں تھیں۔ کانفرنس کال پر جناب اسد اللہ غالب کو بھی شامل حال کر لیا تھا۔ آخری کال میں لاہور آمد پر حاضری کا پکا وعدہ لیا تھا اور خود سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔

جناب ضیا شاہد نے صحافت کو عوامی رنگ دیا ، عالی شان ایوانوں سے نکال کر بیچ چوراہے میں لے آئے ، وہ سر تا پا عامل و کامل صحافی رہے ، بے نواؤں کی آواز بنے ظلم اور اپنے طے کردہ ظالموں کا تعاقب کرتے رہے۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments