جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن


اڑھائی تین دہائیاں پہلے تک گاؤں کی زندگی ابھی کافی حد تک فطرت کے قریب تھی۔ مادیت اور تصنع کے عفریت سے ابھی دیہی علاقے قدرے محفوظ تھے۔ مسابقت کے لیے بے ہنگم دوڑ نے یہ علاقے اپنی لپیٹ میں نہیں لیے تھے۔ مشینوں اور مصنوعات نے ابھی ان لوگوں کا سکون غارت نہیں کیا تھا۔ محنت مشقت کی محدود کمائی۔ روکھی سوکھی روٹی اور پر سکون زندگی ان لوگوں کا اثاثہ تھا۔

اس دیہاتی زندگی کا کوئی منظر بھی بھولنے کے قابل نہیں لیکن اس وسیب میں پانی کا کنواں تو گویا ایک زندہ کردار تھا۔ شاعر فطرت ورڈزورتھ کی شہرہ آفاق نظم ”The Prelude“ پڑھیں تو یہ بات اور بھی سمجھ آتی ہے۔ ٹھنڈا، میٹھا تازہ اور صاف شفاف پانی مہیا کرنے کے علاوہ بھی اس کنویں کے کئی فوائد تھے۔ چھوٹے بچوں کے لیے یہ مستقل ایک جھولے کا کام دیتا۔ بیلوں کے پیچھے بندھی ”گادھی“ پر بچے بیٹھ جاتے۔ بیل ایک متوازن اور محفوظ رفتار سے گول دائرے میں چلتے رہتے اور گادھی پر بیٹھے مسرور بچے اس جھولے سے محظوظ ہوتے۔

کنویں کے کنارے عموماً پیپل یا برگد وغیرہ کا کوئی بڑا درخت ہوتا۔ مختلف پرندوں کی ایک بڑی تعداد کنویں کے اندر اور اس درخت پر رہتی تھی۔ لالیاں، فاختائیں اور چڑیاں بہتے کنویں کے آس پاس ہر وقت چہلتی رہتیں اور ماحول میں موجود فطری رنگ کو اور بھی گہرا کرتیں اور جنگلی کبوتر تو ایسے کنوؤں کی خاص پہچان ہوا کرتے تھے۔ سر شام یار لوگ ”کھوہ“ پر اکٹھے ہوتے۔ چوپالیں لگتیں۔ منڈلیاں سجتیں۔ سرما میں کنویں کے کنارے الاؤ دہکایا جاتا۔

اور پھر کوئی خوش گلو دوست مسحور کن آواز میں ”ہیر وارث شاہ“ پڑھنا شروع کرتا۔ انداز ایسا، پھبن ایسی کہ گویا خود وارث شاہ موجود ہو۔ ایسے میں رہٹ چلنے اور پانی گرنے کی آواز پس پردہ موسیقی کا کام دیتی۔ اونچی تان میں ”سریں“ لگائی جاتیں اور دور گاؤں کے باسیوں کے لیے یہ سریں گویا لوریوں کا کام دیتیں اور وہ انہیں سنتے سنتے جانے کب نیند کی وادی میں اتر جاتے۔

ہمارے گاؤں میں ایک اور قابل ذکر ”کردار“ ایک بہت بڑے برگد کے درخت کا تھا۔ گاؤں کے بالکل مرکز میں کئی دہائیوں سے ایستادہ یہ درخت گاؤں کا قدیم ترین رازدار تھا۔ موسم گرما کے آٹھ نو مہینے گاؤں والوں کا اس کے ساتھ بہت قریبی واسطہ رہتا۔ صبح سویرے لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہو کر اپنی اپنی چارپائیاں اٹھائے برگد تلے پہنچ جاتی۔ مرد و خواتین۔ بچے بوڑھے سبھی وہاں موجود ہوتے اور پھر شام ڈھلے یہ سب کہیں واپس جاتے۔

برگد تلے لوگوں کا یہ اکٹھ دن بھر رنگ بدلتا رہتا۔ کبھی یہ ”کانفرنس ہال“ کا روپ دھار لیتا۔ کبھی ”گروپ ڈسکشن“ ہونے لگتی۔ دوپہر میں سب لوگ اپنا اپنا کھانا یہیں لے آتے تو یہ کسی بڑے ”ڈائننگ ہال“ کا منظر پیش کرتا۔ ایسے میں چاٹی کی لسی، اچار اور تندور کی گرما گرم روٹیوں کی اشتہا انگیز مہک آس پاس میں پھیل جاتی۔ کھانے کے بعد سبھی قیلولہ کرتے تو یہ ایک بڑی سی خواب گاہ کا رنگ اختیار کر لیتا۔ یوں گرمیوں کی طویل دوپہریں اکٹھی بیتائی جاتیں۔ مسائل کے سر اٹھانے سے پہلے ہی ان کا اجتماعی حل نکالا جاتا۔ سانجھ پن کا یہ انداز۔ قربت کا یہ احساس اب مفقود ہے۔ اور ایسی فرصتیں تو اب خواب ہو گئی ہیں۔

ان دنوں آرگینک فوڈ ہی واحد ”آپشن“ تھی اور اسی کا استعمال لوگوں کی ’مجبوری‘ تھی۔ ’گنگو تیلی‘ سے ’راجہ بھوج‘ تک اور بے بے نوراں سے بابا رحمت تک۔ سبھی یہی خوراک استعمال کرتے تھے۔ خوراک کی طرح لباس کے استعمال میں بھی زیادہ تفاوت نہیں تھی۔ زندگی مشقت طلب تھی اور لوگ مشقت پسند۔ جسمانی سرگرمیاں بہت زیادہ تھیں۔ طویل مسافتیں پیدل طے کی جاتیں۔ خالص خوراک سب کو میسر تھی۔ لوگ فٹ فاٹ اور صحت مند تھے اور ڈاکٹرز اور دوائیوں کی پہنچ سے بہت دور۔

بدنی مشقت کی بناء پر شوگر بلڈ پریشر اور ان سے جڑے دیگر امراض قریب قریب ناپید تھے۔ ہیپا ٹائیٹس کے نام سے مریض تو کیا شاید ڈاکٹر حضرات بھی مانوس نہیں تھے۔ لوگ سکون آور ادویات سے کوسوں دور خالص میٹھی بھرپور اور اپنی نیند سوتے اور صبح اذان کی آواز پر بیدار ہوتے۔ زندگی عجیب مزیدار، بڑی لذت بھری اور فطرتی رنگوں سے بھرپور تھی۔ اور پھر وقت پورا ہو جانے پر عموماً لوگ ایک مختصر سی علالت کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہو جاتے۔

بڑے شہروں کے ہسپتالوں کے آئی سی یو تک ان کی رسائی تھی اور نہ انہیں ضرورت۔ اور وینٹی لیٹر سی عذاب میں لپٹی سہولت تو شاید شہروں میں بھی متعارف نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا اس کا استعمال تو تصور سے باہر تھا۔ انتظار حسین تہذیب کے آدمی تھے لہٰذا بہت پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ اگر کبھی کوئی ایسا وقت آ جائے تو مجھے ’وینٹی لیٹر‘ پر نہ ڈالا جائے۔

گاؤں کے راستے کچے ہوتے تھے جن پر چلنے سے اگرچہ پاؤں مٹی آلود ہو جاتے لیکن کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی روح صاف اور پاکیزہ رہتی۔ اس وقت کے دیہی معاشرے میں منافقت اور منافرت کا چلن اتنا عام نہیں تھا۔ تہذیبی روایات اور اخلاقی اقدار پر عمل درآمد بہت عام تھا۔ رواداری اور برداشت کا چلن تھا۔ مسلکی اور سیاسی اختلاف کے لیے احترام اور برداشت کا جذبہ موجود تھا۔ شدت پسندی اور نفرت کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ خاندانی رشتوں میں محبت خلوص اور انسیت کی فراوانی تھی۔

لوگ خالص پن کی محبت میں فطرت کے قریب رہتے اور زندگی میں سکون پاتے۔ شاعر فطرت یاد آتا ہے۔ کہتا تھا کہ یہ دنیا ہمارے اوپر چھا گئی ہے اور ہم فطرت پر غور نہیں کرتے جو کہ ہماری اپنی ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ مادی ترقی کی اس وحشت ناک اور طوفانی دوڑ میں ہم کہاں سے کہاں نکل گئے ہیں۔ سہولتوں کے حصول کے لیے ہم یوں بے طرح بھاگ رہے ہیں کہ اعصاب شل ہو گئے ہیں اور سکون پیچھے۔ کہیں بہت پیچھے۔ گم ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا چاہیے تھا! سہولتیں یا سکون؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments