کالعدم تحریکِ لبیک، اسپیڈو بس کی لڑائی اور فتنہ


”عورت فتنہ ہے“ یہ تو ہم عام طور پر سنتے ہیں۔ اپنی مرضی سے کوئی وعظ دے دیا تو عورت فتنہ، گھر الگ کر لیا تو فتنہ، حق مانگ لیا تو فتنہ۔ آج میں آپ کو بتاتی ہوں کہ فتنہ کیا ہوتا ہے اور کون ہوتا ہے۔

کالعدم تحریک لبیک کے کارکنوں کے احتجاج کی ویڈیو دیکھنے کو ملی، جس میں فراخ دلی سے والدہ اور ہمشیرہ کی ”آبرو ریزی“ پر مبنی گالیاں سنی جا سکتی تھیں، جس سے کچھ ہفتے قبل کا ایک واقعہ یاد آیا۔ یہ کورونا کی تیسری لہر سے کچھ روز قبل کا واقعہ ہے جب پبلک ٹرانسپورٹ رواں تھی۔ جیسا کہ اسپیڈو بس کچھ مخصوص لمحات کے لئے ہی ایک اسٹاپ پر کھڑی ہوتی ہے، وقت سے زیادہ کھڑی ہو تو ڈرائیور کو کچھ جرمانہ ہوتا ہے، کم از کم سنا یہی ہے۔ شام کا وقت تھا، بس میں تل دھرنے کو بھی جگہ باقی نہ تھی۔ مرد و زن کے دونوں خانے ہی بھرے پڑے تھے۔ شام کے اوقات بھی کچھ ایسے ہجوم زدہ ہوا کرتے ہیں کہ بیٹھنے کو تو دور، ٹھیک سے پیر جمانے کو جگہ ڈھونڈنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

اس شام ہوا کچھ یوں کہ ایک اسٹاپ پر ڈرائیور حضرت کی رکشے والے سے زبانی کلامی مڈبھیڑ سی ہو گئی۔ تنازعہ جگہ کا تھا کہ رکشے والے نے بس کو دیکھ کر اپنا رکشہ آگے کیوں نہ سرکایا، اب بس چونکہ سرکاری ہے تو قدرتی سی بات ہے کہ سرکاری ڈرائیوروں کو عام ڈرائیوروں پر فضیلت ہوتی ہے۔ یہ تنازعہ جو فی الوقت زبانی دھمکیوں سے لبریز تھا، کو کافی وقت ہو گیا، ڈرائیور کو اس بابت رتی برابر فکر نہ تھی کہ اس کے کتنے پیسے جرمانے کی دیگ چڑھیں گے۔

بات شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوتی گئی اور بحث ختم نہ ہوئی۔ پھر کیا ڈرائیور طیش میں آ گیا، جس کو رکشے والے نے نیچے سے للکار دیا تھا۔ یاد رہے کہ تنازعہ بس اسٹاپ کی جگہ کا تھا اور بس مسافروں سے لدی پڑی تھی۔ کچھ بارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد کسی طرح گھر جانے کو بے تاب تھے۔ ڈرائیور جو کہ غصے میں لال اور پیلا ہو چکا تھا، بجلی کی تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا، آؤ دیکھا نہ تاؤ، بس میں کھڑی عورتوں کو دھکے دیتے ہوئے نیچے اتر گیا۔

مخالف محاذ پر رکشے والا بھی آستینیں چڑھا چکا تھا۔ ڈرائیور جو دھکے دیتے اترا، اس کے ساتھ بس کا کنڈکٹر کہ معاملات کچھ سلجھ جائیں، نیچے اتر گیا، وہاں سے رکشے والے کے ساتھی رکشے والے بھی میدان میں کھڑے زبانی کلامی جنگ کو بے تاب تھے۔ یہاں ڈرائیور کیا اترا، بس میں موجود نشستوں پر براجمان اور کھڑے تقریباً تمام حضرات بس سے اتر کر ڈرائیور کی حمایت میں پرائی لڑائی میں دیوانہ وار عبداللہ بن گئے۔

میں نے پیچھے پلٹے بنا ہی بس کے اندر اور باہر کے ماحول میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھی۔ چند لوگ جو گنے جا سکتے تھے، بس کے اندر تھے، بقیہ سب لڑائی کا حصہ بن چکے۔ وہ بس جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، وہ اب خالی تھی۔ بحث نے دو حضرات کے مابین جنگی نوعیت اختیار کی اور پچاس سے زائد مسافر اس میں تماش بین اور سپاہی بنے برسر پیکار تھے۔ بس کے مسافروں کے چہروں پر مسرت کے جو احساسات یک دم نمودار ہوئے، ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے روحانیت یا رومانیت نے انہیں آن گھیرا ہو۔ وہ کیا ہے ناں کہ وطن عزیز میں دنگے، فساد اور ہاتھا پائی سے رغبت بھی قومی نوعیت کی ہے، پرائی لڑائی میں بھی انسیت نکال لیتے ہیں۔

پہلے سے گرم لڑائی کا میدان جو کہ ایک عدد بس اسٹاپ تھا عروج پر تھا۔ دونوں اطراف کے صاحبان سے عورتوں کے بدن کے خد و خال کی توہین اور تحقیر پر مبنی زبانی شاہکار برآمد ہو رہے تھے۔ ڈرائیور نے رکشے والے کی بیٹی کے جسم کا جنسی جبر کی دھمکیوں سے ایسا نقشہ کھینچا کہ شاید شیطان نے بھی پناہ مانگی ہو، دوسری جانب رکشے والے نے بوڑھے ڈرائیور کی ضعیف ماں جو خدا معلوم دنیا میں رہی بھی نہ ہوں کو ریپ کرنے کی عزائم کا اظہار کیا۔

جواب میں رکشے والے نے ڈرائیور کی گھر کی عورتوں کے گوشت پوست کے گالیوں میں تکے بنائے تو رکشے والوں نے بس والوں کی بیٹیوں، بھانجیوں کے سر تا پا مخصوص جسمانی اعضا کی نمائش بیچ بازار میں کرنے کا عندیہ دیا۔ جب پچاس ساٹھ معزز حضرات نے آپس میں بہن، بیٹیوں، ماؤں اور کم سن بچیوں کے جسم کو خوب ناپ لیا، تو یک دم ہجوم کو چیرتا ڈرائیور بس کی طرف امڈا، مگر اپنا ارادہ فوراً بدلتے واپس مڑ گیا۔ غصے اور پسینے سے بھرپور طیش کھائی مردانگی کے چرخے پر رینگتے ایسٹروجن نے عورتوں کی خوب درگت بنائی۔

یہاں صرف یہ اہم بات نہیں کہ صنف مخالف کس طرح سیخ پا ہو جاتی ہے، جو صحیح اور غلط میں تمیز بھلا کر، بیچ سڑک یا ویرانے میں بھی کسی عورت کے جنسی استحصال کی اپنی برتری کی خاطر مصوری کرتے ہیں۔ جب یہ حضرات گوشت کے پارچوں پر لڑنے والے درندوں کی طرح باہم گتھم گتھا تھے، وہیں میں نے بس میں موجود بیٹھی اور کھڑی عورتوں کو اس حیوانیت پر ہنستے اور باتیں بناتے دیکھا۔ مجھے دل سے خوشی ہوئی کہ کم از کم کہیں تو عورتوں نے اس بدمزاجی کو اپنی راحت میں گھولا ہے۔ اجنبی مسافر خواتین نے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے اور قہقہے لگاتے آدمیوں کی بے وقوفی اور لڑائی کا خوب تمسخر اڑایا۔

ایک خاتون سب سے مخاطب ہوئی کہ دیکھو کیسے چیلوں کی طرح لڑ رہے ہیں، کیسے عورتوں اور بچیوں کی گالیاں دے رہے ہیں، جیسے کبھی کسی انسانی تہذیب میں نہ رہے ہوں۔ دوسری خاتون گویا ہوئیں ”یہ تو خنزیر کی طرح سڑک میں اپنی ماؤں اور بہنوں کی آبرو کو فروخت کر رہے ہیں۔ ورنہ ان سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں بنتا۔ کھوٹے لوگ، چھوٹے لوگ“ ۔ ایک لڑکی نے جواب دیتے ہوئے کچھ یہ کہا کہ ہمیں تو خوامخواہ میں فضول ایکشن مووی دیکھنا پڑ گئی ہے۔ بس اسٹاپ نہ ہوا، نچلے درجے کا سینما گھر ہو گیا۔

کالعدم تحریک لبیک کے احتجاج کی ویڈیوز اور عام حالات میں کسی بھی مشتعل ہجوم کی ویسی ہی شکل اور زبان ہوتی ہے جو بس کے باہر تھی۔ پاکستان کی عورتیں، جن کے خلاف تشدد، نفرت، فتوے اور ہر تیسرے جملے میں ان کا نام لے کر گالی دی جاتی ہے، ایسی ہیں کہ غسل کے بنا نماز نہیں پڑھتیں، وضو کے بنا قرآن کو ہاتھ نہیں لگاتیں۔ ناموس رسالت کے نام پر ہونے والے احتجاج میں ایک دوجے کو عورت کی بھرپور گالی دی گئی۔ ملک کو معذور یہ کریں، غصہ ان کو فرانس پر ہو اور گالی عورت کو دیں۔ ان کے لئے کس قدر سہل ہے کہ جب غصہ آئے سامنے والے سے منسلک کسی بھی عورت کو تہس نہس کرنے کی دھمکی دے دی جائے۔ ان کے بھڑکتے دل اور سلگتے جذبات پر شبنم پڑ جاتی ہے جب کوئی عورت کمزور معلوم ہوتی ہے۔

میں جاننا چاہتی ہوں، جو انتشار اور ناٹک سڑکوں پر ہو رہا ہے اور جو ہوتا آیا ہے، یہ جو ہمیشہ سے آگ اور خون کا بازار لگا ہے، جو دھماکے کرتے تھے، بم بناتے رہے، یہ کلاشنکوف والے، یہ ڈنڈے جو برساتے ہیں، جو خون بہاتے ہیں، ایمبولینسوں کو روک کر زندگیاں گل کرتے ہیں، اسپتالوں میں گھس کر مریضوں کے آکسیجن سلنڈر نوچتے ہیں، مسیحاؤں کو قید کرتے ہیں، موٹر سائیکلوں کو آگ لگا کر، گاڑیوں کو جلا کر، چوراہوں میں سر تن سے جدا کر کے عبرت جو بانٹتے ہیں وہ کس حد تک فتنہ گر ہیں یا یہ کوئی ان دیکھے مسیحا ہیں؟ کیا عورت کو فتنہ کہنے والے اب باز آئیں گے؟ عورت کو لاوارث تو ریاست بھی چھوڑتی ہے تو عورت پر قہر یہ ملا بھی برساتے ہیں۔ ہمارا دل کبھی بھی ان کے ساتھ نہیں ہو سکتا جن کا اٹھنا بیٹھنا عورت کی ذات کی نفی اور تنزلی ہے۔ ”عورت فتنہ ہے“ مگر کیا آپ نے کبھی انتہا پسندوں کے احتجاج دیکھے ہیں؟

ایسی کیا چیز ہے جو ایسے لوگوں کے ہر احتجاج اور مقابلے کو عورت کے وجود کی تذلیل کے بنا پایۂ تکمل تک نہیں پہنچاتی؟ ایسی کون سی تپش ہے نفرت کی، انتقام کی، تشدد کی جو آخری سانس نہیں بھر پا رہی؟ کیا فطرت سے ارتقائی غلطی سرزد ہوئی ہے یا وحشت کی بد دعا ہے؟

آخر اتنی تخریب کاری کہاں لے کر جائیں گے؟ جہنم میں؟ یا جہنم اپنا ایندھن اس نفرت اور بربادی کے سامان سے لیتا ہے جو یہاں کے لوگوں کے سینوں پر رینگتی ہے جو پل بھر میں بھڑک اٹھتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments